کتاب کا نام: افسانہ ادب 1
کوڈ:5603
موضوع: باغ و بہار کا ماخذ
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
باغ و بہار کا ماخذ
میر امن کی باغ و بہار اردو نثر کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جاتی رہیں گی ۔ باغ و بہار انیسویں صدی کی سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جو اردو میں لکھی گئی ۔ یہیں سے انیسویں صدی میں اردو نثر کا آغاز ہوا ۔ اس کتاب کے مولف فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے وابستہ تھے ۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے عام فہم اور آسان زبان میں کتا بیں تصنیف و ترجمہ کر کے اردو نثر کی پیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔ اس کالج کا اولین مقصد اگر چہ ہندوستان میں متعین انگریزوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے آسان اور عام فہم انداز میں کتا بیں تصنیف کرنا تھا مگر اس طور بالواسطہ اور ونثر نے خاطر خواہ ترقی کی ۔
میر امن کی داستان باغ و بہار مسلمہ طور پر اردو کی بہترین داستانوں میں سے ہے۔ یہ داستان میر امن کی تصنیف نہیں بلکہ فارسی قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے۔ میر امن نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے۔ یہ قصہ چار درویش کا ابتدا میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیا زری زر بخش جو ان کے پیر تھے اور درگاہ ان کی دلی میں لال قلعے سے تین کوس لال
دروازے کے باہر نیا دروازے سے آگے لال بنگلے کے پاس ہے ان کی طبیعت ماند ہوئی. تب مرشد کے بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور بیمار داری میں حاضر رہتے اللہ نے چند روز میں شفا دی ۔ تب انہوں نے غسل صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا خدا کے فضل سے تندرست رہے گا ۔ جب سے یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا
باغ و بہار مرتبہ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی، مکتبہ معین الادب لاہور 1967 ء ص (7)
پروفیسر محمود شیرانی نے میر امن کی اس روایت کو غلط قرار دیتے ہوئے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ امیر خسرو کا اس قصے سے دور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ اس میں ایسی چیزوں کا بھی ذکر ہے جو امیر خسرو کے عہد میں نہیں تھیں ۔ ان کے بیان کے مطابق یہ داستان محمد علی معصوم کی تصنیف ہے۔
پروفیسر محمود شیرانی کے دلائل کا جو خلاصہ ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنے مقالہ اردو کی نثری داستانیں، میں درج کیا ہے اس کے کچھ نکات حسب ذیل ہیں۔
-1 فارسی نسخے میں متعد د اشعار خسرو سے بعد کے شعر امثلاً حافظ عرفی اور نظیری کے ہیں۔
-2 قصے میں تو مان اور اشرفی کا ذکر ہے جو خسرو کے عہد میں رائج نہیں ہوئی تھیں ۔ نیز ایسے متعدد عہد یداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو دور مغلیہ کی اختراع ہیں۔
3-حضرت علی اور دیگر ائمہ کے تذکرے سے مصنف کا تشیخ ظاہر ہوتا ہے ۔ تقلیے کا بھی مذکور ہے جبکہ خسرو پکے سنی تھے۔
4- امیر خسرو کی تصانیف میں چار درویش کا نام کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔
ڈاکٹر گیان چند جین نے ان دلائل میں اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تیسرے درویش کی سی میں ملکہ کا کو کہ منجملہ دوسرے اسلحہ کے طلبچوں کی جوڑی سے بھی آراستہ ہے۔ نوطرز مرصع میں بھی طینچہ کا لفظ ہے ۔ اہل ہند نے پہلی بار بابر کی فوج کے پاس توپ دیکھی ۔ اس سے پہلے چھوٹے آتشیں اسلحہ کا تو کیا مذکور ہے۔
(اردو کی نثری داستانیں ص 166)