مفت اردو ادب وٹسپ چینل

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

باغ و بہار اردو نثر کا ایک لازوال شاہکار


باغ و بہار: اردو نثر کا ایک لازوال شاہکار، ایک اجتماعی جائزہ

اردو ادب کی تاریخ میں جب بھی سادہ، سلیس اور دلکش نثر کا ذکر آتا ہے تو میر امن دہلوی کی "باغ و بہار” کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ یہ داستان نہ صرف اپنی کہانی کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اس نے اردو نثر کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ ذیل میں ہمارے گروپ کے اراکین کے خیالات اور تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں جو اس شاہکار تصنیف کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

باغ و بہار: ایک تعارف

باغ و بہار ایک داستان ہے جو میر امن دہلوی نے لکھی ہے جو قصہ چاردرویش کا غالباً ترجمہ ہے۔ اس میں انھوں نے عام لوگوں کی زبان استعمال کی جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا اور پڑھ سکتا تھا۔ اس میں خواجہ سگ پرست کا کردار کافی دلچسپ ہے۔

باغ و بہار اردو ادب کی ایک دل کش، نثری شاہکار تصنیف ہے جسے میر امن دہلوی نے 1802ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے کہنے پر لکھا۔ یہ دراصل فارسی کتاب "قصة چہار درویش” کا اردو ترجمہ ہے، مگر میر امن نے ترجمے کے ساتھ اسے فصاحت و بلاغت اور دلکش زبان سے اس طرح سنوارا کہ یہ اردو ادب کا کلاسیکی سرمایہ بن گئی۔

"باغ و بہار” میں نہ صرف حکایتی اسلوب ہے بلکہ زبان کی صفائی، محاوروں کا برمحل استعمال اور دلچسپ بیانیہ بھی اس کی مقبولیت کی وجہ بنا۔ اس میں چار درویشوں کی کہانیوں کے ذریعے عبرت، اخلاق، محبت، وفاداری، اور دنیا کے نشیب و فراز کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب نے اردو نثر کو سادہ اور عام فہم بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس کے اسلوب نے عوام و خواص دونوں کو متاثر کیا اور یہ کتاب تعلیمی اداروں میں عرصہ دراز تک اردو ادب کی تدریس کا حصہ رہی۔ میر امن دہلوی کا مقصد نثر کو محض علمی نہیں، بلکہ دلچسپ اور بول چال کے قریب بنانا تھا، جو وہ کامیابی سے حاصل کرنے میں سرخرو ہوئے۔ "باغ و بہار” اردو زبان کی اس پہلی کڑیوں میں سے ہے جس نے داستانوی انداز کو نئی زندگی بخشی اور آج بھی اسے اردو نثر کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

حوالہ: میر امن دہلوی، باغ و بہار، فورٹ ولیم کالج، کلکتہ، 1802۔

فورٹ ولیم کالج اور باغ و بہار کا تاریخی پس منظر

فورٹ ولیم کالج 1800ء میں کلکتہ (موجودہ کولکتہ) میں لارڈ ویلزلی کے حکم سے قائم ہوا۔ اس ادارے کا مقصد کمپنی کے ملازمین کو مقامی زبانوں، بالخصوص فارسی، اردو، بنگالی اور ہندی میں مہارت دلانا تھا تاکہ وہ ہندوستانی عوام سے بہتر انداز میں رابطہ کر سکیں۔

یہ کالج اردو نثر کی ترقی میں سنگِ میل ثابت ہوا۔ یہاں بہت سی مشہور داستانیں، کہانیاں اور اخلاقی نصاب اردو میں ترجمہ کیے گئے۔ اردو نثر کو ایک منظم اور معیاری قالب دینے کا سہرا بھی فورٹ ولیم کالج کے سر ہے۔

ان داستانوں میں سب سے نمایاں اور مشہور داستان "باغ و بہار” ہے، جسے میر امن دہلوی نے فارسی داستان قصۂ چہار درویش سے اردو میں منتقل کیا۔ یہ ترجمہ اتنا دلکش، رواں اور سلیس تھا کہ باغ و بہار اردو نثر کا کلاسیکی نمونہ بن گئی۔ اس نے اردو نثر کو ایک نیا اسلوب اور روانی دی۔ یوں فورٹ ولیم کالج نے نہ صرف ترجمہ نگاری کو فروغ دیا بلکہ اردو ادب کو ایک نئی زبان و بیان کی سمت عطا کی، اور "باغ و بہار” اس کا بہترین نمائندہ نمونہ ہے۔

داستان ”باغ و بہار ” میرامن دہلوی کی داستان ہے جو اس کی پہلی اشاعت 1803ء میں ہوئی اور یہ داستان فارسی کے مشہور داستان نوطرز مرصع کا اردو میں ترجمہ شدہ داستان ہے۔

داستان کا مرکزی خیال اور سبق

باغ و بہار ایک بادشاہ کی اپنی کہانی ہوتی ہے جسے چار دوسرے کرداروں کی مدد سے پیش کیا گیا ہے۔ چار درویش اصل میں چار خیال ہیں جو کہ اپنی زندگی سے ناامید ہو کر خود کشی کی غرض سے خود کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آخری وقت میں ان کو جو خبردار کرتا ہے وہ ایک امید کی کرن کے طور پہ ہے جو کہ ان کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے جس سے ان کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ سبق دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی حالت میں ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ توکل صرف اللّٰہ پہ ہو اور اپنی جد و جہد جاری رکھیں۔

ادبی اہمیت اور ناقدین کی آراء

بابائے اردو مولوی عبدالحق کا نقطہ نظر

میر امن دہلوی نے باغ و بہار کے ذریعے اردو نثر کو محض ایک اظہار کا وسیلہ نہیں، بلکہ ایک فنِ لطیف کا درجہ عطا کیا۔ ان کی زبان میں جو سلاست، صفائی اور محاوراتی چمک ہے، وہ آنے والی نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن گئی۔ گویا اردو نثر نے اس کتاب میں اپنی جوانی اور رعنائی کا پہلا جلوہ دکھایا۔

اردو داستان میں باغ و بہار میر امن کے سادہ سلیس اور دہلوی زبان کی عمدہ مثال ہے۔ یہ اردو ادب میں ایک حیثیت کی حامل ہے۔ بابائے اُردو مولوی عبدلحق اس کتاب کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ: "جب میں اردو بھولنے لگتا ہوں یہی کتاب (داستان باغ وبہار) پڑھتا ہوں۔“

دیگر نامور ناقدین کی آراء

  • رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
    "میر امن نے فارسی کا لبادہ اتارا، اردو کو تہذیب کا جامہ پہنایا، اور باغ و بہار کے ذریعے اردو نثر کو پہلی بار محض لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، بلکہ سننے اور سنانے کی لذت بخش کیفیت بنا دیا۔”
    (حوالہ: رشید احمد صدیقی، خنداں و خموش اور گنج ہائے گرانمایہ)
  • جمیل جالبی کے مطابق:
    باغ و بہار اردو نثر کی بنیاد، سادگی و فصاحت کا نمونہ، اور نثر میں مثنوی جیسی اہمیت رکھتی ہے۔
    (حوالہ: تاریخِ ادبِ اردو، جمیل جالبی، جلد دوم)
  • ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق:
    باغ و بہار اردو نثر کی آبرو، قصہ گوئی کا شاہکار اور فصیح و سلیس اسلوب کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

اسلوبِ بیان اور تہذیبی عکاسی

باغ و بہار میں دہلوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہے۔ فسانہ عجائب میں لکھنوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی ہے۔ دہلی کی زبان سادہ اور سلیس اور لکھنو کی زبان اس کے برعکس ہے۔


معاونین

  • دولت خان پریمؔ
  • ذیشان خان شانم
  • ضیاءاللہ جان، بونیر

Disclaimer

The content of this blog post is a compilation of messages from a discussion held in a private WhatsApp group. The text has been reproduced verbatim to preserve the original contributions of the members. The opinions expressed belong to the individual contributors and are presented here as a collective review of the literary work "Bagh o Bahar.”

Abstract

This article provides a multi-faceted overview of "Bagh o Bahar,” a classic of Urdu prose by Mir Amman Dehlvi. Compiled from a group discussion, it explores the book’s introduction, historical context related to Fort William College, its central theme of hope, and its profound literary significance. The post includes commentary from various contributors and cites the opinions of renowned Urdu critics like Maulvi Abdul Haq, Rasheed Ahmad Siddiqui, and Jamil Jalibi, highlighting the work’s simple yet elegant style and its foundational role in modern Urdu prose.

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں