بابا فرید الدین مسعود شکر گنج
عہد سلاطین جو پنجاب پر غزنوی تسلط سے شروع ہو کر ابراہیم لودھی کی بابر کے ہاتھوں شکست تک پھیلا ہوا ہے پنجابی شاعری میں صرف بابا فرید ہی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
موضوعات کی فہرست
اگر چہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ بابا صاحب کے علاوہ یہاں کسی نے اپنی مادری زبان میں شعر نہ کہے ہوں اور جب مسعود سعد سلمان کے بارے میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس کا ایک مقامی زبان میں بھی دیوان تھا تو ذہن اس طرف از خود جھک جاتا ہے کہ اور مسلمان اہل سخن نے بھی پنجابی میں کچھ نہ کچھ کہا ہوگا جو دستبرد زمانہ کی نذر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بابا فرید کے اشلوک | PDF
با با فرید کا کلام باوا نانک نے چند اور صوفی شاعروں کے کلام کے ساتھ اپنے مجموعہ کلام کے آخر میں یک جا کر دیا اور یوں وہ محفوظ ہو گیا ، ورنہ بعید نہ تھا کہ زمانے کا بے رحم ہاتھ اسے بھی ہم سے چھین لیتا۔
آدی گرنتھ میں ان اشعار کو اشلوک کہا گیا ہے جو قیاس ہے کہ اس دور میں ایسے اشعار کے لیے مروج اصطلاح ہوگی ، اس کے لغوی مفہوم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
بظاہر ان اشعار کو ابیات کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیشتر ایک بیت کی شکل میں ہیں اور ایک دوسرے سے بے تعلق ۔ ان ابیات میں فرید نے زندگی اور مال و منال زندگی کی بے مصرفی کی بات کی ہے۔
جہان فانی پر جہان باقی کو ترجیح دینے کی بات کی ہے اور جاہ و منصب رفتنی پر فریفتہ ہونے والوں کی زیاں کاری کی بات کی ہے اور جہاں ان باتوں کے اظہار کے لیے پنجاب میں بولی جانے والی زبان ہی کو اختیار کیا تا کہ یہاں کی اکثریت اس سے فائدہ اٹھا سکے اور لذت گیر ہو سکے، وہاں اسی ماحول سے وضاحت کے لیے رموز و کنایے بھی لیے۔
بابا فرید کے اشلوکوں کا نثری ترجمہ
اے فرید اگر تو سمجھتا ہے کہ اپنی اصل کے لحاظ سے تو مادی اجزا کا پیکر نہیں ہے بلکہ عقل لطیف ہے تو پھر اپنے دفتر عمل کو یوں سیاہ نہ کر اور اپنے گریبان میں سر ڈال کر اندازہ کرنے کی کوشش کر کہ کیا تیرے اعمال عقل لطیف ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
اے فرید جنگل جنگل کیا گھوم رہا اور وہاں کے کانٹوں اور جھاڑیوں کو پامال کر رہا ہے۔ خدا تو تیرے دل میں بستا ہے اور تو عبث اس کو جنگلوں میں ڈھونڈ رہا ہے۔
اے فرید جاٹ بول بول رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے علاقہ بجور کا انگور کھانے کو ملے ۔ وہ خود تو اون کتانے میں لگا ہوا ہے اور ریشمی کپڑے پہننے کا تمنائی ہے۔
☆☆☆
اے فرید کوک کوک کر کہنے خبر دار کرنے اور پند دیتے رہنے کے باوجود جو شیطان کے بہکانے میں آجائے وہ کسی اور طرف ذہن نہ لگائے ۔
☆☆☆
اے فرید میں تو اسی فکر میں غلطاں ہوں کہ میری پگڑی میلی ہو جائے گی اور یہ میری روح کی لا پرواہی ہے کہ وہ اس حقیقت کا احساس نہیں کرتی کہ یہاں تو وہ سر بھی ایک دن خاک کا لقمہ بنے گا جس پر پگڑی باندھی جاتی ہے۔
☆☆☆
اے فرید شکر کھانڈ ، مصری، گڑ شہد اور بھینس کا دودھ اس میں شک نہیں کہ سب شیریں ہیں اور تجھے عزیز ۔ لیکن ان میں کسی کا چر کا بھی تجھے خدا تک پہنچا نہیں سکتا۔
☆☆☆
جو روکھی سوکھی تجھے کھانے کو اپنے وسائل کے مطابق ملتی ہے اسے کھا اور پانی پی کر مطمئن ہو جا۔ اے فرید دوسرے کی چپڑی دیکھ کر رال ٹپکانے سے کیا حاصل۔
☆☆☆
اے فرید ! وقت کی کارگزاری پر ذرا غور کر کہ تیری داڑھی سفید ہوگئی ہے اور موت قریب آگئی ہے۔ پچھلا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور زندگی دور جا رہی ہے۔ موقعے کو غنیمت جان اور باقی مانده سانس خدا کی عبادت میں صرف کر۔
☆☆☆
اے کوے تو سب گوشت کھا کر اور نوچ کر مجھے ہڈیوں کا پنجر کر دے مگر یہ دو آنکھیں مت کھانا ان میں محبوب ( حقیقی ) کو دیکھنے کی آس ہے۔
(پاکستانی ادب ]
پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ: 5618
صفحہ: 77 تا 78،موضوع: پنجابی شاعری کا پہلا دور،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ،پنجابی شاعری کا پہلا دور