ناول گریز کا تنقیدی جائزہ
(تحریر:علی حنظلہ، مریم اشرف وغیرہ )
موضوعات کی فہرست
ناول گریز کا تعارف
گریز عزیز احمد کا ایک مشہور اردو ناول ہے جو 1950 کی دہائی میں لکھا گیا۔ یہ ناول اردو ادب میں جدیدیت اور نفسیاتی حقیقت نگاری کا ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
عزیز احمد نے اس ناول کے ذریعے انسانی جذبات، خواہشات، اور معاشرتی رشتوں کی پیچیدگیوں کو نہایت باریک بینی اور گہرائی سے پیش کیا ہے۔
گریز عزیز احمد کا ناول ہے,اس میں عزیز احمد نے دو تہذیبوں کے رسم و رواج کو بڑے احسن انداز کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اگر میں اس طرح کہوں کہ دو تہذیبوں کا ٹکراؤ تو یہ غلط نہ ہو گا۔یہ ناول پاکستانی رسم و رواج اور انگلینڈ یا لندن کے رسم و رواج کے درمیان فرق کو بڑے واضح انداز کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
اس ناول میں عزیز احمد نے بڑے اچھی منظر نگاری کی ہے ناول پڑھتے وقت ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم بیک وقت مصنف کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
کردار نگاری میں بھی مصنف کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور ہر کردار کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔
اردو ادب میں لفظ گریز
اردو ادب میں "گریز” ایک اہم موضوع اور علامتی مفہوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ موضوع اکثر شاعری، افسانوں، اور ناولوں میں دکھائی دیتا ہے، جہاں انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں، جذباتی یا فلسفیانہ کشمکش، اور معاشرتی حقائق سے فرار کی کوشش کو پیش کیا جاتا ہے۔
گریز کا مفہوم
"گریز” سے مراد کسی حقیقت، صورت حال، یا ذمہ داری سے بچنے یا فرار حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ انسانی ذہن کی ایک عام کیفیت ہے، خاص طور پر جب وہ کسی دباؤ یا غیر متوقع حالات کا سامنا کر رہا ہو۔
اردو ادب میں گریز کا استعمال
اردو ادب میں گریز مختلف انداز میں ظاہر ہوا ہے، خواہ وہ شاعری ہو، افسانہ، یا ناول۔
شاعری میں گریز
اردو شاعری میں گریز کا عنصر بہت نمایاں ہے، خاص طور پر کلاسیکی غزل میں۔
میر تقی میر اور غالب جیسے شعرا نے گریز کو عشق، دنیاوی پریشانیوں، اور روحانی تلاش کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
مثال:
غالب کہتے ہیں:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
یہاں گریز موت کے ذریعے دنیاوی غموں سے آزادی کے مفہوم میں پیش کیا گیا ہے۔
افسانوں میں گریز
اردو افسانوں میں گریز ایک علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کردار اکثر اپنی حقیقت سے فرار کی کوشش کرتے ہیں۔
منٹو کے افسانوں میں کردار سماجی بندشوں اور اخلاقی قیود سے گریز کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت انہیں واپس اپنی جگہ پر لے آتی ہے۔
انتظار حسین کے افسانے ہجرت اور جڑوں سے کٹ جانے کے گریز کی بہترین مثال ہیں، جہاں کردار ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ناولوں میں گریز
قرۃ العین حیدر کے ناولوں، خاص طور پر آگ کا دریا میں، گریز کا عنصر نمایاں ہے، جہاں کردار ماضی، حال، اور مستقبل کے فلسفے میں الجھے نظر آتے ہیں۔
عبداللہ حسین کے ناول اداس نسلیں میں گریز تاریخی واقعات کے تناظر میں دکھائی دیتا ہے، جہاں کردار اپنی شناخت اور جڑوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ممتاز مفتی کے ناولوں میں روحانی گریز کا عنصر ملتا ہے، جہاں کردار دنیاوی حقیقتوں سے زیادہ ماورائی سچائیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
گریز بطور فلسفہ
اردو ادب میں گریز کو اکثر فلسفیانہ بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔
صوفیانہ فکر
صوفی شاعری میں دنیا سے گریز اور ماورائی حقیقت کی طرف رجوع عام موضوع ہے۔
مثال: بلھے شاہ اور مولانا رومی کی شاعری۔
وجودیت
جدید اردو ادب میں گریز کو وجودی فلسفے سے بھی جوڑا گیا ہے، جہاں فرد اپنی حقیقت سے فرار کی کوشش کرتا ہے لیکن آخر کار تنہائی اور بے بسی کا شکار ہوتا ہے۔
گریز کے نام سے مشہور ادیبوں کی تحاریر
اردو ادب میں "گریز” کے نام سے مشہور کئی مصنفین کے ناول یا تحریریں موجود ہیں، لیکن زیادہ تر یہ نام دو مصنفین کے ساتھ منسلک ہے:
- عزیز احمد
"گریز” عزیز احمد کا سب سے مشہور ناول ہے۔
وہ اردو ادب میں جدیدیت کے بانیوں میں سے ایک تھے۔
ان کی تحریریں نفسیاتی حقیقت نگاری اور انسانی جذبات کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہیں۔
- انتظار حسین
"گریز” کے موضوع سے مشابہت رکھنے والی کئی کہانیاں انتظار حسین کے افسانوی مجموعوں میں بھی موجود ہیں۔
ان کی تحریریں جدیدیت، علامت نگاری، اور داخلی کشمکش پر مبنی ہوتی ہیں۔
عزیز احمد کے ناول گریز کا تنقیدی جائزہ
عزیز احمد کا ناول "گریز” اردو ادب میں ایک منفرد اور جدید طرز کا شاہکار ہے۔ اس ناول میں عزیز احمد نے زندگی، محبت، معاشرتی رشتوں اور انسانی نفسیات کو نہایت گہرائی سے موضوع بنایا ہے۔ ناول کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنی تخلیق میں بعض خاص عناصر کو بنیاد یا لوازم قرار دیا ہے۔ یہ لوازم ناول کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ
عزیز احمد کے نزدیک انسانی جذبات، خواہشات، اور ذہنی کشمکش ایک ناول کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے اپنے کرداروں کو صرف بیرونی دنیا تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ان کے اندرونی جذبات، خوف، اور تمناؤں کو نمایاں کیا ہے۔
ناول میں انسانی نفسیات کو اس باریکی سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو کرداروں کے قریب محسوس کرتا ہے۔
نفسیاتی حقیقت نگاری (Psychological Realism) کو انہوں نے "گریز” کا ایک اہم لوازم قرار دیا، جس کے ذریعے قاری کرداروں کی داخلی دنیا میں جھانک سکتا ہے۔
مثال: مرکزی کرداروں کی محبت اور تعلقات میں الجھنیں ان کے نفسیاتی خوف اور معاشرتی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔
حقیقت سے فرار کا پہلو
عزیز احمد کے مطابق زندگی کی مشکلات اور جذباتی دباؤ اکثر انسان کو حقیقت سے بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔
"گریز” کا مرکزی خیال ہی حقیقت سے فرار اور داخلی آزادی کی جستجو ہے۔
کردار مختلف انداز میں اپنی زندگی کی حقیقتوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آخر کار ان کی منزل وہی تلخ حقیقتیں ہوتی ہیں۔
مثال: محبت کی جستجو میں کرداروں کا جذباتی انتشار اور معاشرتی بندشوں سے آزاد ہونے کی ناکام کوشش اس لوازم کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔
جدیدیت اور علامت نگاری
عزیز احمد نے "گریز” کو روایتی کہانیوں سے مختلف بنانے کے لیے جدیدیت کو بنیاد بنایا۔
کہانی میں جدید طرزِ تحریر، علامتوں، اور فلسفیانہ خیالات کا گہرا اثر موجود ہے۔
انہوں نے علامتوں کے ذریعے زندگی، محبت، اور رشتوں کی پیچیدگیوں کو بیان کیا۔
جدیدیت کے اس رجحان نے ناول کو اردو ادب میں ایک منفرد مقام دیا۔
مثال: "گریز” کے عنوان میں خود ایک علامت ہے، جو حقیقت سے فرار اور داخلی دنیا کی جستجو کو ظاہر کرتی ہے۔
انسانی تعلقات کی نزاکت
عزیز احمد نے "گریز” میں تعلقات کے پیچیدہ پہلوؤں کو ناول کا ایک اہم لوازم قرار دیا۔
محبت، حسد، قربانی، اور خودغرضی جیسے جذبات کو مختلف کرداروں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے تعلقات کی پیچیدگیوں کو نہایت باریکی سے بیان کیا، جو آج بھی قاری کو متاثر کرتی ہیں۔
مثال: ناول کے کرداروں کے باہمی تعلقات ان کے جذباتی انتشار اور نفسیاتی دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔
معاشرتی حقیقتوں کا عکس
"گریز” میں عزیز احمد نے معاشرتی اصولوں اور انسان پر ان کے اثرات کو بھی ایک لوازم کے طور پر شامل کیا۔
معاشرتی دباؤ، رواج، اور اصول کرداروں کی زندگی میں کشمکش پیدا کرتے ہیں۔
عزیز احمد نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کس طرح سماج کے اصول انسان کی آزادی اور جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثال: ناول کے کئی کردار معاشرتی بندشوں کی وجہ سے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
کرداروں کی داخلی دنیا
عزیز احمد کے نزدیک ایک کامیاب ناول کے لیے کرداروں کی داخلی دنیا کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔
"گریز” کے کردار اپنے جذبات، خوف، اور خوابوں کے ذریعے قاری کو ان کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔
ہر کردار کی اپنی ایک انفرادیت اور نفسیاتی گہرائی ہے، جو کہانی کو حقیقت سے قریب تر بناتی ہے۔
مثال: مرکزی کرداروں کی خواہشات اور ناکامیاں ان کے نفسیاتی رجحانات کی عکاس ہیں۔
فلسفیانہ اور جذباتی گہرائی
عزیز احمد نے "گریز” کو محض ایک کہانی کے بجائے انسانی زندگی کے فلسفے اور جذباتی پیچیدگیوں کا بیان بنایا۔
زندگی، محبت، اور حقیقت کے فلسفے کو نہایت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ادب کا مقصد محض کہانی بیان کرنا نہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے۔
مثال: ناول کے اختتام میں قاری کرداروں کی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کے بارے میں غور کرتا ہے۔