مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

آزادی کے بعد کی خواتین افسانہ نگار

آزادی کے بعد کی خواتین افسانہ نگار

تاریخی منظرنامہ

*——>* *۱۹۴۷* کے انقلاب اور تقسیم وطن نے انسانی ذہن پر ایک کاری ضرب لگائی ، ملک گیر سطح پر فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ چاروں طرف لوٹ مار اور انتشار پھیل گیا۔ لوگ سکون کی تلاش میں نکل پڑے اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑی ہجرت کا عمل شروع ہوا۔ *برصغیر کے تمام شعبے تہذیب، معاشرت و سیاست* و غیرہ پر اس غیر فطری تقسیم کے نتیجے میں دور رس تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس کے اثرات نے متعدد مسائل کو جنم دیا۔ اس دور میں اردو افسانہ نگار ترقی پسندی کا چولا اتارتے اور خود کو ان موضوعات سے آزاد کرتے نظر آتے ہیں

——> جو ۱۹۳۶ سے اب تک اردو ادب کے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ موضوعات بدلے تو اسلوب اور رجحان میں تبدیلی رونما ہوئی ۔ انقلاب کے بعد تقسیم وطن کے موقع پر قتل و غارت گری اور فرقہ واریت کے جو مناظر پیش آئے اس کی دردناک تصویر میں ہمیں اردو افسانوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ ملتی ہیں-

موضوعِ مقالہ: ۱۹۴۷ اور اس کے اثرات

اس عہد کے افسانہ نگاروں کا سب سے بڑا موضوع *۱۹۴۷* کا انقلاب اور اس سے پیدا شدہ حالات ہیں۔ عدم مساوات اور معاشی بحران کے موضوعات کی آنچ ابھی سرد بھی نہیں ہوئی تھی کہ تقسیم ملک کا سانحہ، فسادات اور پھر ہجرتوں کے کرب نے ادب کو ایک نیا موضوع اور نئی جہت مہیا کیا۔

نمایاں خواتین افسانہ نگار

*———–>آزادی* کے بعد اردو ادب کے افق پر جن خواتین افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت بنائی ان میں *—->بانوقد سیه، آمنه ابوالحسن ، جیلانی بانو ، واجدہ تبسم ، صغرا مهدی، جمیلہ ہاشمی، با نوسر تاج، ذکیہ مشہدی* وغیرہ کو *اولیت* حاصل ہے۔

افسانوی موضوعات اور سماجی تجزیہ

آزادی کے فورا بعد اردو میں تقسیم ہند اور اس سے پیدا شدہ حالات و مسائل پر متعدد افسانے لکھے گیے ۔ اس دور کی زیادہ تر خواتین افسانہ نگاروں نے اس عظیم سانحے کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات اور حالات کو موضوع بنایا۔ خاص طور سے مسلم سماج پر تقسیم ہند کے اثرات اور مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کی منظر کشی اور ان کا تجزیہ اس دور کی تخلیقات میں خوب نظر آتا ہے۔ نئی اور پرانی اقدار کی کشمکش بھی اس عہد کی خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کا خاص موضوع ہے.

ترقی پسند نظریہ، جدیدیت اور اسالیب

*——> بیسویں صدی* کی چھٹی دہائی تک اردو افسانے میں ترقی پسند نظریہ اور تقسیم ملک کی وجہ سے جنم لینے والے حالات اور مسائل کو اہمیت دی گئی۔ اس دور کے کم و بیش ہر افسانے میں اس طرح کے موضوعات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ *۱۹۶۰* کے آس پاس اردو میں علامتی و تجریدی افسانے لکھنے کا رجحان جدیدیت کے زیر اثر ہوا۔

—–> اس دور میں خواتین افسانہ نگاروں نے ان موضوعات پر بلا جھجک لکھنا شروع کر دیا تھا جو شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ معاملات، واقعات و حادثات جن پر لکھنا برا سمجھا جاتا تھا اب خواتین افسانہ نگاروں کی بے باک تحریروں کے دائرے میں آگئے ۔

زبان، تکنیک اور تجربات

*——>بیسویں صدی* کے اس عہد میں موضوعات اور اسالیب کے سطح پر کئی تجربات ہوئے ۔ جدیدیت کی لہر زبان و اسلوب اور موضوعات میں شعوری تبدیلی چاہتی تھی چنانچہ اظہار کے لیے ایک نئی زبان کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ موضوعات میں اچھوتے پن کی جستجو ، اجتماعی موضوعات سے پرے لے گئی۔ افسانہ نگاری میں حقیقت بیانی کا *اسلوب، علامتی اور تمثیلی اسلوب* میں ڈھل گیا ، شعور کی رو اور آپ بیتی کی تکنیک اس دور کی خواتین افسانہ نگاروں کا ایک خاص اسلوب بن گئی۔ خواتین افسانہ نگاروں نے *ہئیت و تکنیک اور اسلوب و بیان* کے متعدد تجربات کامیابی کے ساتھ کیسے اور راست بیانیہ سے انحراف کرتے ہوئے *استعاراتی ، علامتی ، کنایاتی اور تجریدی، اظہاری و سائل و اسالیب* کو اختیار کیا۔

حوالہ جات

* مرتب کرده: مسکان محمد زمان * صفحہ نمبر: ص 263-264

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں