اسلوب اور اس کے عناصر

کتاب کا نام۔۔۔۔ اسالیب نثر اردو
کوڈ۔۔۔۔ 5609
صفحہ۔۔۔۔۔ 139 تا 141
موضوع۔۔۔۔۔۔ حالی کا اسلوب اور اس کے عناصر
مرتب ۔۔۔۔۔ اقصیٰ طارق

اسلوب اور اس کے عناصر

تنقید کی زبان میں اسلوب کسی لکھنے والے کے طرز تحریر کو کہتے ہیں۔ کوئی شاعر یا نثرنگار جس پیرائی بیان کو اختیار کرتا ہے۔ وہ اس کا اسلوب کہلاتا ہے۔ شمار احمد فاروقی نے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"اسلوب یا طرز نگارش کا مسئلہ ایسا نہیں۔ جس پر کوئی فیصلہ کن یا دو ٹوک بات کہی جاسکے۔”
آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ افکار و خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایسا پیرائیہ ہے۔ جو دلنشین بھی ہو اور منفر د بھی۔ اس کو انگریزی میں شائل (Style) کہتے ہیں۔ اردو میں اس کے لئے طرز ” یا ” اسلوب” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی اور جدید فارسی میں اس کو "سبک” کہتے ہیں”۔

نثار احمد فاروقی ، اسلوب کیا ہے؟ مشمولہ اسالیب نثر پر ایک نظر ص (1)

گو یا شعر و ادب کے عمومی طرز بیان کے اندر انفرادیت کے رنگ پیدا کرنا بھی اسلوب کو جنم دینے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ نثر اور نظم کے درمیان جہاں عروض و اوزان اور بحور کا فرق ایک بین فرق ہوتا ہے۔ وہیں پر اسلوب بھی شعر اور نثر کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اس لئے نثر کا اسلوب شعر میں اور شعر کا اسلوب نثر میں ہنر کی جگہ عیب بن جاتا ہے۔ آل احمد سرور نے نثری اور شعری اسلوب کے فرق کو یوں واضح کیا ہے:

"نشر کی زبان اور نظم کی زبان میں فرق ہے۔ حالانکہ دونوں ادب کی شاخیں ہیں یعنی دونوں میں حسن بیان کی نوعیت مختلف ہے۔ نظم کی زبان تخلیقی ہوتی ہے۔ نظم اس چاندنی کی طرح ہے۔ جس میں سائے اور گہرے اور بلیغ معلوم ہوتے ہیں۔ نثر اس دھوپ کی طرح ہے، جو ہر چیز کو آئینہ دیتی ہے۔”
(اسالیب نثر پر ایک نظر ص ۲۸)

دراصل اسلوب کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے اور پچھلے سو برس میں اسلوب کے حوالے سے مشرق اور مغرب میں بہت سارے مباحث نے جنم لیا۔ جہاں یہ کہا گیا کہ اسلوب در اصل شخصیت کا اظہار ہے وہیں پر اسلوب کے غیر شخصی ہونے پر بھی اسی شد و مد سے زور دیا گیا ۔ اس ضمن میں انگریزی میں پلٹن مرے کی کتاب ” اسلوب کا مسئلہ اور اردو میں سید عابد علی عابد کی کتاب اسلوب کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پر اسلوب کے حوالے سے مختصرا کچھ باتیں بیان کی جائیں گی:
139
1) اسلوب کسی لکھنے والے کی شخصیت کا مکمل اظہار نہ سہی پھر بھی لکھنے والے کی شخصیت کے کچھ نہ کچھ رنگ ضرور اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لکھنے والے کا مزاج اور دلچسپیاں اس کے اسلوب کوکسی نہ کسی سطح پر ضرور متاثر کرتی ہیں۔

۲) اگرچه جدید مغربی تنقید نے لکھاری کو قاری پر قربان کر دیا ہے، لیکن یہ محض افراط و تفریط کا مسئلہ ہے۔ پھر بھی لکھنے والے کا اسلوب اس کے قاری کے حوالے سے بھی متعین ہوتا ہے۔ لکھنے والے کے ذہن میں اپنے ایک خاص طرح کے قاری کا تصور ہوتا ہے جس کی ذہنی اور علمی صورت حال کو مد نظر رکھ کر وہ لکھتا ہے۔ یوں لکھنے والے کا اسلوب اس کے پڑھنے والے سے بھی ایک خاص ربط رکھتا ہے، جس کے بغیر ابلاغ واظہار کے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

۳) جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ شعر اور نثر کا اسلوب جدا گا نہ صفات کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح سے خود نثری اصناف کے اندر بھی اسلوب کے عناصر بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ افسانے کا اسلوب اور طرح کا ہوگا۔ تو تنقید کی زبان اور طرح کے اسلوبی وسائل تلاش کرے گی۔ پھر یہ کہ افسانہ اگر تجریدی ہے، تو اور طرح کی زبان کا متقاضی ہوگا اور اگر علامتی ہے، تو پھر اور طرح کی لغت ترتیب دینی ہوگی۔ سوانح کے لئے جو اسلوب موزوں ترین ہوگا ، وہ شاید ناول کے اندر اپنا جواز پیش نہیں کر سکے گا۔ اس لئے اسلوب کے مطالعے میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ لکھنے والا کون سے صحف ادب کو اظہار کا وسیلہ بناتا ہے۔

اسلوب ایک تشکیلی عناصر کے حوالے سے بھی مختلف ناقدین نے مباحث اٹھائے ہیں۔ سید عابد علی عابد نے اسلوب کی جو صفات گنوائی ہیں۔ ان میں درج ذیل بنیادی اہمیت کی حامل ہیں اور شاید ہر صنف ادب کے لئے ضروری بھی:

-1 سادگی 2قطعیت
3 اختلال حواس 4اختصار

ان بنیادی صفات کے علاوہ انہوں نے جو جذباتی اور تخیلی صفات گنوائی ہیں ۔ ان میں سے اکثر کا تعلق نشر کی بجائے شعر کے اسلوب سے زیادہ گہرا ہے۔
پروفیسر عبد الخالق نے اپنے مضمون ” اسالیب نثر ایک جائزہ میں نثری اسلوب کی صفات اور خوبیوں کا جو جائزہ لیا ہے، وہ اس بحث کو خوبصورتی سے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

"ادبی ، معیاری اور اعلیٰ نثر میں انتخاب و تصرفات الفاظ ، الفاظ کی فن کارانہ ترتیب و تنظیم اور ان کے درمیان ربط و تسلسل، الفاظ کی حسن کا رانہ تنظیم سے فقروں کی ساخت، فقروں کے درمیان صناعانہ ہم آہنگی اور تراش خراش،
140
پیرا گراف کے تعمیر و ترکیب ، رموز اوقات کا لحاظ ، موضوع اور طرز ادا کے درمیان کلی ربط ، صنعتوں کے تصرف میں سلیقہ مندی وغیرہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی وہ اجزاء ہیں جو اسلوب کو موزوں ، حسین اور تابناک بناتے ہیں۔ اس کے لئے فطری صلاحیتیں، مطالعہ و محاسبہ مشق و مزادات، شخصیت کا رچاؤ اور نکھار بھی ضروری ہیں۔ فرض ان دونوں کے حسین ربط اور مکمل ہم آہنگی ہے۔جسے ہم اسلوب کہتے ہیں وجود میں آتا ہے۔ ورنہ بادی النظر میں تو اظہار کا ہر وسیلہ کسی نہ کسی اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ (اسالیب نثر پر ایک نظر ص ۵۱-۵۲)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں