اشفاق احمد اور ان کی افسانہ نگاری

*اشفاق احمد اور ان کی افسانہ نگاری*اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو مکسر ضلع فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آ گئے اور یہیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ ایم اے اردو گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا پھر بیرون ملک سے اطالوی اور فرانسیسی زبانوں میں ڈپلومے حاصل کیے۔ دیال سنگھ کالج لاہور کے علاوہ ، روم یو نیورسٹی اٹلی میں بھی دو سال اردو کے لیکچرار رہے۔ کچھ عرصہ ماہنامہ لیل و نہار ” اور "داستان گو کی ادارت بھی کی چار سال تک ادارہ علاقائی تعاون برائے ترقی (R.C.D) پاکستانی شاخ کے ڈائر یکٹر رہے ۔ آپ متعدد علمی وثقافتی اداروں کے ممبر بھی رہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اشفاق احمد نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اب ان کا شمار ملک کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اشفاق احمد نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بہت سے کھیل لکھے ۔ چنانچہ موجودہ نسل ان کو ریڈیو ڈراموں کی وجہ سے بھی جانتی ہے۔ اشفاق احمد ریڈیو میں اپنے ایک مشہور کردار ” تلقین شاہ“ کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ *اشفاق احمد کے افسانوں کے اب تک کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔* ایک محبت سو افسانے اجلے پھول سفر مینا پھلکاری*افسانوں کے مجموعوں کے علاوہ اشفاق احمد کی چند دیگر نمایاں تصانیف درج ذیل ہیں۔*ٹاہلی دے تھلے ( پنجابی ڈرامے )جنگ کو الوداع (ترجمہ)مہمان بہار (ناولٹ)جنگیز خان کا سنہرے شاہین ( ترجمہ )کھٹیا وٹیا (شاعری)سفردر سفر (رپورتاژ)ایک محبت سو ڈرامے ( ٹی وی سیریل )اور ڈرامےزادیہ وغیرہ*اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر ان دو موضوعات پر قلم اٹھایا ہے*معاشرتی زندگی کے مسائلمحبت کے جذبات کی تصویر کشیاب آئیے ان موضوعات کی کسی قدر تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔ اشفاق احمد کے افسانوں میں زیادہ تر معاشرتی زندگی کے مسائل کا ذکر ملتا ہے، ہمارے معاشرے میں جس طرح سے اخلاقی اقدار پامال ہو رہی ہیں اشفاق احمد نے انہیں اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر ان اہم اخلاقی مسائل کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے۔ اپنے افسانوں میں اشفاق احمد نے ان اخلاقی مسائل کو اس انداز سے پیش کیا کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار مثلاً ذہانت خلوص سچائی کو موجودہ دور کی اقدار مثلاً دولت ، عہدہ اور حسب نسب وغیرہ کے مقابلے میں ہرلحاظ سے پر برتر ثابت کیا ہے ۔ اشفاق احمد نے اپنے اکثروبیشتر افسانوں مثلا” اجلے بھول ” شب خون امی وغیرہ میں زندگی کے مسائل کو روح یعنی باطن کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے یہاں روح سے مراد وہی اعلی اخلاقی اقدار ہیں جنہیں شرافت سچائی اور خلوص دوغیرہ کانام دیا گیا ہے ۔ نیکی اور خیر کی مدد سے وہ زندگی کے مسائل پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت کے جذبات کو اشفاق احمد نے اس طرح پیش کیا ہے کہ اس میں انفرادیت نظر آتی ہے۔ جذبات محبت کا اظہاریوں تو سجاد حیدر یلدرم ،نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور دیگر افسانہ نگاروں کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ لیکن ان سب کے ہاں محبت کے جذبے کو ماورائی انداز میں بیان کیا گیا ہے رومانی نقطہ نظر کے سبب ان جذبات کا تعلق خیال کی دنیا سے زیادہ ہے اور حقیقت کی دنیا سے کم ۔ اشفاق احمد کے ہاں یہ جذبہ ہماری اپنی دنیا سے تعلق رکھتا ہے، اور اردگرد کی فضا سے جنم لیتا ہے۔ احساسات جذبات کی پیش کش کا یہی اندازہ انہیں دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز بناتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں محبت کے جذبات کو اس انداز سے پیش کیا کہ محبت ان کے ہاں ایک تعمیری جذبے اور مثبت قوت کی شکل اختیار کرتی نظرآتی ہے۔ افسانہ نگارنے حسن نیکی اور خیر کے ساتھ ساتھ محبت کو بھی تجسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ان اقدار کو جسم عطا کرنے کی کوشش اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ایک تو قاری کے ذہن میں ان کادیرپا اثر قائم رہ سکے اور دوسرے اس لئے کہ یہ چیز پڑھنے والے کو زندگی سے پیار کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ اشفاق احمد نے محبت کے ضمن میں کسی خاص ماحول کو موضوع بنانے کی بجائے گھریلو زندگی اور اس سے متعلق افراد کی باہمی محبت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ ماں باپ، بہن بھائی اور آقا و غلام وغیرہ کی محبت کے موثر نمونے ان کے بہت سے افسانوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے افسانے گڈریا، تلاش ، سنگدل اور امی وغیرہ محبت کے مذکورہ مذکورہ بالا جذبے کے تحت لکھے گئے ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں