اشفاق احمد کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعے

اشفاق احمد کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعے | Ashfaq Ahmad ki Afsana Nigari aur Afsanvi Majmue

اشفاق احمد کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعے

جیسا کہ تحقیق کے دوران بیان کیا گیا ہے کہ اشفاق احمد ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات افسانہ نگاری کے ذریعے بچپن ہی میں کی۔ آپ بے شمار تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھےاور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے طریقے سے بھی بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔

ان کے ابتدائی دور میں لکھے گئے افسانوں میں "توبہ ” اور "گدڑیا” شامل ہیں جنھو ں نے قارئین میں بے حد مقبولیت سمیٹی۔ افسانہ "گدڑیا کو ادبی ماہرین اور نقاد باقاعدہ ایک شاہکار قرار دیتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کے حوالے سے اشفاق احمد کا مشاہد بے حد گہرا تھا اور آپ کا زندگی کے بارے میں شعور بھی گہر اتھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریر کردہ کہانیاں اور افسانے حقیقت سے قریب تر ہونے کی بنا پر عوام میں مقبول رہے۔

یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کے ریڈیائی فیچر

اشفاق احمد کو اپنی بات نئے انداز میں کہنے کا طریقہ آتا تھا۔ اس لیےاگر آپ نے کبھی پرانے موضوعات کو لکھنے کے لیے قلم اٹھایا بھی تو اس انداز سے ان موضوعات کو تحریر کیا کہ ان کی بات دل تک اُتر جاتی۔

اشفاق احمد موضوعات اور تکنیک کے لحاظ سے بے پناہ وسعت کے مالک بہترین افسانہ نگار تھے۔

اشفاق احمد نے ابتدائی دور میں ہی "گڈریا جیسا شاہکار افسانہ لکھ کر دنیائے ادب میں اپنی آمد کی خبر دی۔ یہ کردار نگاری اور موضوع کے اعتبار سے ایسا لاجواب اور منفرد تھا کہ اشفاق احمد کی وفات پر کہا گیا کہ” آج گڈریا چل بسا”۔

بلاشبہ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔

اشفاق احمد نے مختلف قسم کے مشاغل اور اپنی توانائیاں اتنے شعبوں میں صرف کی تھیں کہ کسی ایک صفت کی چھاپ یعنی کے لیبل لگنا بہت مشکل امر تھا۔

اپنے خاص اسلوب اور انداز کی بدولت ان کے افسانے لوگوں کو تادیر یاد رہیں گے۔ آزادی کے بعد جن افسانہ نگاروں کا ادبی مقام اور قد کاٹھ ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اشفاق احمد بھی ان میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کےبارے میں رقم طراز ہیں کہ
"وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔

لیکن ان کی حقیقت نگاری کھری، بے ڈھنگم ، اذیت ناک ، فاحش اور انتہا پسند نہیں ہوتی ۔

وہ جس ماحول یا کردار سے متاثر ہو کر افسانہ لکھتے ہیں اسے حد روجہ سبک، نرم، میٹھے ، سادہ اور دھیمے لہجے میں قاری کے دل و دماغ میں اتار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کی ڈرامہ نگاری پر ایک نظر

یہ نہیں کہ اصلاحی اور تعمیری مقصد ان کے یہاں نہیں ہوتا۔ ضرور ہوتا ہے لیکن اس طور پر نہیں کہ مقصد تبلیغی مشن سے آگے نکل جائے اور افسانہ پیچھے رہ جائے۔ "(51)

اشفاق احمد کے افسانوی مجموعوں پر ایک نظر

ایک محبت سو افسانے

1951ء میں 192 صفحات پر مشتمل اشفاق احمد کا پہلا افسانہ ” ایک محبت سو افسانے” مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا۔

اس مجموعے میں کل تیرہ افسانے تھے جبکہ اس کا انتساب ” صاحب جی کے نام” ہے ۔

آپ کا یہ مجموعہ اس لیے بے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں آپ کا پہلا افسانہ ” توبہ ” بھی شامل ہے ۔

اس مجموعے میں موجود افسانوں کے نام بالترتیب ۔ 1۔ تو بہ، 2۔ فہیم 3 ۔ رات بہت رہی ہے ، 4 ۔ تلاش ،5 – سنگ دل ، 6۔ مسکن ،7 ۔ شب خون ،8 ۔ تو تا کہانی ،9 ۔ عجیب بادشاہ ،10۔ بندرا بن کی کنج گلی میں ،11۔ بابا ،12۔ پنا ہیں ،13 ۔ امی ۔ وغیرہ ہیں ۔

اس مجموعے کے حوالےسے انیس فاطمہ اشفاق احمد پر لکھے گئے مقالے ‘ اشفاق احمد کی فکشن نگاری ‘ میں لکھتی ہیں کہ:

” اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کا تخلیقی اور پاکستان بننے کے کچھ عرصہ قبل ہی شروع ہوا تھا۔

یعنی تخلیقی سفر کے دوران ہی تقسیم کا سانحہ پیش آیا اور اشفاق احمد خود ہجرت کے کرب سے دو چار ہوئے اس لیے ان کے افسانے بھی ظلم اور بر بریت کی واردات سے خالی نہیں ہیں ۔

اس مجموعے میں شامل بیشتر افسانوں کا موضوع تقسیم اور ہجرت سے مستعار ہے۔ اس کے علاوہ کچھ افسانے رومانی محبت سے متعلق ہیں۔”(52)

اس سے واضح ہے کہ اشفاق احمد کا یہ افسانوی مجموعہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور اس کی مقبولیت کی وجہ اس میں شامل منفرد موضوعات پر مبنی افسانے ہیں۔

اُجلے پھول

اس کے بعد 1955ء میں اشفاق احمد کا دوسرا افسانوی مجموعہ ” اُجلے پھول ” کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے ۔

یہ افسانوی مجموعہ اپل بُک ڈپو ڈی مال لاہور سے شائع ہوا ۔

کل 2000 صفحات پر مشتمل اس افسانوی مجموعے میں میں کل نوافسانے شامل ہیں۔

افسانوی مجموعے” اُجلے پھول ” کا انتساب ” قدرت اللہ شہاب ” کے نام ہے ۔

اس افسانوی مجموعہ کی دوسری اشاعت غالب پبلشرز نے 1983ء میں جبکہ تیسری سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے 1983ء میں کی۔

اس افسانے کی اشاعت میں ایک دلچسب بات یہ بھی ہے کہ اس کی پہلی تین اشاعتیں "اُجلے پھول ” کے نام سے جب کہ آخری تین” گدڑیا” کے عنوان سے شائع ہوئیں۔

کیونکہ آپ کا تحریر کردہ افسانہ گدڑیا بھی اس میں شامل تھا۔

اس مجموعے میں شامل افسانوں کے عنوان بالترتیب 1۔ اُجلے پھول، 2۔ گل ٹریا، 3۔ تنکہ، 4۔ حقیقت نیوش، 5۔ توشے بلے، 6۔ صفدر ٹھیلا

7۔ گدڑیا، 8۔ برکھا، 9۔ ایل ویرا ، ہیں۔ اُجلے پھول افسا نوی مجموعے میں زیادہ تر کہانیاں اصطلاحی انداز میں تحریر کی گئی ہیں۔ جیسا کہ انورسدید کہتے ہیں کہ:

"اشفاق احمد نے افسانے کو سماجی تنقید کا وسیلہ بنانے کی بجائے اس سے مجموعی طور پر نیکی اور خیر کی فضا تعمیر کرنے کا کام لیا ہے اور معصوم حیرتوں کو کروٹ دی ہے ۔ "(53)

پس اگر غور کیا جائے تو قارئین کو اس مجموعے میں موجود افسانے انسان کے اندر موجود سچے اور کھڑے جذبات واحساسات کو بیان کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

سفرِ مینا

395 صفحات پر مشتمل اشفاق احمد کا تیسرا افسانوی مجموعہ "سفرِ مینا ” گیارہ افسانوں ، سات سفر ناموں اور ایک ناولٹ پر مشتمل تھا جو کہ 1983ء میں سنگِ میل پبلی کیشنز نے شائع کیا۔

اس افسانوی مجموعے کا "انتساب ” نے اپنے بیٹوں انیس، انیق اور اثیر کے نام کیا ہے ۔ اس کی دوسری اشاعت 1991ء میں جبکہ تیسری اشاعت 2007 ء کوہوئی ۔ اس بارے میں اشفاق احمد بیان کرتے ہیں کہ:

” سفر مینا میرے سفر ناموں او ر افسانوں کا مشترکہ مجموعہ ہے ان دونوں صنفوں کو میں نے الگ شائع کرنے کا پروگرام واضع کیا تھا۔ لیکن جب ان کی ترتیب و تہذیب کے لیے مسوّدات کو دیکھنا شروع کیا تو یوں لگا کہ سفر نامے افسانوں کے رنگ میں پھیل گئے ہیں اور افسانے اندرونی سفر کے مسافر بن گئے ہیں۔

چنانچہ جب ان رنگوں کی حدوں کو ایک دوسرے میں اُترے دیکھا تو میں نے انہیں یکجا کرد یا اور ان کا نام سفرِ ِ مینا رکھ دیا۔ "(54)

اس مجموعے میں موجود افسانے بالترتیب درج ذیل ہیں۔
1۔ ٹوٹ مان ، 2۔ قاتل، 3۔ قصہ نل دمینتی، 4۔ چور، 5۔ مانوس اجنبی، 6۔ بیا جاناں ، 7۔ محسن محلہّ ، 8۔ پانچ میل دور، 9۔ کالج سے گھر تک، 10۔ گا تو، 11۔ فل برائٹ۔

اس مجموعے کے کئی افسانے قیامِ پاکستان کے بعد وہاں درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ آپ نے ان افسانوں کے ذریعے سے سماج کی جیتی جاگتی تصویر اس طرح پیش کی ہیں۔

کہ پاکستانی معاشرہ میں پھیلی بد نظمی اور انتشار قاری کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔

پُھلکاری – ایک ہی بولی

اشفاق احمد کا چوتھا افسانوی مجموعہ "پھلکاری- ایک ہی بولی” 123 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کل 15 افسانے ہیں۔ اس مجموعے کو ” ایک ہی بولی ” کے نام سے دوسری بار 2005ء پر شائع کیا گیا۔ پھلکاری افسانے کا انتساب "ملا وجہی اور قلی قطب شاہ سلطانی کے نام” ہے۔

اس میں اُردو کے ان الفاظ کا استعمال زیادہ ملتا ہے وہ غیر مستعمل ہو چُکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اس افسانے میں مقامی بولیوں کے متروک الفاظ کا استعمال بھی ملتا ہے ۔ تاہم ان میں سے کچھ الفاظ پاکستانی لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں ۔

اس افسانوی مجموعے کے بارے میں اشفاق احمد رقم طراز ہیں کہ:

” میرے یہ افسانے آپ کے لیے بالکل نئے او ر ایک اعتبار سے غیر مطبوعہ ہیں ۔ کہ میں نے انہیں 1951 اور 1952کی درمیانی مدت میں لکھا۔

اور اس میں سے بیشتر اس زمانے کے معروف اخبار "احسان ” کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ آ پ کی نظر سے نہیں گزرے ہوں گے۔ ماسوائے ایک کہانی "داؤ” کے جو دو سال تک پنجاب کے اُردو میٹر ک کورس میں پڑھائی جاتی رہی ،

پھر زبان کے سقم کی وجہ سے اسے نصاب سے خارج کر دیا گیا۔ "(55)

اس مجموعے میں موجود افسانوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ رُکی ہوئی عمر، 2۔ ایک ہی بولی، 3۔ کالا بدل، 4۔ سلامتے کی مار، 5۔ چل چلی، 6۔ اپنی ذات، 7۔ جنگ نامہ زیتون، 8۔ ڈھیچک چا، 9۔ ضابطے کی کاروائی

10۔ رشوت، 11۔ داؤ، 12۔ ننگ و ناموس، 13۔ بچھیری، 14۔ دوپہر ویلے، 15۔ پھمن کہانی۔

صبحانے فسانے

اشفاق احمد کا پانچواں افسانوی مجموعہ "صبحانے افسانے” 1997ء کو منظر عام پر آیا۔ یہ افسانہ سنگِ میل پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔ یہ افسانوی مجموعہ کل 279 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بائیس افسانے موجود ہیں۔ جب کہ اشفاق احمد نے اس افسانے کا انتساب "محلے کے امام مسجد” کے نام کیا ہے ۔

اس مجموعے میں موجود افسانے بالترتیب 1۔اماں سردار بیگم ،2۔ خود بدولت ،3۔ آڑھت منڈی، 4۔ بٹیر باز،5۔ ماسٹر روشی ، 6۔خانگی سیاست،7۔ مسرور مرثیہ شازیہ کی رخصتی

8۔بے غیر مدت خان، 9۔بندر لوگ، 10۔مہمان عزیز،11۔ بیک گراؤنڈ ،12۔ زرناب گل،13۔ دم بخود،14۔ بدل سے بدلی تک، 15۔چاند کا سفر اور 17۔ سہیل کی سالگرہ۔ وغیرہ شامل ہیں۔

طلسم ہوش افزا

اشفاق احمد کا چھٹا افسانوی مجموعہ ” طلسم ہوش افزا” 1998ء میں سنگ میل ، پبلی کیشنز لا ہور سے شائع ہوا۔ بارہ افسانوں پر مشتمل اس کے صفحات کی تعداد 175 ہے۔

اشفاق احمد نے اس مجموعے کا انتساب "دنیا کی سب سے عظیم سائنس فکشن "طلسم ہوشربا "کے نام کیا ہے۔اس میں موجود افسانوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ قصاص ،2۔ ملک مروت ،3۔ ملک سونی،4۔ چھ چھکے بہتیں،5۔ سعید جونیر ،6۔ آخری جملہ کہکشاں ٹیکسی سٹینڈ

7۔پوری جان کاری، 8۔قلار ہے، 9۔بدنی ضرورت،10۔ بولنا بندر،11۔ کوٹ و دود ۔ 12۔ پاور ہاؤس۔

اس مجموعے میں آپ نے علم فلکیات، طب،طبعیات،الیکٹریکل انجئیز نگ، علم آثار قدیمہ ، علم اقتصادیات اور مکینیکل انجنئیر نگ جیسے علوم کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔

اس میں کردار زیادہ تر سائنسی نوعیت کے ملتے ہیں مگر ان کو افسانوں میں اس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ کہیں بھی اجنبیت محسوس نہیں ہونے دیتے ہیں، قارئین کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جدا نہیں ہونے دیتے۔

غیر مطبوعہ افسانے

اشفاق احمد کے بعض ایسے افسانے بھی موجود ہیں جو کہ باقاعدہ کسی افسانوی مجموعے کے حصہ نہیں ہیں ۔

لیکن وہ مختلف رسالوں میں جب چھپے تو انہیں قارئین میں بے حد مقبولیت ملی۔ آپ کے غیر مطبوعہ مشہور افسانے درج ذیل ہیں۔

نئے رفیق، نئے راستے

اشفاق احمد کے افسانے "نئے رفیق، نئے راستے "دسمبر 1957ء کو”صحیفہ 3” میں چھپے۔ یہ افسانہ اشفاق ا حمد کے کسی افسانوی مجموعے میں موجود نہیں ہے۔

یہ افسانہ صفحہ نمبر 127 تا 156 پر موجودہے۔ (56)

بدی بلی

اشفاق احمد کا "بدی بلی” افسانہ 1994ء میں سہ ماہی "ادبیات” اسلام آباد میں شائع ہوا۔ یہ افسانہ اشفاق احمد کے کسی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔

یہ رسالہ ادبیات میں صفحہ نمبر 12 تا 19 میں موجود ہے۔(57)

جیون جوت

اشفاق احمد کا تحریر کردہ "جیون جوت” افسانہ بانو قدسیہ کے افسانوی مجموعے "ہجرتوں کے درمیاں”میں لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز سے 2010ء میں شائع ہوا۔

یہ صفحہ 124 تا 135 پر ہے۔(58)

ان افسانوی مجموعوں اور افسانوں سے واضح ہے کہ اشفاق احمد نے اُردو ادب کی صنف افسانہ نگاری میں اپنی منفرد ادبی صلاحیتوں کی وجہ سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔

تحقیق کے دوران اشفاق احمد کے افسانوی مجموعوں کے علاوہ جن غیر مطبوعہ افسانوں کا مطالعہ کیا ، ان کاذکر بھی کرد یا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اشفاق احمد نے اُردو ادب کی دیگر اصناف میں بھی اپنی گہری چھاپ چھوڑی ۔

آپ نے ناولٹ اور ناول نویسی بھی کی۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

ناولٹ: مہمان بہار

اشفاق احمد کا تحریر کردہ واحد ناولٹ” مہمان بہار” 1955ء کو پہلی بار "مکتبہ لائبریری کہ تحت شائع ہوا۔ 156 صفحات پر مشتمل یہ ناولٹ 1983ء میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعے "سفرِ مینہ ” میں شامل ہے۔ (59)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں