افسانہ ‘کایا کلپ’ ایک نئی تعبیر

ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے انتظار حسین کے تعارف میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کے فن پر اردو کی قدیم داستانوں کے اثرات بھی ہیں اور مغربی افسانوں کے اثرات بھی ۔ کایا کلپ ان دونوں اثرات کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ اس افسانے کاعنوان کایا کلپ ہے جس کے معنی ہیں، عظیم تبدیلی بدلی ہوئی شکل ۔ انگریزی میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے(metamorphosis) یہ لفظ بیسویں صدی کے ایک عظیم افسانے کا عنوان بھی ہے جیسے جرمنی کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار فرانز کافکا (1883ء – 1924ء) نے لکھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتظار حسین کا افسانہ کا یاکلپ کافکا سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے ۔ ممکن ہے انتظار حسین نے کافکا سے متاثرہو کر ہی یہ افسانہ لکھا ہو لیکن دونوں افسانوں میں جزوی مشابہت کے باوجود بنیادی موضوع کے اعتبار سے بڑا فرق ہے ۔ ہم اس فرق کی تفصیل میں نہیں جائیں گے لیکن اتنا جان لینا دل چسپی اور فائدے سے خالی نہیں کہ دونوں افسانوں کے ہیرو جب ایک دن صبح کے وقت بیدار ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو انسان کی شکل میں نہیں پاتے۔ کافکا کا ہیرو گریگرسما کا ایک بڑے کیڑے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ غالباً بھوترا بن چکا تھا اور کایا کلپ کے ہیرو و مرکزی کردار شہزادہ بخت نے اس دن مکھی کی صورت میں صبح کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انسان بھونرا یا کھی بن سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ناول یا افسانے کی خیالی دنیا میں کیا کچھ ممکن نہیں۔ جس ناول یا افسانے میں اس طرح کی خیالی اور فرضی باتیں ہوتی ہیں۔ اسے انگریزی میں FAN TA CY‏ (فینٹیسی ) کہتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فینٹیسی اس ناول یا افسانے کو کہتے ہیں حسیں ہیں اوٹ پٹانگ باتیں ہوتی ہیں یا ایسا قصہ ہوتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔در اصل فینٹیسی یا کہانی لکھنے کے اس طریقے کا نام ہے جس میں کہانی کے کردار اور واقعات بظاہر غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کا حقیقت سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ بظاہر وہ کہانی بے معنی معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں بڑی گہری معنویت پائی جاتی ہے ۔انتظار حسین ین کا افسانہ یا فینٹسی” کا یا کلپ” بھی ایک نہایت اہم موضوع اور ایک نہایت اہم خیال پر مبنی ہے۔اس افسانے کا موضوع انسانی تشخص کا مسئلہ ہے ۔ انسان فی الحقیقت کیا ہے ؟ وہ محض ایک کیڑا ہے یا ایک عظیم مخلوق ؟ اپنی اصلیت کے اعتبار سے ال انسان انسان ہے یا کیڑا کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اوپر سے انسان ہے اور اندر سے کیڑا ؟ یعنی اس کا ظاہر کچھ اور ہے اور باطن کچھ اور ۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ نہ انسان ہو نہ کیڑا۔ لیکن اگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے تو پھر انسان نہ ہونے کی صورت میں کیڑا ہونا بھی بہتر ہے۔ مگر یہ ہونے نہ ہونے کا دار ومدار کس بات پر ہے ؟ اول تو اس بات پر کہ آدمی کچھ ہو یعنی آدمی آدمی ہو یا کیڑا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے واقفیت کو بڑا دخل ہے۔ اگر ایک مکھی بھی اپنے نام سے واقف نہ ہو تو پھر اس کی کوئی شخصیت اور انفرادیت نہیں بنتی۔انسانی شخصیت کے معاملے میں آخری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم یہ کیسے سمجھیں کہ قدرت نے ہمیں آدمی بنایا ہے یا کیڑا ؟ اس مسئلے کا فیصلہ ہمارے یقین و اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہم کچھ ہیں جو ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور جس پر ہم یقین رکھتے ہیں ۔ اب انسانی شخص کے ان سارے مسائل کو افسانے کی روشنی میں دیکھئے ۔شہزادہ آزاد بخت کسی شہزادی کو سفید دیو کی قید سے آزاد کرانے آیا تھا لیکن خود سحر میں گرفتار ہو گیا۔ شام کے وقت جب دیو قلعے میں داخل ہوا تو اس کی ہیبت سے قلعے کے درد دیوار لرزنے لگے ۔ شہزادی کو یقین تھا کہ دیو آزاد بخت کو دیکھے گا تو اسے چٹ کر جائے گا اور شہزادی پر بھی ظلم کرے گا۔ اس لئے شہزادی نے آزاد بخت کو دیو سے بچانے کے لئے عمل پڑھ کر مکھی بنا دیا۔ اب ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ آزاد بخت رات کے وقت مکھی بن جاتا یا بنا دیا جاتا اور دن کے وقت وہ آدمی کے روپ میں آجاتا ۔ اس طرح آزاد بخت کی جان تو بچ گئی لیکن اس کے ذہن میں اپنی شخصیت کے متعلق طرح طرح کے سوالات پیدا ہونے لگے ۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ وہ جسے اپنے عالی نسب ، بلند ہمت اور صاحب علم و نر ہونے پر گھمنڈ تھا اس کا گھمنڈ خاک میں مل گیا کیونکہ اس کی محبوبہ کو ایک غیر جنس دیو نے قید کر رکھا تھا اور جس سے اپنی جان بچانے کیلئے اسے مکھی بنا پڑتا تھا۔ غرضیکہ وہ اپنی حقیر جان کی خاطر دنیا کی سب سے حقیر مخلوق بن گیا تھا ۔ایک طرف دل میں یہ قصہ اور غیرت ۔ دوسری طرف ذہن میں یہ فکر اور خلش کہ آخر میری حقیقت کیا ہے ۔ ماضی میں وہ ایک عالی نسب علم و ہنر میں بے مثال شجاعت اور بہادری میں یگانہ اور فاتح زمانہ قسم کا شہزادہ تھا اور اب اپنی جان بچانے کی خاطر رات کو دیوار سے چپکی ہوئی مکھی اور دن میں آدمی ۔ واقعہ یہ ہے کہ دن میں بھی اس کی حیثیت آدمی کی نہیں رہ گئ تھی بلکہ وہ دن کو دیو کے دسترخوان کی مکھی بن جاتا اور رات کو دیوار سے چپکی ہوئی مکھی۔اس حالت میں رہتے رہتے آزاد بخت کے شعور میں تبدیلی آنے لگی ۔ اب کبھی کبھی دن میں بھی اسے ایسا لگتا کہ وہ مکھی بن گیا ہے کیونکہ دن کے وقت اس کا کردار بالکل مکھیوں جیسا تھا۔ جس طرح مکھیاں لذیز غذاؤں سے آراستہ دستر خوان سے لذت اندوز ہوتی رہتی ہیں شہزادہ آزاد بخت دیو کے دستر خوان سے دن بھر لطف اندوز ہوتا رہتا۔ اسے اپنے ماضی کی جد و جہد والی زندگی کے مقابلے میں حال کی یہ آرام و آسائش والی زندگی بہتر معلوم ہونے لگی ۔ لیکن وہ ذہنی کشمکش سے محفوظ نہ تھا۔ اسے بہت سے اندیشوں ، وسوسوں اور شکوں نے گھیر رکھا تھا ۔وہ اس گھیرے کو توڑنے کی کوشش کرتا تھا لیکن ناکام رہتا تھا ۔ شہزادی نے اسے یقین دلایا تھا کہ سفید دیو کی جان طوطے میں ہے اور طوطا سات سمندر پار ایک درخت سے لٹکتے ہوئے پنجرے میں ہے ۔ جب سے اس کو یہ معلوم ہوا کہ دیو کی جان سات سمندر پار ایک طوطے میں ہے وہ یہ سوچنے لگا تھا کہ کہیں اس کی اپنی جان مکھی میں تو نہیں ۔ شہزادی سے اس کی محبت نے دیو کی قید سے رہائی کے امکان کو ختم کر دیا تھا۔ اب وہ شہزادی کی مرضی کے تابع ہو کر رہ گیا تھا ۔اب اس پر یہ سوچ غالب آنے لگی کہ میں آدمی ہوں یا مکھی؟ پہلے اس نے سوچا کہ میں پہلے آدمی ہوں ۔ بعد میں مکھی ہوں ۔ میری اصل زندگی میرا دن ہے نہ کہ میری رات ۔ پہلے وہ اس خیال سے مطمئن ہو گیا ۔ بعد میں اسے اس خیال پر شک ہونے لگا۔ وہ سوچنے لگا شاید میری رات ہی میری اصل زندگی ہو اور میرا دن میرا بہروپ ہو۔ اسے خیال آیا کہ میں اصل میں آدمی ہوں ۔ ضر رتا مکھی بن گیا ہوں ۔ مگر پھر اسے خیال گزرا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میں اصل میں مکھی ہوں اور درمیان میں آدمی بن گیا ہوں ۔ ہر چیز اصل کی طرف لوٹتی ہے ۔ چونکہ میں اصل میں مکھی تھا اس لئے پھر مکھی بن گیا۔ آزاد بخت کی زندگی اس ادھیڑ پن میں گزرتی رہی ۔ آگے چل کر اس نے اپنے آپ سے یہ صلح بھی کر لی کہ میں مکھی بھی ہوں اور آدمی بھی ۔ لیکن وہ اس دورنگی سے بھی بیزار ہو گیا۔ افسانے کے واقعات بتاتے ہیں کہ آزاد بخت پر مکھی ہونے کا خیال غالب آتا چلا گیا ۔ پہلے وہ مکھی بن جاتا تھا جب بھی دیو کو کسی آدمی کی بو محسوں ہوتی تھی ۔ لیکن ایک دن ایسا آیا کہ قلعے میں داخل ہونے کے باوجود شہزادی نے آزادبخت کو اپنے منتر سے مکھی نہیں بنایا۔ پھر بھی دیو کوکسی آدمی کی بو محسوس نہ ہوئی اور جب شہزادی نے صبح کے وقت وہ تہ خانہ کھولا جہاں آزاد بخت کو مکھی بنا کر چھپا دیا جاتا تھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے مکھی نہ بنانے کے با وجود آزا د بخت ایک بڑی سی مکھی بن چکا تھا ۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہوئی کہ جب شہزادی نے اسے منتر پڑھ کر آدمی بنانا چاہا تو منتر نے کچھ اثر نہ کیا اور وہ مکھی ہی رہ گیا ۔ن واقعات میں جو بات خاص طور پر قابل غور ہے وہ خیال کی قوت ہے اس کا مطلب ہے کہ انسان جو سوچتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے ۔ انسانی شخصیت کی تشکیل ہیں اس کی سوچ بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو صحیح سمت میں رکھے ۔انتظار حسین یم کا یہ افسانہ جہاں مغربی افسانے کی ایک قسم فینٹیسی لکھا گیا ہے وہاں اس افسانے میں داستان کے بہت سے عناصر اور اثرات پائے جاتے ہیں ۔ داستان کی طرح فینٹیسی کی بنیاد بھی حقیقت سے زیادہ تخیل پر ہوتی ہے لیکن داستان اور فینٹیسی تخیل پر بنی ہونے کے باوجود حقیقت سے بے تعلق نہیں ہوتی۔ داستان اور فینٹیسی دونوں ہی میں ہر واقعہ تخیل پر مبنی ہونے کے باوجود حقیقت ہی کا ایک مبالغہ آمیز روپ ہوتا ہے ۔ انتظار حسین کے اس افسانے پر داستان کے اثرات آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلا قصے کے بنیادی کرداروں کا شاہزادہ اور شاہزادی کے طبقے سے ہونا ، قصے میں مافوق الفطرت کر دار دیو کی موجودگی ، داستانوں کی طرح دیو کی جان کا سات سمندر پار ایک درخت سے لٹکے ہوئے پنجرے میں طوطے کے اندر ہونا ، جادو اور منتر کا عمل دخل ، اور ان باتوں کے علاوہ اس افسانے کی زبان اور بیان کا داستانوں کی زبان اور بیان سے مشابہ ہوتا ۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل فقروں کو دیکھئے

۔1- مقرر کسی نے سحر کیا ہے ۔ 2- یہ سوچ کر اپنے تیں ملامت کی ۔ 3- تب شہزادی نے کہا کہ اسے نیک نسبت میں جو کچھ کرتی ہوں تیرے بھلے کو کرتی ہوں ۔ 4-آج کل کی زبان میں یہ باتیں یوں لکھی جائیں گی۔ م یقینا کسی نے جادو کیا ہے ۔ یہ سوچ کر اس نے آپ کو ملامت کی تب شہزادی نے کہا کہ نیک بخت میں جو کچھ کرتی ہوں تیرے پھلے کے لئے کرتی ہوں ۔ انتظار حسین کا یہ افسانہ کہانی کے قدیم وجدید فن کے امتزاج کی ایک خوبصورت مثال ہے ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں