اپنا گریباں چاک کا تنقیدی جائزہ | Apna Gireban Chaak ka tanqeedi jaiza
کچھ اس تحریر سے:
- ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام سیاست، ادب، قانون ، فلسفہ، تاریخ اور بالخصوص اقبالیات کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔۔۔
- والد کی وفات کے بعد ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہو گیا ۔ جن باتوں سے منع کر رکھا تھا، میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا۔۔۔
- قیام یورپ کے عنوان سے کئی تصویر یں محض چند بے نام مغربی خواتین کے ساتھ اپنے تعلقات کو نمایاں کرنے کے لیے شامل کی ہیں۔۔۔
- مصنف نے جوانی میں موٹر کاروں کے شوق اور مغرب پرستی کے رجحانات کو تصویروں میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔
- میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس لیے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہوں ۔ مذہبی فرائض ادا کرتا ہوں لیکن اس حد تک جو میری فطرت کو قبول کرے۔۔۔
موضوعات کی فہرست
نوٹ: یہ تحریر جس مقالے سے کی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Urdu Mein Khud Nawisht 1980 kebad Researcher: Saleeta Jan
اپنا گریباں چاک کا تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام سیاست، ادب، قانون ، فلسفہ، تاریخ اور بالخصوص اقبالیات کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔
انھوں نے اپنی خود نوشت "اپنا گریباں چاک” کے نام سے تحریر کی ۔
288 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 13 ابواب ہیں اور 2002ء میں سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور سے شائع ہوئی۔
خود نوشت کا پہلا باب "جنم پتری’ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف نے اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے اپنی نجی زندگی اور خاندانی پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی جاوید اقبال pdf
موسیقی سے اپنی رغبت کا ذکر بھی اس باب میں کیا ہے۔ اس حوالے سے اس خط کا تذکرہ بھی آیا ہے جو جاوید اقبال نے اپنے والد کو اس وقت لکھا تھا جب وہ 1931 ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان گئے ۔
اس خط میں گراموفون لانے کی فرمائش کی گئی تھی۔ علامہ اقبال واپسی پر اپنے ساتھ گراموفون نہ لائے البتہ ایک نظم جاوید کے نام ضرور تحریر کی۔
علامہ اقبال سادگی پسند انسان تھے۔ ان کو فضول خرچی پسند نہیں تھی۔ جب تک و وزندہ رہے مصنف کو ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا پڑا
لیکن والد کے انتقال کے بعد اپنے طریقے سے زندگی گزار نے لگے تمام پابندیوں کو یک طرفہ رکھ دیا۔
جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جاوید اقبال لندن گئے تو وہاں انھوں نے وہ راہ اختیار کی جس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔
ایک جگہ خود نوشت میں اس طرح لکھتے ہیں:
"والد کی وفات کے بعد ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہو گیا ۔ جن باتوں سے منع کر رکھا تھا، میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا۔
یہ بھی پڑھیں: زندہ رود علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات | از ڈاکٹر جاوید اقبال pdf
صحیح و غلط ط اور نیکی و بدی میں بدی کا راستہ منتخب کرنا بہتر سمجھا۔
اگر سر شام گھر میں موجود رہنے کا حکم تھا تو میں آدھی رات سے پہلے قدم نہ رکھتا۔
اگر سینما دیکھنا منع تھا تو ہر روز دو دو بلکہ تین تین شو دیکھتا۔
روز مرہ کے باورچی خانہ کے حساب لکھتے وقت پیسوں میں گھپلا کرتا،رنگ برنگی رایشمی قمیصیں، مہنگے ولایتی بوٹ اور یورپی انداز کے سلے ہوئے سوٹ، نکھا ئیاں ، اور کوٹ، دستانے اور فلیٹ ہیٹ زیب تن”
خود نوشت کے باب ” جاوید منزل” میں مصنف نے والد گرامی کی شخصیت کے بعض ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جن سے عوام زیادہ باخبر نہیں تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمان بالعموم اور پاکستان میں بسنے والے مسلمان با لخصوص علامہ اقبال کے ساتھ بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور اکثر یوں بھی ہوتا ہے
کہ جس شخصیت سے والہانہ محبت کی بجائے اُسے بشری تقاضوں سے بالا تر سمجھتے ہوئے ایک مافوق الفطرت چیز بنا دیا جاتا ہے۔
یوں شخصیت کے تمام گوشے عقیدت کی چادر میں چھپ جاتے ہیں اور چہرے کے حقیقی خدو خال نظروں کے سامنے نہیں آتے ۔
اس کتاب میں علامہ اقبال کی شخصیت کے ایسے پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگ واقف نہیں ہیں ۔
عام طور پر کتابوں میں لکھے ہوئے شخصی خاکوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال جس محفل میں شرکت کرتے وہاں اُن کے علاوہ کوئی زیادہ دیر گفتگو نہیں کر سکتا تھا
لیکن اپنا گر یہاں چاک میں جاوید اقبال نے علامہ اقبال کے کم سخن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان پر جوش محبت کا عکس نہ تھا۔
اس حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اپنی زندگی میں والدہ نے مجھے شاز کوئی ایسا موقع دیا ہوگا جس سے میں ان کی شفقت ءا الفت کا اندازہ کر سکتا جو انہیں میری ذات سے تھی ۔
باپ بیٹوں کو اکثر سے بھینچا کرتے ہیں، انہیں گلے لگاتے ہیں، انہیں چومتے ہیں لیکن مجھے ان کے خدو خال سے بھی اس قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔
بظاہر و کم گو اور سرد مہر دکھائی دیتے تھے۔ "
جاوید اقبال نے اپنے والد کے بارے میں کچھ بھی باتوں کو تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعتراف بھی کیا ہے کہ والدہ کی وفات کے بعد والد گرامی کا رویہ ان کے ساتھ نہایت مشفقانہ ہو گیا تھا۔
وہ نہ صرف بچوں کا خیال رکھتے تھے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی بھر پور توجہ دیتے تھے۔
اکثر موقعوں پر ان کا رویہ دوستوں جیسا ہو جایا کرتا تھا۔
اپنا گریباٹ چاک میں مختلف ممالک کی معاشرتی و ثقافتی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔
انھوں نے برطانیہ امریکہ، چین تر کی ، روس اور آسٹریلیا کی تہذیب و معاشرت کے اپنے تاثرات ومشاہدات دلچسپ پیرائے میں قلمبند کیے ہیں۔
یورپ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جب جاوید اقبال وطن واپس آئے تو وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔
اسی دوران ان کی شادی ناصرہ اقبال سے ہوئی ۔ ناصرک اقبال مصنف کی شخصیت پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی نظر آتی ہیں۔
خود نوشت میں جاوید اقبال خود لکھتے ہیں کہ وہ اپنے والدہ کے بجائے اپنی اہلیہ کے افکاروں و خیالات سے زیادہ متاثر ہیں۔
مصنف نے اس خود نوشت میں کھل کر سیاسی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔
انگلستان سے واپسی کے بعد انھوں نے بھی سیاست میں حصہ لیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل الیکشن میں کھڑے ہوئے ۔
اس دور کے سیاسی حالات پر مصنف نے تفصیل سے رائے زنی کی ہے۔
جاوید اقبال کو اپنی زندگی میں بہت سی اہم شخصیات سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، مادر ملت فاطمہ جناح، بنڈت نہرو، سردار مسعود، سروجنی نائیڈ وی، اندرا گاندی، شاد حسین وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
ان شخصیات کے ساتھ مصنف کی ملاقاتوں کا سلسلہ خود نوشت میں نمایاں نظر آتا ہے۔
اپنا گر یہاں چاک کا سب سے اہم حصہ وہ خط ہے جو مصنف نے اپنے والد گرامی کو عالم بالا میں لکھا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں:
"آپ نے تفصیل سے نہیں بتایا کہ کن اسلامی قوانین کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔
بلکہ آپ نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہ ہماری قوم بڑی قدامت پسند اور حساس ہے۔
لوگ چوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں اور یہ کہ اس وقت متنازع امور پر بحث کرنے کے بجائے مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے کی خاطر اعتیاد کی ضرورت ہے نہ کہ اجتہاد کی۔
یہ بھی فرمادیا کی محکومی کے دور میں اجتہاد کے بجائے ” تقلید کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے
مگر پدر محترم کیا آپ بھی صیح معنوں میں آزاد ہیں یا ابھی تک محکومی کے دور سے گزر رہے ہیں ؟ "
اس خط کو خود نوشت کا حاصل کر دیا جا سکتا ہے۔
جاوید اقبال نے علامہ اقبال کی ان تمام آرا جن میں اجتہاد، فری مارکیٹ اور اکانومی کے فروغ کی خاطر بیٹوں کے منافع وغیرہ کے علاوہ اسلامی ریاست کے تصور اور پاکستان کی تعمیر وتشکیل کے حوالے سے ان کے خیالات اور نظریات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
مصنف نے اس خود نوشت میں ” خود کلامی” کے عنوان سے ایک باب رقم کیا ہے
جس میں انہوں نے اپنے افکار ونظریات کا اظہار فلسفیانہ انداز میں کیا ہے لکھتے ہیں:
"میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس لیے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہوں ۔ مذہبی فرائض ادا کرتا ہوں لیکن اس حد تک جو میری فطرت کو قبول کرے۔
بات در اصل یہ ہے کہ آج کے انسان پر مذہب کی وہ گرفت نہیں رہی جو پہلے تھی۔
شخصی آزادی کے احساس نے مذہبی پابندیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
میں گرفتار مذہب نہیں۔ سمجھتا ہوں کہ میرے اصل آباؤ اجداد حیوان تھے۔
میں اس مخلوق قوق سے کب اور کیوں چھیڑ گیا ؟ حیوان گنگ سے حیوان ناطق اور چوپائے سے دو پا یہ کیسے بن گیا ؟ اس علاحدگی کو امر ربی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔”
خود نوشت کا اختتام سورۃ الناس کے ترجمے پر کیا گیا ہے جو ایک لحاظ سے قابل ستائش ہے۔
اس سے انداز و ہوتا ہے کہ مصنف اپنی زندگی میں جن کوتاہیوں کا مرتکب ہوا ہے اس پر نہ صرف نادم ہے خاتمہ بالخیر پر یقین رکھتا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس خود نوشت کے آخر میں جو تصاویر شامل کی ہیں ان کے انتخاب میں بھی خاطر خواد توجہ نہیں دی ہے۔
مصنف نے جوانی میں موٹر کاروں کے شوق اور مغرب پرستی کے رجحانات کو تصویروں میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
قیام یورپ کے عنوان سے کئی تصویر یں محض چند بے نام مغربی خواتین کے ساتھ اپنے تعلقات کو نمایاں کرنے کے لیے شامل کی ہیں۔
اس طرح اکثر تصویروں کی شمولیت بلا جواز ہے۔
ڈاکٹر انور محمود اس خود نوشت کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"اپنا گریبان چاک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے اس کے مصنف نے سرگزشت حیات سناتے وقت کہیں بھی لاف زنی، دروغ گوئی ، خبط عظمت کی نمائش اور اخفا سے کام نہیں لیا۔
ہمارے راہ رو راہ محبت ( جاوید اقبال ) کے راستے میں بھی دو چار نہیں، کئی سخت مقامات آئے لیکن ان پر آفرین ہے کہ اظہار صداقت میں ان کے قدم کہیں نہیں لڑکھڑائے اور وہ ایک باوقار صاف گو اور مضبوط اعصاب کے مالک انسان کی طرح ان مراحل کو مردانہ وار طے کر گئے۔ "
مختصر ڈاکٹر جاوید اقبال کی یہ خود نوشت اردو کے سوانحی ادب میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
اس میں مصنف نے اپنی ستر سالہ زندگی کے ان تمام گوشوں کو بے نقاب کیا ہے جن کا تعلق عدالت، سیاست اور ادب سے تھا۔
اگرچہ خود نوشت منظر عام پر نہ آئی ہوتی تو شاید ہم ڈاکٹر جاوید اقبال کی شخصیت اور کردار کے دل آویز پہلوؤں سے واقف ہو پاتے ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں