انٹارکٹیکا: برف کے نیچے چھپے راز اور اس کی پراسرار تاریخ
موضوعات کی فہرست
اٹارکٹیکا: صدیوں سے ایک معمہ
یہ ہے انٹارکٹیکا جو صدیوں سے انسانوں کی پہنچ سے دور اور ان کے لیے ایک بہت بڑی مسٹری رہا ہے، چاہے وہ بلڈ واٹر فالز ہوں، مسٹیریس اینیملز ہوں، انڈر گراؤنڈ لیکس ہوں یا برف کے نیچے دبے ہوئے شہر ہوں۔
انٹارکٹیکا کے بارے میں کئی ایسی متھس اور مسٹریز ہیں جن کا آج بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ انٹارکٹیکا دنیا کا وہ اکیلا کونٹیننٹ ہے جہاں کوئی انسان نہیں رہتا کیونکہ یہاں پر ٹمپریچر -90 ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر 300 کلومیٹرز پر آر کی سپیڈ سے برف کے طوفان بھی آتے ہیں۔ اسی طرح انٹارکٹیکا دنیا کا سب سے ڈرائے کانٹیننٹ بھی ہے۔
اتنا ڈرائے کہ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اسے ڈیزرٹ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر صرف 51 ملی میٹرز بارش ہوتی ہے۔ اس سب کے باوجود پچھلے کئی سو سال سے بہت سے کنٹریز انٹارکٹیکا کا کنٹرول لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب آپ انٹارکٹیکا کا یہ میپ دیکھیں۔تو کچھ حصے کو فرانس کلیم کرتا ہے۔ کچھ حصے کو ناروے کلیم کرتا ہے۔ آسٹریلیا ساری رائٹ سائیڈ کو کلیم کرتا ہے۔
اسی طرح برٹن، چلی، ارجنٹینا اور نیوزی لینڈ بھی انٹارکٹیکا کے کچھ حصوں کو کلیم کرتے ہیں۔ لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
برف کی اس تہہ کے نیچے آخر ایسا کیا ہے کہ دنیا کی سپر پاورز اس کا کنٹرول لینا چاہتی ہیں؟ آج ہم سالو کرنے جا رہے ہیں انٹارکٹیکا کی کچھ مسٹریز اور ساتھ ہی ہم اس کی بھی کھوج لگائیں گے
کہ انٹارکٹیکا کو اصل میں ڈسکور کس نے کیا تھا۔ اور آخر میں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اس برف کے نیچے آخر ایسے کیا راز چھپے ہیں جنہیں دنیا کی سپر پاورز جانتی ہیں اور اسی لیے وہ انٹارکٹیکا کا کنٹرول لینا چاہتی ہیں۔
انٹارکٹیکا کو کس نے دریافت کیا؟
ڈیپینڈز آن ہو یو آر آسکنگ۔ بریٹیشرز کہتے ہیں کہ انٹارکٹیکا انہوں نے ڈسکور کیا تھا جبکہ رشینز کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انہوں نے یہاں قدم رکھا تھا۔
قدیم ذکر اور ابتدائی ایکسپلوریشنز
لیکن انٹارکٹیکا کا ذکر آج سے کئی ہزار سال پہلے گریک فلاسفر ایرسٹوٹل نے کیا تھا جب اس نے کہا کہ زمین گول ہے اور نارتھ اور ساؤتھ پول ایک دوسرے کے مرر امیجز ہیں۔
2021 میں رائل سوسائٹی آف نیوزی لینڈ کی ایک سٹڈی پبلش ہوئی جس میں یہ کہا گیا کہ ایتھر آسٹریلیا کے پاس پولینیشین آئیلینڈز پر رہنے والے ماؤری لوگ شاید پہلے انسان تھے
جو ساتویں صدی میں انٹارکٹیکا پہنچے تھے کیونکہ ان کی پرانی کہانیوں میں ایک ایسے برفیلے کانٹیننٹ کا ذکر ملتا ہے جو زمین کی سدرن سائیڈ پر ہے۔
خیر ریکارڈ ہسٹری میں برٹش آفیسر جیمز کک وہ پہلا یورپین تھا جو انٹارکٹک سرکل کراس کر کے ادھر انٹارکٹیکا کے پاس پہنچا لیکن وہ ابھی انٹارکٹیکا سے 130 کلومیٹر دور ہی تھا کہ اس نے اپنی شپ واپس موڑ لی کیونکہ اسے انٹارکٹیکا تو نظر نہیں آیا مگر پانی میں تیرتے ہوئے آئس برگ ضرور نظر آئے۔
اور سمندر کے تیور ایسے تھے کہ شپ کو آگے لے کر جانا بہت خطرناک تھا۔ اسی لیے جیمز کک نے کہا تھا کہ اس سدرن کانٹیننٹ تک پہنچنا اتنا خطرناک ہے کہ شاید ہی کبھی کوئی انسان یہاں تک آئے۔
جدید تاریخ میں انٹارکٹیکا کی دریافت
کیپٹن کک کے بعد اور بھی بہت سے لوگوں نے انٹارکٹیکا ڈسکور کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ پھر انیسویں صدی کے آتے ہی اکانومک ڈومیننسی کے لیے ملکوں کے بیچ ایک کمپٹیشن شروع ہو گیا۔ دنیا اب ایک نیو ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ریسورسز اور نئے ٹریڈ روٹس ڈسکور ہو رہے تھے۔
انڈسٹریز لگ رہی تھیں۔ ہر کنٹری آنے والی نئی صدی میں سپر پاور بننا چاہتا تھا۔ اور اسی لیے ایکسپلوریشنز عروج پر تھیں۔ ایسے میں 1819 میں رشین ایمپائر نے رشین ایکسپلورر فیبین وان بیلنگزہاؤزن کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ پوری دنیا کے گرد چکر لگائے اور نئی کنٹریز اور کانٹیننٹس ڈسکور کرے۔
1820 میں فیبین نے کیپٹن کک کی پریڈکشن غلط ثابت کی اور یہاں سدرن اوشین میں پہنچ کر انٹارکٹیکا کو بہت قریب سے دیکھا۔
گو کہ اس نے انٹارکٹیکا پر قدم نہیں رکھا تھا مگر اسے ماڈرن ہسٹری کا وہ پہلا انسان کہا جاتا ہے جس نے انٹارکٹیکا کو دیکھا تھا۔
پھر 1900 سے 1920 کے بیچ بہت سے ایکسپلوررز نے انٹارکٹیکا کا رخ کیا۔ برٹش ایکسپلورر رابرٹ فالکن سکاٹ 1911 میں اپنی ٹیم کے ساتھ انٹارکٹیکا پر اترا اور تقریباً 400 مائلز تک آگے گیا مگر پھر خراب موسم اور بھوک کی وجہ سے اسے واپس پلٹنا پڑا لیکن واپسی کا یہ سفر بہت ہی بھیانک ثابت ہوا۔
سکاٹ اور اس کی ٹیم سخت سردی اور برفانی طوفان میں پھنس گئے اور ان سب کی موت ہو گئی۔
پھر ورلڈ وار ون کے بعد بہت سی کنٹریز نے یہاں اپنی ٹیمز بھیجیں اور اس کانٹیننٹ کو کلیم کرنے کی کوشش کی۔
1939 میں ہٹلر کے کہنے پر جرمن ایئر فورس نے یہاں نازی فلیگز بھی گرائے تاکہ اس ایریا کو نازی جرمنی کے کنٹرول میں دکھا سکے۔ ورلڈ وار ٹو کے بعد بہت سی کنٹریز نے یہاں اپنے ریسرچ سٹیشنز سیٹاپ کیے اور یہیں سے پھر انٹارکٹیکا کے بارے میں مسٹیریس ڈسکوریز ہونا شروع ہوئیں
انٹارکٹیکا کے برفانی راز جنگلات اور قدیم حیات
سب سے پہلی اور بڑی مسٹیریس ڈسکوری یہ ہے کہ کسی زمانے میں انٹارکٹیکا پر برف نہیں بلکہ گھنے جنگل تھے۔ امپیریل کالج آف لندن کے سائنٹسٹس کے مطابق انہیں یہاں فاسلائزڈ وڈ ملی جس سے پتہ چلتا ہے کہ قریباً 90 ملین ایئرز پہلے انٹارکٹیکا ایک گرم کانٹیننٹ تھا
جہاں پر گھنے جنگل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہاں کچھ ایسے انسیکٹس کے فاسلز بھی ملے جو صرف گرم علاقوں میں ہوتے ہیں۔
برف کے نیچے چھپی جھیلیں اور ان کا ماحولیاتی نظام
انٹارکٹیکا کے بارے میں دوسری بڑی اور مسٹیریس ڈسکوری یہ تھی کہ اس 3 کلومیٹرز کی برف کے نیچے 400 لیکس ہیں جن کا اپنا ہی ایکو سسٹم ہے۔
وہاں پر ایسے ایسے سمندری جانور ہیں جو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتے۔ جیسے بڑے بڑے سپائیڈرز اور سی تھرو جیلی فش۔ یہ برف کے نیچے ایک الگ ہی دنیا ہے۔
خونی چشمے: ایک سائنسی وضاحت
اسی طرح انٹارکٹیکا پر ایک اور چیز جس نے بہت سے ایکسپلوررز کو بہت سالوں تک پزل کیے رکھا وہ یہ خونی چشمے ہیں۔
مکمرڈو کی ویلی میں ایک واٹر فال ایسے ہیں جیسے برف سے خون نکل رہا ہو۔ مگر حال ہی میں سائنٹسٹس نے یہ ڈسکوری کی ہے کہ اس واٹر فال کا سرخ رنگ اس لیے ہے کیونکہ اس چشمے کو ایک بہت ہی سالٹی لیک سے پانی آتا ہے۔
جس پر اب کئی سو فٹ برف پڑ چکی ہے۔ اور وہ لیک ایٹماسفیئر سے بالکل کٹ آف ہے۔ اس پانی میں بہت زیادہ آئرن ہے اور اسی لیے جب یہ پانی چشمے میں آتا ہے تو آکسیجن اور دھوپ کی وجہ سے پانی میں موجود آئرن آکسیڈائز ہوتا ہے اور اس کا بالکل زنگ جیسا کلر ہو جاتا ہے ۔
قدیم تہذیبیں اور ایلین کی موجودگی؟
انٹارکٹیکا کے بارے میں تیسری سب سے بڑی مسٹری اور کانسپیریسی یہ ہے کہ اس برف کے نیچے کوئی اینشیئنٹ سویلائزیشن ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ کلیم کیا ہے کہ یہاں پر ایلین سپیس شپس بھی دیکھی گئی ہیں۔
2016 میں گوگل ارتھ پر انٹارکٹیکا میں بہت سی انیوژول ایکٹیویٹیز ریکارڈ کی گئی ہیں۔ کانسپیریسی تھیورسٹس جہاں انہیں ایلین یو ایف اوز کہتے رہے وہیں بہت سے پولیٹیکل ایکسپرٹس کے نزدیک یہ امریکہ اور دوسرے کنٹریز کے سیکرٹ ایئر آپریشنز ہیں جو وہ انٹارکٹیکا میں کر رہے ہیں۔
انٹارکٹیکا کی سیاسی اہمیت اور مستقبل
اور یہیں پر آتا ہے انٹارکٹیکا کا وہ ہڈن پولیٹیکل فرنٹ جس سے بہت کم لوگ اویئر ہیں۔
جہاں باقی پوری دنیا دوسرے جیو پولیٹیکل ایشوز میں الجھی ہوئی ہے وہیں امریکہ، چائنا اور سوویت یونین اگریسولی انٹارکٹیکا پر ایکسپیڈیشنز بھیج رہے ہیں۔ ان فیکٹ چائنا نے تو وہاں اپنے ملٹیپل ریسرچ سٹیشنز سیٹ اپ کیے ہیں۔
1959 کی انٹارکٹک ٹریٹی کے مطابق کوئی بھی کنٹری انٹارکٹیکا میں سائنٹیفک انویسٹیگیشنز کر سکتا ہے بس اسے ان سٹڈیز کا رزلٹ سب کنٹریز کے ساتھ شیئر کرنے ہوں گے۔
معدنیات کے خزانے اور عالمی طاقتوں کی دلچسپی
1992 میں یو ایس جیولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے سروے میں یہ ڈسکوری سامنے آئی کہ انٹارکٹیکا میں 500 بلین بیرلز کے نیچرل گیس اور آئل کے ریزروز ہیں لیکن چائنا اور یہ دوسرے کنٹریز اس آئل اور گیس کے لیے انٹارکٹیکا میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں بلکہ حال ہی میں انٹارکٹیکا میں بہت ہی بڑی کوانٹٹی میں نیوڈیمیم، پریزیوڈیمیم، ٹربیم اور ڈسپروسیم جیسے ریئر ارتھ منرلز کے ریزروز ڈسکور ہوئے ہیں۔
یہ وہ منرلز ہیں جو ساری الیکٹرانک ڈیوائسز میں یوز ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ دنیا کا فوکس اب آئل اور گیس سے ہٹ کر الیکٹرانک ڈیوائسز کو پاور کرنے والے انرجی ریسورسز کی طرف جا رہا ہے تو ان منرلز کی ڈیمانڈ آئل اور گیس سے بھی زیادہ ہے۔ الیکٹرک کارز اور آئن بیٹریز ہی اب فیوچر ہیں۔
اور فیوچر کو کنٹرول کرنے کی یہ ریس ہی ان سپر پاورز کو انٹارکٹیکا کی برف اور طوفانوں میں لے آئی ہے۔
سدرن اوشینز کا کردار اور تجارتی راستے
انٹارکٹیکا کی لاسٹ مسٹیریس ڈسکوری یہ سدرن اوشینز ہیں۔
دنیا کے خطرناک ترین سمندروں میں سدرن اوشین کا نام آتا ہے۔ ہماری دنیا کا کلائمیٹ اور واٹر سپلائی یہ سدرن اوشین ہی کنٹرول کرتا ہے کیونکہ یہ اٹلانٹک اور پیسیفک اوشین کے ساتھ بھی ملتا ہے۔
سائنٹسٹس کے مطابق دنیا کا 15 پرسنٹ کاربن ایمیشن سدرن اوشین ایبزرب کرتا ہے۔ اور گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ اس اوشین کی امپورٹنس بڑھتی جا رہی ہے
کیونکہ یہاں پر جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے اور برف کے پگھلنے سے بہت سے خزانے اب باہر آ رہے ہیں۔ جن سمندروں میں کبھی انسان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے بہت جلد وہ امپورٹنٹ ٹریڈ روٹس بننے والے ہیں۔
انٹارکٹیکا: مستقبل کی کھوج اور مزید اسرار
انٹارکٹیکا پر اب بھی بہت سی سٹڈیز چل رہی ہیں اور آنے والے ٹائم میں اور کیا مسٹیریس چیزیں انٹارکٹیکا کے بارے میں ڈسکور ہوں گی۔ کسی کو پتہ نہیں۔
اگر آپ کو اس طرح کے ٹاپکس پسند ہیں تو نیچے کمنٹس میں ضرور بتائیں۔ ملتے ہیں نیکسٹ پوسٹ میں ایک اور انٹرسٹنگ ٹاپک کے ساتھ۔ اپنا خیال رکھیں، اللہ حافظ۔
نوٹ:
اس تحریر میں بعض مقامات پر انگریزی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ چند اصطلاحات ایسی ہیں جن کا اردو متبادل یا تو رائج نہیں یا پھر وہ مفہوم پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ اس لیے مفہوم کی درستگی اور وضاحت کے پیش نظر اردو و انگریزی کے امتزاج کو ترجیح دی گئی ہے۔