انجمن پنجاب

کتاب کا نام تاریخ ادب اُردو 2

کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔5602
صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔107.109
موضوع ۔۔۔۔انجمن پنجاب
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔الیانا کلیم 🌼

انجمن پنجاب

جب دہلی سے چل کر لاہور پہنچیں تو انجمن پنجاب کی صورت میں محفل سخن پر بہار آتی ہے کہ آزاد اور حالی شعر خواں ہیں۔

دہلی کالج کے بر عکس انجمن پنجاب کے مقاصد تدریس تخلیقی تھے یعنی گل و بلبل اور عشق و عاشقی پر مبنی غزلیہ شاعری چھوڑ کر نظم نگاری پر توجہ دی جائے چنانچہ ڈائریکٹر ایجو کیشن کرنل ہالرائیڈ کی زیر سر پرستی 21 جنوری 1865ء کو جدید نظم کے فروغ کی غرض سے اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ڈاکٹر لائٹر اس کے صدر جبکہ مولانا محمد حسین آزاد اس کے سیکرٹری تھے ۔ انجمن کا اپنا پریس کتب خانہ اور جریدہ” انجمن “ بھی تھا جس کے مدیر مولانا آزاد تھے 1874ء میں ماہانہ مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا گیا

جس میں ہر ماہ کسی دیئے گئے موضوع پر نظم پڑھی جاتی تھی۔ غزل گو شعراء اور قدیم ذوق کے حامل افراد نے ان مشاعروں کی سخت مخالفت کی چنانچہ دس مشاعروں کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1874ء میں سات اور اگلے برس تین مشاعروں میں نظمیں پڑھی جاسکیں۔

مولانا محمد حسین آزادان مشاعروں کی روح رواں تھے چنانچہ انہوں نے تمام مشاعروں میں شرکت کی جبکہ مولانا حالی نے تین مشاعروں کے لئے امید ، حب وطن اور انصاف نظمیں لکھیں۔ محمد حسین آزاد کا مشہور مقالہ نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات 15 اگست 1867ء میں منعقدہ انجمن کے ایک اجلاس میں پڑھا گیا تھا۔

انجمن کے دس مشاعروں میں برسات ‘ زمستان امید ، حب وطن امن انصاف مروت قناعت تہذیب شرافت انسانی پر نظمیں پڑھی گئیں۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کی غرض وغایت کے سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ یہ انگریزوں کے ایما پر شروع ہوئے۔

انگریز اردو غزل کی مخصوص روایات اور اس کے مسلمات کی تحسین کے اہل نہ تھے ۔ کہ ان کا شعری ذوق اور تخلیقی حس نظم سے مشروط تھی۔ اس لئے انہوں نے اپنے طور پر نیک نیتی سے یہ محسوس کیا کہ نظم کی صورت میں اردو زبان ترقی کرے گی اور شاعری میں نیا اند از فروغ پائے گا۔ واضح رہے کہ مثنوی قصیدہ اور مرثیہ کی صورت میں اردو میں نظم نگاری کی قوی روایات موجود تھی جبکہ نظیر اکبر آبادی میراور سودا جیسے شعراء برسات اور سردی گرمی پر نظمیں لکھ چکے تھے۔ اس لئے مخالفت بھی ہوئی اور یہ مشاعرے کسی بردی تخلیقی تحریک کے آغاز کے لئے محرک ثابت نہ ہو سکے ہاں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ حالی کے لئے نظمیں لکھنا اچھی تربیت ثابت ہوئی۔ نظم گو کے طور پر انہیں اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا ہو گا اور یوں وہ مد و جزر اسلام لکھ سکے۔

مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے۔

ڈاکٹر صفیہ بانو انجمن پنجاب تاریخ و خدمات کراچی کفایت اکیڈمی 1978 ڈاکٹر عارف ثاقب انجمن پنجاب کے مشاعرے لاہور الوقار 1995ء

انجمن ترقی اردو

انجمن ترقی اردو (ہند) کی صورت میں اردو زبان وادب اور ان سے متعلقہ تحقیقی اور تنقیدی کتب کی تدوین اور اشاعت کے سلسلہ میں ایک ایسا فعال ادارہ ملتا ہے جو اپنے وجود میں منفرد شہرت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے

کہ ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب نے ” انجمن ترقی اردو ہند کی علمی اور ادبی خدمات” پر تحقیقی مقالہ قلم بند کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1986 ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ 1990ء میں یہ تحقیقی مقالہ علی گڑھ سے شائع ہوا۔ پاکستان میں بھی سید ہاشمی فرید آبادی نے پنجاه سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو قلم ہند کی (کراچی (1953)۔ ان دونوں کتابوں سے حاصل شدہ کو الف کی مدد سے انجمن ترقی اردو کی مختصر ترین تاریخ پیش ہے۔

انجمن ترقی اردو کا قیام 1903ء میں محمڈن اینگلو اور نیشنل ایجو کیشنل کانفرنس کے ایک ذیلی شعبہ کی حیثیت سے عمل میں آیا۔ اس وقت اس کا صدر دفتر علی گڑھ میں تھا۔ 1936ء میں مرکزی دفتر دہلی منتقل کر دیا گیا۔ اگلے برس سے اس کے نام کے ساتھ ” ہند ” اور قیام پاکستان کے بعد کراچی دفتر کی منتقلی کے بعد ” پاکستان کا اضافہ کر دیا گیا۔

انجمن ترقی اردو کے پہلے صدر علامہ اقبال کے فلسفہ کے استاد اور نامور پروفیسر ٹامس آرنلڈ تھے۔ نائب صدور : مولوی نذیر احمد ، مولوی محمد ذکا اللہ خواجہ الطاف حسین حالی جبکہ شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔یہ نام ہی اس بات کی ضمانت ہیں کہ انجمن نے کن لوگوں کی سر پرستی میں علمی مساعی کا آغاز کیا۔ 11905ء میں شبلی مستعفی ہو گئے اور مولوی حبیب الرحمن شروانی سیکرٹری بنا دیئے گئے ۔

1913ء میں مولوی عبد الحق اس کے اعزازی سیکرٹری نے تو صدر دفتر اورنگ آباد (دکن) میں منتقل ہو گیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی زندگی انجمن اور اردو کے لئے وقف کر دی۔ اس حد تک کہ انجمن اور عبد الحق لازم و ملزوم ہو گئے اور بابائے اردو “ کہلائے۔

قیام پاکستان کے بعد مولوی عبدالحق نے 28 جنوری 1949ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان کو خیر باد کہہ دیا کراچی میں انجمن کا دفتر قائم ہوا۔ مولوی صاحب نے دن رات کی انتھک محنت سے پاکستان میں انجمن کو فعال رکھا۔ مولوی صاحب کا 16 اگست 1961ء کو انتقال ہوا اور کراچی میں دفن ہوئے۔

انجمن کا ایک اہم کام کراچی میں اردو کالج کا قیام ہے۔ 1950ء میں محکمہ تعلیم سے اس کا الحاق ہو گیا اس میں تمام مضامین کی تدریس اردو زبان میں ہوتی ہے۔

جہاں انجمن نے کتابیں طبع کیں وہاں محققانہ مقالات کی اشاعت کے لئے جنوری 1921ء میں مجلہ "اردو” 1928ء میں "سائنس” جنوری 1946ء میں معاشیات 1939ء میں "ہماری زبان “ کے نام سے پندرہ روزه اختبار جاری کیا گیا۔

پاکستان میں بھی اردو اور قومی زبان شائع ہوتے ہیں۔ دونوں پرچوں میں تحقیقی اور تنقیدی مقالات چھپتے ہیں۔ ان دنوں انجمن ترقی اردو دہلی سے سہ ماہی اردو ادب نکلتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان میں انجمن نے تحقیق ، تنقید لسانیات لغت تاریخ فلسفہ سائنس اور متعدد دیگر علمی موضوعات پر طبع زاد کتب اور تراجم شائع کئے۔ دونوں ممالک کے نامور اہل قلم اور اہل نقد میں سے بیشتر کسی نہ کسی صورت میں انجمن سے وابستہ رہے ہیں۔ ہندوستان میں انجمن اپنے قیام کی صدی مکمل کرنے کو ہے جبکہ پاکستان میں نصف صدی سے فعال ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں