ڈرامہ انار کلی کا خلاصہ امتیاز علی تاج کا یہ ڈرامہ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے بیٹےشہزادہ سلیم اور شاہی محل کی ایک کنیز انارکلی کی داستان محبت ہے۔ ڈرامے کے آغازی میں ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ شہزادہ سلم محل کی ایک کنیز نادرہ بیگم (جسے اکبر نے انار کلی کا خطاب دے رکھا ہے) کی محب میں مبتلا ہے اور ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انارکلی کے محل میں آجانے سے ایک اور کنیز دالارم بھی شہزادہ سلیم کو چاہتی ہے۔ لکین اب تک اسے اظہار جذبات کا کوئی موقع نہیں ملا ہے۔ دل ارام انار کلی کے نہ صرف عروج اور عزت افزائی پر اس سے رشک و حسد میں مبتال ہو جاتی ہے بلکہ جب اسے یہ پتہ چلاتا ہے کہ شہزادہ سلیم انارکلی کی طرف مائل ہے تو وہ انارکی کو اپنی رقیب تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف سازش کا ایک جال تیار کرتی ہے۔ اتفاق سے جشن نوروز کا سارا انتظام و احتمام دالارم کے ہاتھ میں دیا تھا۔ اس جشن میں انارکی کو بادشاہ کے حضور اپنے رقص و نغمہ کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دلارام وہاں نشستوں اور آئینوں کی ترمیم اس طرح رکھتی ہے کہ بادشاہ شہزادے کی حرکات وسکنات شیشوں میں دیکھ سکے۔ جب انارکلی کے گانے کی باری آتی ہے تو دلارام پانی میں شراب لا کر اسے پلادیتی ہے اور فیضی کی ایک ایسی غزل منتخب کرکے گانے کے لئے دیتی ہے جس میں عاشق کی طرف سے اپنے محجوب کے لئے والہانہ جذبات محبت کا بیان ہے۔ انار کلی شراب کے سرور میں ماحول سے بےگانہ ہوجاتی ہے اور کچھ اس ادا سے نفقہ سرائی کرتی ہے گویا وہاں اب اس کے اور سلیم کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس کی اس کیفیت کو سب محسوس کرتے ہیں۔ سلیم انار کلی کو اشاروں سے منع کرتا ہے اور دلارام ہی منظر اکبر کو آئینوں میں دکھا دیتی ہے جسے دیکھ کر اکبر غصے سے بے قابو ہو جاتا ہے اور انارکی کو قید میں ڈالنے کا حکم دے دیتا ہے۔اکبر کو اس بات کا ملال ہے کہ سلیم نے ایک ادنی کنیز کو اپنا مرکز توجہ کیوں بنایا ۔ ادھر دلارام اکبر سے حلیہ بیان کرتی ہے کہ اسے سلیم اور انارکی کو اپنے کان سے بادشاہ کے خلاف سازش کرتے ہوئے سنا ہے اور یہ کہ دیتی ہے کہ انار کلی سلیم کو اکبر کے خلاف اکساتی اور بغاوت پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی گفتگو کے دوران داروغہ زندان اکبر کے حصے باریاب ہو مرکز شکایت کرتا ہےکہ سلم نے بزور شمشیر انارکلی کو قید سے چھڑالے جانا چاہا اور اسے بڑی مشکل سے اس سے باز رکھا جا سکا۔ یہ سب باتیں سن کر اکبر اس قدر غضب ناک ہوتا ہے کہ اسی وقت انار کلی کو زندہ دیوار میں گاڑ دینے کا حکم صادر کر دیتا ہے اور اگلے دن اسے زندہ دیوار میں چنوا دیتا جات ہے۔ جب سلیم کو انار کلی کی موت کی خبر ملتی ہے تو وہ طیش کے عالم میں باہر جانا چاہتا ہے لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ نظر بند ہے اور باہر نہیں جاسکتا۔ اسی وقت دلارام سے اس کا سامنا ہوتا ہے اور انارکلی کی بہن سریا اسے بتاتی ہے کہ دلارام ہی انارکلی کے قتل کی ذمہ دار ہے سلیم ایک عالم جنون میں اس کا گلا دبا دیتا ہے۔ جب اکبر کو اس واقعے کی اطلاع ہوتی ہے تو وہ فورا سلیم کے پاس پہنچتا ہے سلیم اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اکبر لاکھ چاہتا ہے کہ وہ اسے باپ کہہ کر سینے سے لگ جائے لیکن سلیم اس پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اکبر نہایت مایوسی اور شکست خوردگی کے عالم میں مسند پر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی ماں اسے تسلی دیتی اور اس کا سر اپنے سینے سے لگالیتی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں