ناول میری یادوں کے چنار کا فنی جائزہ | A Technical Analysis of the Novel Meri Yadon Ke Chinar
تحریر اسکالرز: بی بی جویریہ گل اور عالیہ بی بی مریم
موضوعات کی فہرست
کردار نگاری
کردار نگاری ناول کا بنیادی جزو ہے۔ کہانی کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ کسی بھی کہانی میں دو طرح کے کردار ملتے ہیں۔ متحرک کردار اور جامد کردار۔
متحرک کردار وہ ہوتے ہیں جو ایک حالت پر قائم نہیں رہتے بلکہ حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
کبھی یہ کردار اچھا کام کرتا نظر آئے گا اور کبھی برائی میں مبتلا نظر آئے ۔ اس طرح کے کردار متحرک کردار کہلاتے ہیں۔
جامد کردار وہ کردار ہوتے ہیں جس میں حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ وہ ایک ہی حالت میں قائم رہتے ہیں۔ اس طرح کے کردار جامد یا بے جان کر دار کہلاتے ہیں۔
فنی لحاظ سے ناول ” میری یادوں کے چنار ” کے کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو ناول نگار نے کرداروں کو ان کے عادات و اطوار اور حیثیت اور عمر کے مطابق پیش کیے ہیں۔
ناول ” میری یادوں کے چنار ” میں بہت سے کردار ہیں لیکن ان میں کچھ کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔
ناول میں خانم اور پتاجی وغیرہ کے کردار متحرک کردار ہیں۔
اس کے علاوہ ناول میں ایسے کردار بھی ہیں جو ناول کے آغاز سے نہیں ہوتے بلکہ جب موقع ملتا ہے سامنے آتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔
مراد یہ کہ کچھ کر دار موقع محل کی مناسبت سے سامنے آتے ہیں اور اپنا رول ادا کر کے چلے جاتے ہیں مثال کے طور پر ڈولا کا کردار، سپیرن کا کردار و غیرہ۔
انہی کرداروں کی مدد سے کہانی اختتام تک پہنچتی ہے۔
پتاجی کا کردار:
یہ کرشن چندر کے والد صاحب کا کردار ہے جو میری یادوں کے چنار کا مرکزی کردار ہے جن کا عکس پورے ناول میں نظر آتا ہے۔
پارسا آریہ سماجی تھے اور اس کی بیوی سناتن تھی۔ پتا جی بہت رحم دل اور نرم دل انسان تھے۔ لیکن اس کی بیوی ایک تنگ نظر عورت تھی۔
پتا جی کو اپنے دھرم کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ جب یہ اپنے مسلمان دوست نیاز احمد کو گھر میں پناہ دیتے ہیں تو اس کی بیوی اس سے کہتی ہے کہ تم ایک مسلمان کو گھر میں پناہ کیسے دے سکتے ہو تم اپنے مذہب کا خیال نہیں رکھتے تو یہ اپنی بیوی کو یوں سمجھاتے ہیں:
” تم نہیں جانتی ہو دوستی بھی تو ایک دھرم ہے وہ خود ایک مذہب ہے اس کے اپنے اصول ہیں جس طرح تمہارے دھرم کے اُصول ہیں۔” (1)
پتا جی ڈاکٹر تھے۔ ریاست کی طرف سے اس کو ایک بنگلہ ملا تھا اور اس بنگلے میں اس کا ہسپتال بھی تھا۔
یہ ایک اچھا ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج انسان بھی تھے۔ اپنے مریضوں کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ اس کے ہسپتال میں ایک بیوہ عورت شانو علاج کے لیے آئی تھی۔ اسے تب دق کی بیماری تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کو ہسپتال میں کمرہ دیا ہوا تھا۔ دن میں دو تین مرتبہ وہ شانو کی خبر لیتا تھا۔ لیکن ان کی بیوی ایک شکی مزاج عورت تھی۔
اس نے شانو کو ہسپتال سے نکال دیا اور کچھ ماہ بعد شانو اس بیماری کی وجہ سے مرگئی۔
ڈاکٹر صاحب کو جب اس کی موت کی خبر ملی تو اسے سخت بخار ہو گیا۔ وہ ہمیشہ ایک گانا گایا کرتے تھے۔ بیماری کے دوران اس کی بیوی اس کے منہ سے گانا سننے کے لیے ترستی تھی۔
اس پر کوئی دوا اثر نہ کرتے تھے دو دن بعد معلوم ہوا کہ اسے ٹائیفائیڈ ہے۔ پورے اکیس روز بعد بخار اتر گیا تو پتا جی بے حد کمزور ہو چکے تھے۔
یرقان نے بھی حملہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کا جگر بھی خراب ہو گیا تھا اور آنکھیں پیلی پڑگئی تھیں۔
ایک دن اس کے گھر میں ایک رمتا جوگی آیا۔ اس کی بیوی نے بہت سا آٹا دینے کے بعد جوگی کو اپنا حال سنایا۔
جوگی نے اس کے علاج کے لئے پھپھانو کی بیل دکھائی کہ صبح سویری پھپھانو کے پھلوں پر جو اوس پڑے ہوتے ہیں وہ سورج چڑھنے سے پہلے اسے پلا دو گے اور پھلوں کا رس نکال کر آدھے گھنٹے بعد وہ بھی پلاؤ گے ۔
چالیس روز تک اس طرح یہ دو کھلائی ہو گی۔ اس کی بیوی ہر روز جنگل جاتی اور شوہر کے لئے پھیپھانو لاتی تھی لیکن گیارہویں دن اس کی بیوی نے بہت دیر کیا جب دیکھا تو بیوی بہت زخمی حالت میں جنگل سے آرہی تھی۔
پتا جی نے جب بیوی کو دیکھا تو کسی نہ کسی طرح بستر سے اٹھ کر اس کے پاس چلے گئے اور اس سے معافی مانگی۔
ڈاکٹر صاحب ایک ایماندار شخص تھا۔ اس کے ہسپتال میں جو بھی آتا اس سے کوئی ذاتی دشمنی بھی ہو پھر بھی ایمانداری کے ساتھ اس کا علاج کرتا۔
اس حوالے سے ایک واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب راجاجی بہادر کو گولی مار کر زخمی کیا گیا اور زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر صاحب اس کا علاج پوری ایمانداری سے کیا ریاست کے راجا جی اس کو حکم دیتا ہے کہ بہادر کو کسی نہ کسی طرح ہسپتال میں ختم کر دیا جائے۔
لیکن ڈاکٹر صاحب اس کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے اور بہادر کی مدد کرتا ہے اور اسے ہسپتال سے بھاگ جانے میں تعاون کرتا ہے تاکہ اس کی زندگی بچ جائے۔
جس پر سب لوگ خوش ہو جاتے ہیں لیکن ریاست کا راجہ اس نافرمانی پر اسے چوبیس گھنٹے کے اندر ریاست کی سرحد سے باہر نکل جانے کا حکم دیتا ہے۔
پتا جی اپنا بنگلہ، نوکر ، مال اور زمین سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ روانہ ہو جاتے ہیں جب وہ جارہے ہوتے ہیں تو بیٹا ان سے کہتا ہے :
"ماں جی۔ پتا جی مجھے گھر لے چلو۔ مجھے گھر لے چلو کیوں کہ ان دنوں میں بچہ تھا اور مجھے معلوم نہ تھا جو بچ کے راستے پر چلتے ہیں ان کے لیے کوئی گھر نہیں ہوتا ۔۔۔
اور اپنے پیچھے یادوں کے چنار چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔ اور آسمان کی طرف سر بلند ہو کر ان کو شہادت کی گواہی دیتے ہیں۔” (4)
جانکی کا کردار
یہ کرشن چندر (کاکے ) کی والدہ کا کردار ہے۔ یہ ناول "میری یادوں کے چنار ” کا مرکزی نسوانی کردار ہے۔ انتہائی تنگ نظر عورت ہے۔
اس کے ذہن میں کٹر قسم کے توہمات اور منفی خیالات جنم لیتے ہیں۔ یہ اپنے معاشرے میں بدلے ہوئے نظریات سے دور اپنے گھر میں ترقی یافتہ شوہر اور اکلوتے بیٹے کی دیکھ بھال میں مصروف رہنے والی عورت ہے۔
ان کو یہ بات بالکل اچھی نہیں لگتی کہ ان کا بیٹا کسی نیچ ذات کے بچوں کے ساتھ کھیلے یا ان سے کوئی تعلق رکھے۔
اس کا شوہر ڈاکٹر تھا۔ وہ جب بھی کسی کا پوسٹ مارٹم کر کے گھر آتا تو اس کو اُس وقت تک سکون نہ ملتا جب تک اس کا شوہر گنگا جبل اپنے اوپر نہ جھڑک لیتے اور اپنے کمرے میں جانے سے پہلے غسل کر کے کپڑے نہ بدلتے۔
ہر پونم کی صبح وہ اپنے بچے کو نہلاتی اور اس کے بعد سات قسم کے انان اس کے ساتھ تول کر مشیر جی کے حواکے کرتے۔
یہ بہت شکی مزاج عورت تھی۔ اس کا شوہر جب کسی مسلمان کو دوست بنانے کا ارادہ کرتا تو اس سے بالکل بھی برداشت نہ ہوتا اور کسی بے سہارا مظلوم اور بیدو کی خدمت کرنا بھی ان سے برداشت نہ ہوتا۔
ایک بیوہ عورت شانو جب ہسپتال میں علاج کے لئے آتی ہے تو ڈاکٹر صاحب اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔ ان دنوں جانکی لاہور میں گردوں کے علاج کے لیے گئی تھیں۔
مگر جیسے ہی ان کو شانو کے بارے میں پتہ چل گیا۔ فوراً گھر پہنچی اور پہنچتے ہی شور مچانا شروع کر دیا اور ڈاکٹر پر الزام لگایا کہ اسے شانو سے محبت ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہے:
"کسی کے بالوں میں پھول لگانا علاج ہے ؟ کسی کے ہاتھ کا پکا کھانا علاج ہے ؟ کسی کے پاس ڈیڑھ دو گھنٹے بیٹھ کر خوش گپیاں کرنا علاج ہے ؟
اگر یہ علاج ہے تو عشق معشوقی کس کو کہتے ہیں۔” (۸)
یہ اپنی غلطیوں پر پچھتاتی تھی لیکن یہ اس کی فطرت میں شامل تھا کہ اپنی غلطی کو مان لینے کے بعد وہ پھر انہی غلطیوں کی طرف راغب ہو جاتی تھی۔
فنی لحاظ سے جاںگی کا کردار ہندو معاشرے کا ایک ایسا کردار ہے جو مذ ہبی اور کٹر لوگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔
اسے انسانی رشتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اتنی خوش رہنے کے باوجود بھی سکون کی زندگی بسر کرنے سے محروم تھی۔
اس کے کردار میں کوئی جھوٹ ، فریب، دھو کہ اور مکر نہیں ہے لیکن اس کے کردار کا یہ واضح ثبوت ہے کہ ایسی عورت کے ذہن کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔
کاکے کا کردار (کرشن چندر)
کاکے کا کردار کرشن چندر کا بچپن کا کردار ہے۔ جن میں انھوں نے اپنے بچپن کے حالات کو بیاں کیا ہے۔ کرشن چندر اس وقت اٹھ سال کا بچہ تھا اور نہایت کمزور تھا۔
ان کی ماں ان کی صحت کا بہت خیال رکھتی تھی۔ لیکن ان پر نہ کھانا نا اور نہ یہ ہوتا دن بدن کمزور ہو تا جار ہا تھا۔ ان کی ماں انھیں ہر پونم کی صبح نہلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا کر انہیں گوردوارے لے جاتی تھیں۔
ہرپونم کی صبح ان کا اپنا دن ہوتا تھا۔ اس دن کوئی نوکر ان کو ہاتھ نہ لگاتا تھا بلکہ ان کی ماں ان کی ساری دیکھ بھال خود کرتی تھی کیوں کہ یہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔
کرشن چندر اپنے بچپن کے دوست تاراں کو بہت پسند کرتا تھا اور ہر وقت ان کے ساتھ باغ میں کھیلا کرتا تھا۔
لیکن ان کی ماں ان کو تاراں کے ساتھ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی مگر یہ اپنی ماں سے چھپ کر تاراں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔
جب یہ اپنے باپ کے ساتھ کرمان جاتے ہیں تو تاراں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں ۔ کرشن چندر نے طے کیا تھا کہ میں بڑا ہو کر اس سے شادی کروں گا۔
لیکن ان دونوں ان کی عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی ۔ کرشن چندر کی عمر آٹھ سال اور تاراں کی عمر صرف چھ سال تھی۔ ان کی شادی میں ابھی بہت وقت باقی تھا۔
اس حوالے سے کرشن چندر رقمطراز ہیں:
"ہم لوگوں کو اپنے ماں باپ کی طرح بڑا ہونے میں بہت سال لگ جائیں گے نہ جانے یہ بڑی عمر کے لوگ ہم چھوٹے بچوں کو شادی کیوں نہیں کرنے دیتے۔” (۹)
کرشن چند ر جب اپنے باپ کے ساتھ ریاست چھوڑ کر جاتا ہے تو بہت روتا ہے اور اپنے پیچھے چنار کے درختوں کو دیکھتا ہے.
اور تاراں کو یاد کرتا ہے کیوں کہ ان دنوں کرشن چندر بچہ تھا ان کو معلوم نہ تھا کہ جو لوگ حق کے راستے پر چلتے ہیں ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔
تاراں کا کردار
یہ کرشن چندر کی بچپن کی ہم جولی کا کردار ہے جو انہوں نے ” میری یادوں کے چنار ” میں پیش کیا ہے۔
تاراں ایک چمار کی بیٹی تھی جن کی عمر چھ سال تھی ۔ ان کا باپ نہایت غریب تھا۔ اس کے کپڑے اکثر جگہ جگہ سے پھٹے ہوتے تھے۔
ان کی ماں ان کے بالوں میں کبھی تیل نہیں لگاتی تھی ۔ وہ تیل کھانے کے لیے استعمال کرتے تھے بالوں کو چمکانے کے لئے نہیں۔
کرشن چندر کی ماں ان لوگوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ یہ لوگ جب ان کے گھر کچھ مانگنے کے لیے آتے تو ان کی ماں بہت غصہ ہوتی تھی۔
کیونکہ یہ نیچ ذات کے لوگ تھے ان کی اپنی کوئی زمین بھی نہیں تھی۔
تاراں جب کرشن چندر کے ساتھ کھیلنے کے لیے آتی تھی تو کرشن چندر کی ماں انہیں دیکھ کر بہت غصہ ہوتی تھیں۔
ایک دن تاراں کرشن چندر کے ساتھ باغ میں کھیل رہی تھیں۔ جب تاراں کو کرشن چندر کی ماں نے دیکھا تو انھیں پکڑ کر زور زور سے مارنے لگی۔
وہ اس وقت اس قدر غصے میں تھی کہ اگر کرشن چندر کے پتا نہ آتے تو وہ تاراں کی ہڈیاں توڑ دیتی۔
تاراں بہت زیادہ رو رہی تھی۔ پتا جی نے تاراں کو گود میں اٹھا کر باغ میں لے گئی۔ ان کی جھولی خوب صورت سیبوں سے بھر دیا۔
تاراں نے سیبوں کو دیکھتے ہی رونا بند کر دیا۔
ایک دن تاراں کرشن چندر کے ساتھ بات سے باہر چنار کے جھنڈ میں کھیل رہی تھی۔ وہاں پر یہ دونوں ندی کے کنارے لال پتوں سے کشتیاں بناتے اور ندی میں تیرائیاں کرتے تھے۔
یہ دونوں کشتیاں بنانے میں مصروف تھے کہ کرشن چندر کا ملازم آیا۔ اس نے کرشن چندر سے کہا ” چلو ماں ہی تمہیں بلا رہی ہیں”۔
وہ اپنے ملازم کے ساتھ روانہ ہوا اور تاراں کی طرف دیکھ کر کہا ” تم کشتیاں بناؤ میں آرہا ہوں "۔ تاراں نے کرشن چندر پر اپنی معصوم نگاہ ڈالی اور کہا ” جلدی آنا” لیکن اس کے بعد یہ دونوں کبھی نہیں ملے۔
راجا کا کردار
راجہ ” میری یادوں کے چنار ” کا اہم کردار ہے۔ مذہب کے لحاظ سے ہندو تھا اور فتح گڑھ کا سارا علاقہ اس کی ریاست میں تھا۔
لیکن اس نے اپنی ریاست میں مسلمان و ہندو دونوں کو جگہ دی تھی اور مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے لیکن اگر کوئی اس کی نافرمانی کرتا یا اس کے خلاف چلتا۔
تو یہ اس سے کبھی برداشت نہ ہوتا۔ فحے یعنی فیض محمد خان ڈاکو نے جب فتح گڑھ تحصیل کے خزانے کو لوٹ لیا اور تھانیدار نیاز احمد جب راجہ کی بہن سے عشق کر کے بھاگ گیا۔
تو راجہ جی ان دونوں کی جان کے دشمن بن گئے اور ان دونوں کو پکڑنے کے لئے انعام رکھ دیا ۔
راجہ نے حکم نامہ جاری کیا کہ اگر کسی نے ان کو زندہ پکڑ لیا یا پھر ان کو قتل کر کے ان کے دربار میں پیش کر دیا تو اسے دس ہزار کا انعام دیا جائے۔
راجہ جی نے بہادر کو (جو ایک مسلمان تھا) ہند و پرائمری سکول میں ہیڈ ماسٹر مقرر کیا تھا۔
ایک دفعہ راجاجی جنگل میں شکار کے لئے چلے گئے تو شکار میں منکے کم تھے۔ راجہ نے بہادر کو سنئے لانے کے لیے بلایا لیکن بہادر نے منکے لانے سے انکار کر کے فرار ہونے لگا تو راجہ نے اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی بہادر شدید زخمی ہو کر اسپتال پہنچ گیا۔
ہسپتال کا ڈاکٹر صاحب بھی راجہ کا ملازم تھا اس نے بہادر کا علاج شروع کیا لیکن را جانے حکم دیا کہ بہادر کو ہسپتال میں ختم کر دیا جائے لیکن ڈاکٹر صاحب نے راجہ کی بات کو نظر انداز کر کے بہادر کو ہسپتال سے فرار ہونے میں مدد کی تو راجہ جی نے ڈاکٹر صاحب کو اس نافرمانی پر ریاست بدر کر دیا۔
فتح گڑھ کے علاقے میں ہر کوئی راجہ کی بد انتظامی سے تنگ آچکا تھا کیوں کہ راجہ اپنے فائدے کے لیے کسی کو جان سے مار دیتے تھے اور کسی کو ریاست بدر کر دیتا ہے ۔
راجا جیسے کردار ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں قیام پاکستان سے پہلے بھی انگریزوں کے خان بہادر کی صورت میں راجا جیسے کردار معاشرے کے مظلوم طبقوں پر ظلم کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
اسلوب بیاں
اسلوب بیان ناول کا اہم عنصر ہے۔ اگر ناول نگار کو جملوں کی ساخت اور الفاظ کے انتخاب میں ہنر مندی نہ ہو اور ناول کی زبان مشکل ہو تو دوسری خوبیوں کی موجودگی کے باوجود ناول میں خوبصورتی پیدا نہیں ہو سکتی۔
کرشن چندر کر سورت الفاظ، تشبیہات و استعارات اور دلکش تراکیب پر مہارت حاصل تھی۔
اس ناول کا زبان سادہ اور رواں دواں ہے۔ قاری ناول کے آغاز سے لے کر انتقام تک کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا۔
ناول میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو قاری کی سمجھ میں نہ آئے بلکہ قاری روانی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
مصنف نے جس طبقے کے کردار کو پیش کیا ہے اس کے مطابق اسلوب اور انداز بیان بھی اپنایا ہے ۔ ناول سے ایک مثال ملاحظہ کیجئے:
"مٹی کی چار دیواری تھی مٹی کی چھت تھی۔ جس میں نتھے کی جھاڑیاں کوٹ کوٹ کر بچھائی گئی تھیں گھر میں کوئی کھڑ کی نہ تھی صرف ایک دروازہ تھا۔
ایک اندھیرے کونے میں ایک چولھا تھا اس پر نیلے پتھر کا ایک تراشا ہوا ٹکڑا اوندھا پڑا تھا۔” (۱۲)
کرشن چندر کے اسلوب کے بارے میں ڈاکٹر صفد ر لکھتے ہیں:
"کرشن چندر کا سٹائل تو اردو کا وہ اعجاز ہے جو نہ کرشن چندر سے پہلے کسی افسانہ یا ناول نگار میں دکھایا گیا اور نہ اس کے بعد آج تک نظر آیا۔”(۱۴)
تشبیہات کا استعمال
کرشن چندر نے اس ناول میں تشبیبات و استعارات کا بھی خوب صورت استعمال کیا ہے۔
فنی لوازمات کے استعمال میں انہیں کمال حاصل تھا۔ ناول میں تشبیہ کی مثالیں دیکھیے :
"ناشپاتیوں کا رنگ تاراں کے چہرے کی طرح سنہرے ہو چکا تھا اور ان کی جلد بھی اسی طرح ملائم اور شفاف دکھائی دے دی۔
چنار کے پتوں کو جیسے آگ نے چھو لیا چنار کے سنہرے پتوں والی کشتیاں جب ندی کی سطح پر تیرتی ہیں تو بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے۔
گویا راجہ کے محل کے تالاب میں کنول کے پھول کھلے ہیں”(۱۹)
تشبیہات اور استعارات زبان کی خوب صورتی کا باعث بنتے ہیں، نثر ہو یا شاعری ہر صنف میں یہ فنون انتہائی توجہ سے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اور اگر ان کا بر محل اور موقع محل کے مطابق استعمال کیا جائے تو تحریر میں دلکشی آجاتی ہے تاہم اگر ان کا زیادہ استعمال کیا جائے تو بھی تحریر بو جھل بن جاتی ہے۔
کرشن چندر کے ناول میں اگر تشبیہات و استعارات کا جائزہ لیا جائے تو وہ موقع محل کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔
غیر ضروری طور پر دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے وہ تشبیہات و استعارات کا استعمال نہیں کرتے۔
کرشن چندر کی منظر نگاری بحوالہ میری یادوں کے چنار
ناول میری یادوں کے چنار کا تنقیدی جائزہ بحوالہ پلاٹ
بشکریہ: کرشن چندر کے ناول میری یادوں کے چنار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ مقالہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں