ناول گردش رنگ چمن کا فنی و فکری جائزہ

ناول گردش رنگ چمن کا فنی و فکری جائزہ | An Artistic and Intellectual Analysis of the Novel "Gardish-e-Rang-e-Chaman”

تحریر: اسکالر روفین نیاز

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. گردش رنگ ِ چمن تغیرات کی کہانی ہے لیکن وہ تغیرات جو ایک خاص دائرے میں ہوتے ہیں۔۔۔
  2. واقعات کا سلسلہ کلکتہ ،دہلی ،جے پور الکھنؤ سے امریکہ اور پھر وہاں کی داستان تک پھیلا ہو اہے۔۔۔
  3. اس ناول میں وقت اور تاریخ کی ظلمت ،جبریت و طاقت ،ذات کی شناخت اور محرومی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔بقول ڈاکٹر اسلم آزاد۔۔۔۔۔
  4. اس ناول میں مصنفہ نے جنگ آزادی کے بعد بغاوت کی صورتِ حال اور اثرات کو بیان کیا ہے۔۔۔
  5. ناول “گردشِ رنگ چمن ”نکا فنی و فکری جائزہ۔۔۔راجہ دلشاد اس ناول کا ایک اہم کردار ہے یہ ایک لُٹی ہوئی ریاست کا نواب ہے۔۔۔
  6. دلنواز بانو بیگم ایک المیہ کردار ہے جو مغلیہ تہذیبی اقدار کی نمائندگی کرتی ہے۔۔۔
  7. کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنی عیش و عشرت کی بناء پر ترقی نہیں کر سکتے اورہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔۔۔

ناول “گردشِ رنگ چمن ”نکا فنی و فکری جائزہ

ناول گردش رنگ چمن کا فکری جائزہ

گردش رنگ چمن کا فکری جائزہ

گردش رنگ چمن ١٩٨٧عیسوی میں شائع ہوئی گردش رنگ چمن کا عنوان غالب کے شعر سے ماخوذ ہے ۔

عمر میری ہو گئی صرف بہار حسن
گردش رنگ چمن ہے ماہ و سال سال
“اس ناول کا موضوع دراصل قدیم اور جدید کے درمیان کشمکش ہے جس کے نتیجے میں مختلف افراد ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔”(١٤)

قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں انہوں نے ماضی کو حال سے مربوط کر کے بیان کیا ہے ۔

اس ناول میں مصنفہ نے جنگ آزادی کے بعد بغاوت کی صورتِ حال اور اثرات کو بیان کیا ہے

کہ کس طرح علیٰ اور شریف خاندان کے لوگوں کو اذیت ناک زندگی گُزارنے پر مجبور کیا اور کئی اچھے گھرانوں کی لڑکیاں طوائف بنا دی گئیں اور طوافوں جیسے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری

ان کی ذاتی زندگی اور شناخت آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوئی اس ناول میں ماضی حال کے واقعات کو مختلف کرداروں کی مدد سے پیش کیے گئے ہیں ١٨٥٧ء کے بعد کی بدترین صورت ِ

حال اور اثرات سے تعلق رکھنے والی عندلیب بانو ،عنبرین اور ڈاکٹر منصور کی کہانی ہے ۔یہ مختلف واقعات مصنفہ نے ایک سلسلے میں جوڑ دیا ہے کیونکہ وقت ایک ٹھوس صداقت ہے ماضی ،

حال اور مستقبل اس کے تین دھارے ہیں ۔ماضی کبھی نہیں بدلتا اور حال پر اثر انداز ہو جاتا ہے اور مستقبل پر بھی اس کے سایے لہراتے نظر آتے ہیں اس لیے ماضی چاہے خوشگوار ہو یا ناگوار اسے فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔

اس ناول میں وقت اور تاریخ کی ظلمت ،جبریت و طاقت ،ذات کی شناخت اور محرومی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔بقول ڈاکٹر اسلم آزاد :

“زمانے کے تمام حالات و واقعات اور گُزرے ہوئے زمانے کے تمام روپ رنگ اس ناول میں سموئے ہوئے ہیں

واقعات کا سلسلہ کلکتہ ،دہلی ،جے پور الکھنؤ سے امریکہ اور پھر وہاں کی داستان تک پھیلا ہو اہے

سارے واقعات معاشرہ اور تہذیب اور اس تعلق رکھنے والے افراد پر طنز کی حیثیت رکھتے ہیں اور المناک بھی ہیں ”(١٥)

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کے سوانحی حالات

گردش رنگ ِ چمن تغیرات کی کہانی ہے لیکن وہ تغیرات جو ایک خاص دائرے میں ہوتے ہیں

اس ناول میں زمینی اور زمانی فاصلے زندگی سے ایک گہرے ربط کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں قدم رُکتے ہیں اور ٹھہر کر پھر نئے مرکز کی تلاش میں کھو جاتے ہیں۔

ناول میں قصے کی شروعات غدر یعنی جنگ ِ آزادی کے قریب زمانے سے ہوتی ہے جب ہم دلنواز بانو بیگم سے متعارف ہوئے ہیں کہ وہ کون ہے ؟اس کا پس منظر کیا ہے ؟

دلنواز باہری دنیا کے تغیرات اسے کبھی بھی حقیقت نہیں بننے دیتے وہ حقیقت زیر حقیقت رہتی ہے ۔زندگی میں انقلاب لانے کی خواہش اپنے مرکز سے الگ کسی دوسری سمت میں سفر پر مجبور ہو جاتی ہے

فنون ِ لطیفہ سے رشتہ چاہے وہ تصویروں سے تعلق رکھتا ہو یا رقص و موسیقی سے یا تصوف و روحانیت سے کہانی کا تانا بانا بناتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے ،تقدیر سے تدبیر کی طرف آتا ہے

لیکن یہاں پہلے قدم کے بعد باقی جتنے قدم اُٹھتے ہیں وہ اپنی سمتوں کا خود فیصلہ نہیں کر پاتے۔

“قرۃ العین نے ایک فنکارانہ تخلیقی صلاحیت کو ماضی سے حال کی طرف سفر کرایا اور حال کو بھی ماضی میں گُم کر دیا۔”(١٦)

ناول گردش رنگ چمن کا فنی جائزہ بحوالہ کردار نگاری

عندلیب بانو کا کردار

عندلیب بانو اس ناول کا مرکزی کردار ہے یہ کردار انتہائی حساس ،باشعور اپنی زندگی سے ناخوش ہے

یہ ایسا کردار ہے جسے بغاوت کرنا ایسے پسند ہے وہ ہر وقت اپنے حالات سے لڑتی رہتی ہے ہمیشہ کامیاب کرنے کی کوشش کرتی ہے

لیکن کامیاب ہوتی جس کی وجہ سے وہ حساس بن گئی ہیں مسلمانوں اور ہندوستانیوں دانوں سے نفرت کرتی ہے اپنے معاشرے والوں کو بھی نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے

چونکہ عندلیب مغربی ممالک دیکھ چکی ہے وہ مغربی ممالک کے صفائی پسندی نفاست پسندی کی وہ قائل ہے وہ ایک فرانسیسی کی بیٹی ہے اس لیے وہ فرانسیسیوں کو پسند کرتی ہے۔

“ عندلیب فرانسیسیوں کو حوالہ دیتی ہے اس کا ماننا ہے کہ انسان کو واضح اور بالکل صاف بات کرنی چاہیے اور جو بھی ہم کہیں اس کا ثبوت ہوناچاہیے ”(١٧)
عندلیب ایسا کردار ہے جو ہر ایک سے ناراض اور بدگمان ہے وہ مسلمانوں کے خلاف ہے

کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنی عیش و عشرت کی بناء پر ترقی نہیں کر سکتے اورہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں

اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں عندلیب خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہے

وہ ایک قابل اور ہونہار عورت ہے لیکن طوائفانہ زندگی نے اسے آگے بڑھنے اور کچھ بن کر دکھانے کا موقع نہ دیا۔

عندلیب علمی ذوق رکھنے والی خاتون ہے وہ غلط بیانی کے سخت خلاف ہے وہ اپنی جھوٹی تعریف کو بھی پسند نہیں کرتی وہ ایک مصور ہے

لیکن اپنی تصویر وں کی نمائش نہیں کرتی ۔عندلیب کی ماں ہندوستانی ہے وہ اپنی ماں سے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ اسے طوائف بنانے کی ٹریننگ دے رہی ہے

جو عندلیب کو طوائف بننا پسند نہیں چونکہ عندلیب انگریزی سکول اور انگریز استادوں سے بچپن میں تعلیم حاصل کر چکی ہے اس لیے اس کے دل میں ہندوستانی قوم اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے نفرت حقارت کا رویہ پایا جاتا ہے ۔

“عندلیب بانو آزادی کے قائل ہیں وہ آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے وہ عورتوں کی غلامی و استحصال کے سخت خلاف ہے عندلیب بیگ اپنے معاشرے سے فرار چاہتی ہے

وہ اپنے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن حالات اسے اس ماحول سے نکلنے نہیں دیتے وہ بظاہر پُر سکون اور خاموش نظر آتی ہے حالات سے سمجھوتا کرتی نظر آتی ہے

لیکن اس خاموشی کے پیچھے بے چینی پریشانی کا ایک سیلاب موجزن ہے جو اسے بے چین کیے ہوئے ہے اور اس غم اور ناکا م ذندگی کو بھلانے کے لیے وہ شراب کا سہارا لیتی ہے”(١٨)

عنبرین بیگ

عنبرین بیگ نواب فاطمہ اور عندلیب بیگ سلسلہ طوائف کی آخری کڑی ہے اس کا تعلق طوائفانہ خاندان سے ہے عموماً وہ اس ماحول سے علیحدہ ہی رہی

لیکن وہ طوائفانہ زندگی سے سخت نفرت کرتی ہے اپنی ماں عندلیب کی طرح یہ بھی ناجائز اولاد ہے لیکن اس کی شناخت یا اصلیت اس کے لیے سوالیہ نشان ہے ؟

اس لیے عنبرین طوائفانہ زندگی سے نفرت کرنے لگتی ہے اور وہ ایک آزادانہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے عنبرین کو مسلم شناخت و مقام کی حسرت و آرزو ہے مخلوط النسل ہونے کا رنج ہے اور سماج اور اس میں رہنے والے افراد سے اسے نفرت سی ہو گئی تھی اس لیے وہ جنگل میں رہنا چاہتی ہے۔

عنبرین خود کو جنگلی بطخ ،چوہیا کے خطاب رہتی ہے وہ نفسیاتی و ذہنی انتشاروئ دباؤ کا شکار ہے

عنبرین ایک تعلیم یافتہ اور ہمدرد عورت ہیں مظلوموں کے ساتھ وہ ہمدردی سے پیش آتی ہے ۔عنبرین خود ایک ڈاکٹر ہے اور خدمت خلق کا جذبہ بھی اِس میں ہے اس لیے وہ منصور اور شاردا کے ساتھ

پارٹنر شپ پر ہسپتال کھولتی ہے تا کہ غریب لوگ بھی علاج کروا سکیں ۔عنبرین خود کو ایک مسلمان عبد الشکور کی بیٹی سمجھ رہی تھی اور اس کو اس پر فخر بھی تھا ل

یکن جب اس کو پتہ چلتا ہے کہ وہ عبد الشکور کی نہیں امبال پرشاد کی بیٹی ہے تو وہ بہت اُداس ہو جاتی ہے اور اس کے دل کو بہت بڑا صدمہ پہنچ جاتا ہے

اور وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کر پاتی اپنی شناخت کا مسئلہ اس کے ذہن اور زندگی پر اس طرح دھند بن کر چھا جاتا ہے کہ وہ سمجھ پاتی کہ وہ مس شکور حسن ہے یا امباپر شاد ۔

اسی مسئلے میں وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے۔
“اس کردار میں حوصلہ دیکھنے کو ملتا ہے گِر گِر کا سنبھلنا اس کی فطرت ہے وہ وقتی طور پر اپنا ذہنی توازن کھوتی ہے

لیکن جب ٹھیک ہوتی ہے تو اپنے ماضی کو تسلیم کر کے ایک نئے حوصلہ کے ساتھ کمر بستہ ہو جاتی ہے۔”(١٩)

منصور کا شغری

یہ ایک مخلص اور ہمدرد اور رحم دل کردار ہے اس کے دل میں لوگوں کے لیے ہمدردی ہے یہ رحم و کرم سے بھرا ہوا کردار تو ہے

لیکن وہ پیسہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور بہت امیر بننا چاہتا ہے کیونکہ بچپن میں اس نے غربت اور افلاس کی زندگی گزاری ۔

اس کی زندگی میں پیسے کی اہمیت کوئی غلط بات نہیں لگتی منصور چونکہ خود ڈاکٹری کے پیشے سے جُڑا ہوا ہے اس لیے اس کے دل میں رحم دلی اور ہمدردی پائی جاتی ہے ۔

منصور نے ماضی انتہائی غربت اور تنگدستی میں گزرا ہے تو جب امیر اور دولت مند لوگوں کو دیکھتا ہے جو خود سے دوسرے لوگوں کو کمتر اور حقیر مخلوق سمجھتے ہیں تو حیرت کا اظہار کرتا ہے

اور کہتے ہیں کہ اسے لوگ ہمارے معاشرے کا لیڈر ہیں بے حس ،نمائش پسند ،اقتدار پرست۔

اس کردار کے تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہےکہ اسے عام روش پسند نہیں وہ روش عام سے ہٹ کر چلنا پسند کرتا ہے یہ کردار وہ ذہنیت کا مالک ہے جب اسے امبرین کے ماضی کا پتا چلتا ہے تو اس سے شادی کرنے سے کتراتا ہے اور اس کو چھوڑنا چاہتا ہے

لیکن اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ لوگوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں لاشعوری تعصبات ہوتے ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہوتے ہیں اور انسانی جبلت میں گھر کر چکے ہوتے ہیں

اس لیے منصور بھی شاید امبرین کے ماضی کو قبول نہیں کر پاتا ۔

“ڈاکٹر منصور امبرین کے بیمار ہونے پر اسے علاج کے لیے مختلف ممالک لے کر جاتا اسے امبرین سے ہمدردی ہوتی ہے اس کا خیال رکھتی ہے

اور اس کا علاج کرواتی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گا لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا ”(٢٠)

دلنواز بانو بیگم

دلنواز بانو بیگم ایک المیہ کردار ہے جو مغلیہ تہذیبی اقدار کی نمائندگی کرتی ہے

اس کی بہن کم عمری میں ہی ماں باپ کے سایے سے محروم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے حالات اور بھی بُری طرح خراب ہو جاتے ہیں

ذہنی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے اور حالات کی مجبوری کی وجہ سے وہ طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے

لیکن اس کو احساس ہو تا ہے کہ وہ ایک مغل زادی ہے لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور ہے جب ایک نواب جس سے دلنواز بانو کی شادی طے ہے وہ اسے فتح محمد کی بھانجی سمجھتا ہے

تو اسے احساس ہو جاتا ہے کہ وہ نواب کو بتائے کہ وہ ایک مغل زادی ہے اور مغل خاندان سے ہی تعلق رکھتی ہے

لیکن اس سے قبل نواب کی موت ہوتی ہے تو دلنواز بیگم انتہائی پریشان ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے بارے میں نواب کو نہ بتا سکی اور وہ اسے طوائف ہی سمجھتے رہے ۔

“ایک حادثے میں اس کا چہرہ جل جاتا ہے اور وہ طوائف کے پیشے سے توبہ کر لیتی ہے اور اپنی تمام جائیداد اپنی بہن مہرو کے نام کر کے غربت سے زندگی گزارتی ہے

اور بعد میں پھر حج کو چلی جاتی ہے اور برے کاموں سے توبہ کر لیتی ہے اور غریبوں کی طرح زندگی بسر کرنے لگتی ہے ”(٢١)

نواب فاطمہ

یہ بھی دلنواز بانو کی طرح ایک المیہ کردار ہے جو حالات کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسی زندگی گزارتی ہے جس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پاتی لیکن وہ زندگی میں طوائف بننا چاہتی تھی

اور طوائف بننا اس کا اپنا انتخاب تھا اسی لیے وہ اگر اس حالات سے بیزار بھی ہے تو وہ کچھ کر نہیں سکتی اس نے انتہائی کم عمری میں ہی غربت و افلاس کی زندگی گزاری اس کے باپ ایک دولت مند انسان تھے

لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے دوست تمام دولت پر قابض ہو کر اس کی دولت پر عیش و عشرت کی زندگی گزارتی ہے جس کے ردِ عمل میں نواب فاطمہ بھی انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتی ہے

چاہے اس کے لیے اسے اپنی عزت نفس کا بھی سود ا کیوں نہ کرنا پڑے نواب فاطمہ کی تمام زندگی المیہ بن جاتی ہے اس نے اپنی زندگی میں بہت دکھ برداشت کیے جس سے وہ شادی کر کے گھر بسانہ چاہتی ہے

وہ بھی اس کو دھوکہ دے کر چلا جاتا ہے۔

“ یہ ایک ایسا کردا ر ہے جس نے زندگی میں رنج و الم اور آنکھوں میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہ دیکھا ۔”(٢٢)
مہرو:۔

مہرو دلنواز بانو کی بہن ہے جو حالات سے سمجھوتا کر کے اپنی موجودہ زندگی سے خوش ہے

یعنی اس پر جیسے بھی حالات گزرے انہوں نے برداشت کیے اب حالات جیسے بھی ہوں اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ آرام و آسائش کی زندگی گزارنا پسند کرتی ہے۔

غدر کے حادثے کا اثر اس کی زندگی پر نہیں ہو ا وہ اپنے خاندان کے بہتے ہوئے لمحات کو بھول گئی ہے اور آنے والے حالات خوش زندگی گزرتی ہے

وہ جس طرح کی زندگی گزارتی ہے وہ اس سے خوش اور مطمئن ہے۔

“ اس کے مزاج میں ایک قسم کی تلخی کا بھی احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے حالات کا زمہ دار زمانے کو ٹھہراتی ہے جس نے انھیں ایک طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ”(٢٣)

شہوار خانم نگار خانم

شہوار خانم اور نگار خانم دونوں بہنیں ہیں یہ دونوں ایسے منفی کردار ہیں ان دونوں بہنوں کو جھوٹ اور فریب کا ہُنر بہت اچھی طرح آتا ہے

کہ لوگ اس کے جھوٹ کو ہی سچ قرار دیتے ہیں لوگ اس کے جھوٹ کے جال میں پھنس جاتے ہیں انہوں نے جھوٹ کا ایک ایسا محل تعمیر کیا جو تِنکوں کے سہارے کھڑا ہے۔

یہ دونوں بہنیں خود کو علیٰ طبقہ کے امیر ریاست کی شہزادیاں خود کو کہلواتی ہیں نگار خانم ناول نگار ہے جو ہر دوسرے مہینے ناول لکھ کر رسم اجرا دھوم دھام سے کرواتی ہے

اور اپنی خاندانی شان و شوکت کی نمائش کے لیے ہزاروں روپیہ لوٹاتی ہے۔

شہوار خان کے شوق بالکل امیرانہ ہیں شوقیہ گڑیا بناتی ہے اور جھوٹ کے ہوائی قلعے بنانے میں اس کا ثانی نہیں یہ دونوں ایسے کردار ہیں کہ طوائفوں کا نام بھی اپنی زبان پر لانا نہیں چاہتیں۔

یہ دونوں بہنیں طوائفوں سے نفرت کرتی ہیں امبرین کا رشتہ اسی لیے نامنظور کرتی ہیں کہ وہ ایک طوائف کی بیٹی ہے۔

“یہ ایسے منفی کردار ہیں جو اپنے بڑے بھائی اور باپ کو پاگل قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے کر انھیں منشی اور اس کا بیٹا کہتے ہیں تا کہ لوگ ان کی دریا دلی سے متاثر ہوں اور انھیں وضع دار خاندانی لوگ سمجھیں ان کرداروں میں جہاں برائیاں نظر آتی ہیں

وہیں اچھائیاں بھی ملتی ہیں یہ دونوں بڑے بھائی کے پاگل ہونے کے بعد گھر کا خرچہ چلانے کے لیے خود محنت کرتی ہیں اور چھوٹے بھائیوں کو بھی پڑھاتی ہیں۔”(٢٤)

راجہ دلشاد علی آف دھان پور

راجہ دلشاد اس ناول کا ایک اہم کردار ہے یہ ایک لُٹی ہوئی ریاست کا نواب ہے

جو ہر قسم کی بُرائی میں مبتلا ہے ۔جھوٹ اور فریب اس کے اندر بھرا ہوا ہے اپنی جوانی عیش و آرام میں گُزارتا ہے

تاش کھیلنے کا ماہر ہے اس کے بل بوتے پر دولت کماتا ہے اس شخص میں ہر بُرائی نظر آتی ہے۔

شہوار اور نگار خانم جنہوں نے راجہ دلشاد کو انہوں نے اپنا غم زار بنایا تھا اور ہر غم اور ہر بات راجہ دلشاد سے شئیر کرتے تھے۔

ایک دن راجہ دلشاد ان کو بلیک میل کر کے ان سے فائدہ اُٹھانے کے ارادے سے ہندوستان واپس آتا ہے لیکن اچانک اس کی زندگی میں ایک انقلاب آتا ہے

کیونکہ راستے میں اس کی ملاقات ایک نوجوان پیر سے ہوتی ہے جو نہایت دین دار ار مخلص شخص ہوتا ہے

جس کی شخصیت کا اثر دلشاد علی پر انتہائی گہرا ہوتا ہے اور وہ اس جیسا بننا پسند کر لیتا ہے وہ اپنی پچھلی زندگی پر پیشمان ہوتا ہے

اور تمام برائیوں سے توبہ کر لیتا ہے اور اپنی تمام ناجائز دولت "نور ماڈریک "کے نام کر کے حج کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔

“ اگر نفسیات کی رُو سے اس کردار کا جائزہ لیا جائے تو کرداروں کے تمام بڑے تغیرات کی ابتداء جذبے ہی سے ہوتی ہے۔”(٢٥)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں