مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

عصمت چغتائی کے ناول ضدی کا تنقیدی جائزہ

عصمت چغتائی کے ناول ضدی کا تنقیدی جائزہ

(تحریر پروفیسر برکت علی)

عصمت چغتائی نے ناول نگاری کا آغاز ایک ناولٹ ” ضدی (۱۹۴۰ء) سے کیا۔ یہ ایک رومانی انداز کی کہانی ہے جس میں روایتی داستان محبت کو پیش کیا گیا ہے۔

ناولٹ کا ہیرو پورن ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ہیروئن آشا ایک غریب گھر کی لڑکی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: ناول ٹیڑی لکیر کا تنقیدی جائزہ

ان دونوں کی محبت پروان چڑھتی ہے۔ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔

کیونکہ امیری اور غریبی میں جو دیوار کھڑی ہے دونوں اس کو گرانے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور ان کے عشق و محبت کے قصے کا اختتام موت کے المیے پر ہوتا ہے۔

یہاں پر عصمت چغتائی نے حقیقت پسندی سے زیادہ رومانی عناصر سے کام لیا ہے۔ قمر رئیس اسکے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

"اگرچہ ضدی میں رومانی عناصر نے حقیقت نگاری کے معیار کو مجروح کیا ہے خصوصاً آخر میں جب ہیروئن آشا چتا سجا کر اور پورن کی لاش کو گود میں لے کر ستی ہو جاتی ہے۔

تو ان کا بلا خیر عشق ایک مثالی اور ماورائی حیثیت اختیار کر لیتا ہے تا ہم اس ایسے کی ذمہ دار متوسط طبقے اور مجہول خاندانی وقار ہی قرار پاتا ہے ۔ (۱۶)

ناولت ضدی ( ۱۹۴۰ء) چونکہ عصمت چتائی کا ناول نگاری میں ابتدائی تجربہ ہے اس لیے اس میں چند خامیوں کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

موضوع اور فن دونوں اعتبار سے یہ کوئی اہم ادبی کارنامہ نہیں ہے۔ اس ناول کو جس چیز نے دلچسپ بنایا ہے وہ پورن کا کردار ہے یا پھر عصمت کا مخصوص طرز بیان۔

پورن ابتدا میں ایک ہنس مکھ اور ملنسار لڑکے کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اس کا کام ہی خود ہنسنا اور دوسروں کو ہنسانا ہے۔

لیکن آشا ( اس کی محبوبہ ) کے چلے جانے نے کے بعد اس کی ساری خوشیاں اداسیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اس کی ہنسی آنسوؤں میں بھیگ جاتی ہے۔

پورن کی زندگی کے اس غمزدہ پہلو کی عکاسی عصمت نے فنی عمدگی کے ساتھ کی ہے۔

پورن کے کردار کے ذریعہ عصمت نے امیر طبقے کی کھوکھلی زندگی اور مصنوعی رکھ رکھاو پر طنز کیے ہیں۔

عصمت کے طنزیہ لب و لہجے نے ہی اس ناول کو کئی حد تک دلچسپ بنایا ہے۔ جہاں تک نسوانی کردار ” آشا کا تعلق ہے اس میں کوئی خاص بات یا نیا پن نظر نہیں آتا ہے۔

وہ ایک روایتی دوشیزہ کی صورت میں ابھرتی ہے جو محبت تو کرتی ہے لیکن امیری و غریبی کی جنگ کو جیت نہیں پاتی ہے ۔

وہ اپنے محبوب کو بے حد چاہتی ہے اور آخر میں اس کے ساتھ ستی ہو جاتی ہے۔

بشکریہ: مقالہ اردو ناول میں خواتین کا حصہ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں