اردو افسانے کا تعارف / An Introduction to Urdu Short Story
تحریر از: سعیدہ
موضوعات کی فہرست
انسان کی دلچسپیوں اور لگاؤ کا محور ہمیشہ سے کہانی سننا اور سنانا رہا ہے۔ زندگی کے اسی سفر میں تھکے ہارے انسان کو اپنے سارے دن کی تھکن دور کرنے کے لئے ایسے مشغلے کی ضرورت تھی جو اس کے فطری احساس برتری کو بھی تسکین دے سکے اور اس پر ایسی کیفیت طاری کرے کہ اسی ماحول میں حقائق کی سختیاں اور تلخیاں اسے نہ ستائیں ۔
انسان نے جنگل و بیابان سے نکل کر لہلاتے کھیتوں سے اپنا رشتہ جوڑا ۔ اس کے ساتھ اس کے جسم کو راحت و آسائش میں زیادہ لطف محسوس ہونے لگا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے کارناموں اور روداد کو کہانیوں میں بیان کر کے خوش ہوتا ہے۔ کہانی دلچسپی کا ایک مشغلہ ہے۔ کہانی انسان کے کارناموں کی روداد ہے۔ کہانی انسان کی احساس برتری اور تسکین کا ذریعہ ہے۔ کہانی حقائق کی بنیاد سے دور تخیل، تصور اور رومان کی ایک جہانِ تازہ تصویر ہے۔ کہانی کا یہی تصور ہماری داستان کا بنیادی تصور ہے۔
کہانی دوسرے فنون کی طرح یا ادب کی دوسری اصناف کی طرح ایک ایسا فن ہے جو بہت سے اجزاء سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ان اجزاء میں ہر ایک کی اپنی حیثیت اور اہمیت ہے۔کہانی کے ارتقاء کے مختلف مراحل چلنے لگے یہاں تک کہ اس میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔ پھر اٹھارویں صدی کے نصف میں داستانوں کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔کہانی میں جس چیز کو لازم قرار دیا گیا ہے وہ سسپنس ہے لیکن داستان میں داستان گو کے پاس دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور بھی بہت سے وسیلے ہوتے ہیں۔ داستان میں رنگین، حسین و جمیل اور پرشکوہ دنیا کی تشکیل و تعمیر داستان گو کے فن کی روایت کا حصہ ہے۔ وہ اس فن سے قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔ داستان میں مافوق الفطرت عناصر کے ساتھ تخیل و و تصور ہے جو کہ قاری کے لئے لطف مہیا کرتا ہے۔ داستان کے متعلق رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
"کہنے کی چیز کو کہانی کہتے ہیں ۔ قصہ کے معنی بھی کہنا اور بیان کرنے کے ہیں۔ داستان کہانی کی سب سے اولین اور قدیم قسم ہے۔ داستان وہ قصہ کہانی ہے جس کی بنیاد تخیل، رومان اور پڑھنے سے زیادہ کہنے اور سننے کی چیز ہے”۔ (1)
یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کی افسانہ نگاری
داستان کہانی کی پرانی قسم ہے اور داستان ایک ایسا قصہ ہے جس میں داستان گو تخیل ، رومان اور مافوق الفطرت عناصر کی سیر کرواتا ہے۔ان عناصر کے بغیر داستان میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنا مشکل کام ہے۔ ابھی داستان کا عہد ختم ہوا تھا کہ کہانی کی ایک نئی صنف نے جنم لیا۔ اس طرح کہانی کی روایت نے دوسری طرف رُخ پھیرا اور یوں اٹھارویں صدی میں یورپ میں ناول کو جگہ ملی۔ انیسویں صدی میں یہ صنف ناول کے نام سے منظرِ عام پر آگئی۔ ناول میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جاتا ہے اور زندگی کے مختلف تجربات اور مشاہدات اور مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ناول کو داستان کی ترقی یافتہ شکل کہا جا سکتا ہے۔ناول کے بارے میں پروفیسر انور جمال یوں رقمطراز ہیں:
"ناول کے معنی نیا، انوکھا، عجیب اور نمایاں کے ہیں۔ ناول صنفِ نثر ہے اور داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ناول وہ نثری کہانی ہے جس میں کسی خاص مقصد کے تحت زندگی اور اس کے متعلقات کے حقیقتوں کی ترجمانی کی جائے۔ ناول مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد ہوئی اور اب اردو کے نثری ادب میں سب سے بڑا سرمایہ ناول کا ہے۔ ناول داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے”۔ (2)
جوں جوں وقت گزرتا گیا کہانی کے ارتقاء میں ترقی ہوتی گئی۔ انسان خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آگیا اور اس طرح داستان کے بعد ناول نے جگہ لی اور ناول کے بعد زمانہ بدلا تو لوگوں کے مزاج بھی بدلے ۔ اسی طرح ناول کی جگہ ایسی کہانی آئے جو کم وقت میں انسان کی دلچسپی کے سارے تقاضے پورے کرے۔اس طرح افسانہ وجود میں آیا اور یوں افسانے نے بھی آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کیں۔
ہر صنف جو ادب میں متعارف ہوتی ہے تو اس کی مختلف زاویوں سے تعریفیں کی جاتی ہیں۔ پھر جوں جوں وہ صنف اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی ہے اس میں نئے تجربات اور مشاہدات ہوتے رہتے ہیں اور پھر اسے ادبی سطح پر مقبولیت کا درجہ مل جاتا ہے۔ افسانہ ایک ایسی صنف ہے جو ناول کے مقابلے میں کم ضمانت رکھتی ہے اور چند باتوں کے ساتھ وحدت و تاثر کا اظہار کرتی ہے۔ افسانہ میں واقعات زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ نئے دور کی پیداوار ہے۔ افسانے کو دوسری نثری اصناف کی بدولت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ مختصر افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو کو پیش کرتا ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
"ہر وہ افسانہ جو مختصر ہو، مختصر افسانہ نہیں ہے بلکہ مختصر افسانہ وہ صنف ہے جس کے فن کی اپنی ایک دنیا ہے اور اس دنیا کے اپنے اصول ہیں، اپنی قدریں ہیں، اپنے معیار ہیں، اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ مختصر افسانہ اپنے اصولوں ، قدروں اور معیاروں سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ انہی سے عبارت ہے”۔ (3)
افسانہ وہ صنف ہے جس کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے افسانہ نگار ایسی کہانی تخلیق کرتا ہے جو فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس افراتفری کے عالم میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں رہا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مختصر افسانے کی بنیاد رکھی گئی تاکہ انسان کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی کہانی تخلیق کی جائے جس سے اس کو ذہنی تسکین حاصل ہو۔ افسانہ ایک تخلیقی عمل ہے اور اس میں جمالیاتی تجربات بھی شامل ہیں جو انسان کو معنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ خوشی اور تسکین دیتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی افسانے کے مخصوص تخلیقی عمل کے ضمن میں یوں رقمطراز ہیں:
"افسانہ ایک مخصوص تخلیقی عمل ہونے کے باوصف ایک جمالیاتی تجربہ aesthetic experienceبھی ہےجو ہمیں معنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ فرحت و انبساط سے بھی مالا مال کرتا ہے”۔ (4)
اسی بنا پر افسانے کا تخلیقی عمل اپنی جگہ لیکن اس میں جمالیاتی تجربے کا ہونا ضروری ہے۔ افسانے کی معنویت کو مزید اجاگر کرےیہ معنویت ہمیں فرحت و انبساط سے مالا مال کر کے افسانے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ افسانے کی بے شمار تعریفیں ہیں۔ نور اللغات میں افسانے کی تعریف کے بارے میں مولوی نو ر الحسن نیر کاکوروی لکھتے ہیں:
"افسانہ ایک داستان، قصہ، کہانی، سرگزشت ہے”۔ (5)
افسانہ داستان اور قصے کی شکل ہے۔ افسانہ زندگی کے ایک پہلو، کسی فرد کا ایک واقعہ اور ایک کہانی کو بیان کرتا ہے۔ اس کی کوئی ایک مخصوص وقتی کیفیت، کوئی ایک ذہنی الجھن افسانے کا موضوع بن سکتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی سے دلچسپی ہمیشہ سے انسان کا مشغلہ اور اس سے لگاؤ انسان کی ضرورت رہی ہے۔ کہانیاں انسان کے احساس برتری کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔ ان کہانیوں کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ وہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا ذریعہ بن سکیں۔ افسانہ بھی اسی کہانی کی ایک کڑی ہے۔
اردو افسانہ نگاری میں اشفاق احمد کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اشفاق احمد افسانہ نگاری کی روایت میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو افسانہ نگاری کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کو وجاہت بخشی ہے۔ ان کے افسانوں نے فکری و فنی عظمتوں کے نئے در وا کئے ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو اتنا سب کچھ دیا کہ ان کے احسانات کا وزن افسانہ نگاری کی روایت میں ہر سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔اشفاق احمد ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اردو زبان سے ٹوٹ کر محبت کی اور ایسے لوگ اب کم یاب ہیں۔ درج ذیل مقالے میں اشفاق احمد کے فکر و فن کے زاویوں کو بیان کیا جائے گا۔
اردو افسانے کے اجزائے ترکیبی
موضوع کا انتخاب
افسانہ نگار زندگی کے کسی ایک پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔اس کی توجہ کا مرکز و محور زندگی کا کوئی ایک گوشہ ہوتا ہے۔وہ اسی ایک پہلو پہ مختلف طریقوں سے بیان کر کے کہانی کو مکمل کرتا ہے۔لیکن یہ تمام حالات و واقعاتایک جمالیاتی توازن کے ساتھایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونے چاہیں تا کہ افسانے میں وحدت تاثر کی خوبی برقرار رہے۔ اگر افسانہ نگار افسانے میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی جھلک دکھانے میں اپنی توانائیاں صرف کرے گا اس سے افسانے جاذب توجہ ہونے کی بجائے نہ صرف اپنا وحدت تاثر کھو دے گا بلکہ پلاٹ کی کڑیاں کمزور ہو جائیں گی جس سے افسانہ کئی فنی خرابیوں کا مجموعہ بن جائے گا۔اشفاق احمد اپنے افسانے کے موضوی کا انتخاب کرتے وقت تمام حالات کو واقعات ایک خاص ترتیب کے ساتھ لڑی میں پروتے ہیں کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک خاص رخ کو اس انداز کے ساتھ مربوط انداز میں پیش کرتا ہے کہ افسانے میں وحدت تاثر کی فضا برقرار رہتی ہے۔
تمہید
افسانے کی تمہید میں جادو کا سا اثر ہونا چاہیے۔تا کہ قاری ان ابتدائی جملوں سے پورے افسانے کے بارے میں ایک گہرا تاثر قبول کرے اور پورا افسانہ پڑھنے کے لیے مضطرب ہو جائے۔بعض اوقات افسانے کا آغاز کہانی کے کسی آخری یا درمیانی واقعہ سے کیا جاتا ہے۔اس سے قاری میں تجسس کا جذبہ ابھرتا ہے۔کسی مؤثر کردار سے بھی کہانی کا آغاز جا سکتا ہے۔کسی دلچسپ اور پراثر مکالمے کو بھی افسانے کی تمہید بنایا جا سکتا ہے۔ المختصرً! افسانے کی تمہید ایسی جاندار ہونی چاہیے کہ جسے پڑھ کر قاری افسانے کو مکمل پڑھے بغیر نہ رہ سکے۔اشفاق حمد کے بیشتر افسانے آغاز سے اتنے سحر خیز ہوتے ہیں کہ قاری پہلے پیراگارف سے ہی افسانے کی فضا میں کھو جاتا ہے اور اختتام تک افسانے سے جرا رہتا ہے۔ اشفاق احمد کی یہی خوبی اسے دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز ٹھہراتی ہے کہ وہ افسانے کی ابتدا میں تاثر پیش کرتے ہیں اس سے قاری پہ گہرا ثر پڑتا ہے اور وہ افسانہ مکمل پرھنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔اور افسانہ مکمل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
پلاٹ
مربوط واقعات کا وہ سلسلہ جو کسی داستان یا ناول میں پایا جاتا ہے پلاٹ کہلاتا ہے۔ کسی بھی کہانی کے واقعات کو یوں ترتیب دینا کہ وہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہو پلاٹ ہے۔ پلاٹ کے حوالے سے ابو الاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:
"پلاٹ واقعات و افعال کا ایک سلسلہ ہے جو ایک خاص مقام سے آغاز پاتا ہے اور منطقی طور پر مربوط واقعات کے تسلسل کے سہارے ایک منطقی اور فطری انجام کو پہنچتا ہے”۔(6)
کہانی میں بیان کیے گئے واقعات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ پیش کرنا پلاٹ کہلاتا ہے۔ افسانے میں پلاٹ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر پلاٹ مضبوط نہ ہو تو افسانے میں دلچسپی نہیں رہتی۔ چونکہ پلاٹ کہانی کو ترتیب دینے اور مربوط رکھنے کا نام ہے اس لئے بنیادی طور پر پلاٹ کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے کڑیاں مہیا کرتا ہے۔ افسانے کا زیادہ تر انحصار پلاٹ پر ہی ہوتا ہے۔ اگر پلاٹ ٹھیک اور مربوط ہوگا تو افسانہ کامیاب ہوگا۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لئے ابتدائی طور پر پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اس طرح اافسانے کی بنیاد پلاٹ پر ہے۔ جس افسانے میں کہانی اور کردار حقیقی زندگی کے ہوں اور ان کرداروں کو تمام معاشرتی آسانیوں اور مشکلات سمیت سامنے لایا جائے، دوسرے لفظوں میں پلاٹ کہانی کی ترتیب کا نام ہے۔ کسی بھی کہانی کی بنیاد اسی پلاٹ پر ہوتی ہے۔ کہانی کا پلاٹ جتنا مضبوط ہوگا کہانی اتنی ہی دلچسپ ہوگی۔اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کی ایک خوبی ان کے پلاٹ ہیں جن کو تیار کرتے وقت وہ ایک ماہر کی طرح فن کی کڑیوں کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔ اشفاق احمد کے بیشتر افسانوں میں ایک ترتیب اور ربط ہوتا ہے۔ کہانی ایک تسلسل سے آگے بڑھتی ہے اور کہیں کوئی جھول یا الجھاؤ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی کہانیاں با آسانی قاری کی سمجھ میں آجا تی ہیں۔ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ معمولی سے پلاٹ پر اپنی کہانی کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن یہ معمولی واقعات بھی اپنے اندر گہرے تعلق پوشیدہ رکھتے ہیں جو کہانی کی تاثیر کو بڑھا دیتے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر جمیل جالبی نے پلاٹ کی وضاحت نہایت مختصر اور واضح انداز میں بیان کی:
"پلاٹ کو ایک مکمل وحدت کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس کے مختلف واقعات کی ترتیب ایسی ہونی چاہیے کہ اگر ان میں کسی ایک کو ذرا سا ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے یا خارج کر دیا جائے تو وحدت کا اثر بری طرح خراب ہوجائے کیونکہ اگر کسی چیز کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس مکمل چیز کا اصلی اور ضروری حصہ نہیں ہے”۔ (7)
اشفاق احمد کے افسانوں کے پلاٹ انتہائی مربوط ہوتے ہیں۔ انھوں نے پلاٹ کی بنت میں انتہائی ریاضت سے کام لیا ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کے پلاٹ کی ترتیب میں ایک ربط قائم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانے سادہ پلاٹ اور پُر تاثیر چھوٹی چھوٹی تفصیلوں کی مدد سے انجام کو پہنچتے ہیں۔ اشفاق احمد کے افسانوں کے پلاٹ پیچیدہ ہیں۔ جن میں واقعات باہم پیچیدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط دکھائی دیتے ہیں۔ اشفاق احمد کے ہاں ہر طرح کے پلاٹ بہترین ترتیب سے ہیں اور نہایت عمدہ ہیں۔
اسلوب
اسلوب کے معانی انگریزی میں اصطلاح "سٹائل” کے ہیں۔ دراصل لاطینی لفظ “Stilus”سے مشتق ہے جو اس نوکیلے "قلم” کا نام تھا جس سے گیلی یا نرم الواح پر کندہ کیا جاتا تھا۔ بعض محققین کے بموجب جب یہ یونانی لفظ “Stylas”سے ماخوذ ہے۔
اسلوب کے بارے میں اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا لیکن اس کی سادہ اور مختصر ترین تعریف کسی شاعر یا نثر نگار کا مخصوص اندازِ نگارش کی جا سکی ہے۔ اس لئے اسلوب اگر ایک طرف اچھے شاعر یا اچھے انشاء پرداز کی شہادت کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب بعض اوقات قلم کار کی شخصیت کا مظہر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اس طرح اسلوب کی بنت میں پانچ عناصر اہم ہوتے ہیں جن میں مصنف، ماحول، موضوع، مقصد اور مخاطب کار فرما ہوتے ہیں۔اسلوب تحریر کی وہ خوب صورتی ہے جس سے ادبی اظہار کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک جگہ سید عابد علی عابد اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
” ادب میں اندازِ بیاں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی ادب دوسری تمام تحریرات میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اندازِ بیاں، تکنیک، فارم، زبان و بیان کی تمام شکلوں پر حاوی ہے۔ اس کی ابتداء اس لمحے سے ہوتی ہے جب ہم کسی خاص شے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اندازِ بیاں کا دائرہ بہت وسیع ہے”۔ (8)
کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب خود انسان ہے۔ شخصی اسلوب خلوص اور سچائی کے سینے میں پیدا ہوتا ہے گویا اس کی تقلید ناممکن ہے۔ سید عبد اللہ نے اسے ذوق لکھا ہے:
” ذوق ایک مسلم کیفیت ہے اور اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسان میں یہ اس طرح موجود ہوتا ہے جس طرح خوشبو پھول میں بسی ہوتی ہے”۔ (9)
سید عابد علی عابد اسلوب کی تعریف اپنے انداز میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:
” اسلوب دراصل فکر و معانی اور بت و مورت، یا مافیہ و پیکر کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے لیکن انتقادی تصانیف میں اکثر و بیشتر کلمات کے معانی متعین نہیں ہوتے اور اسلوب کو محض اندازِ نگارش ، طرزِ بیان کہہ کر کلمے کی وہ تمام دلالتین ظاہر نہیں کی جا سکتیں جن کا اظہار مطلوب ہے”۔ (10)
ذوالفقار احمد تابش اسلوب کے متعلق کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:
” فن کار وژن، تجربہ اور کرفٹ وہ اجزا ہیں جو اعلیٰ اسلوب بناتے ہیں۔ کرافٹ میں وژن کے ساتھ اگر تجربہ کا جزو بھی شامل ہو تو ایک اعلیٰ اسلوب جنم لیتا ہے”۔ (11)
اسلوب افسانے کے فن کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگرچہ ضروری نہیں کہ ہر لکھنے والے کو اسلوب میسر آجائے، اسے دوسروں سے ممیز کر دے تاہم اسلوب کی ایک روایت ہر دور کے افسانے کی میراث ہوتی ہے جو ہر لکھنے والے کا زادِ راہ بنتی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد اسلوب کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
” اگر استعارے کی زبان میں بات کی جائے تو خدا ذات ہے اور کائنات اسلوب ۔یہاں میں نے اسلوب کو انکشافِ ذات اور اظہارِ ذات کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ گویا اسلوب ذات اور شخصیت کا اظہار ہے”۔ (12)
اسلوب کسی بھی شخصیت کے اظہار کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ اسلوب میں پوری شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ فطرت کے اعتبار سے کوئی حیرت انگیز چیز نہیں ہوتی۔ سقراط نے کہا تھا کہ انسان کلام سے پہچانا جاتا ہے۔ اسلوب شخصیت کا آئینہ اور عکس ہوتا ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کی نمایاں خصوصیات سادگی ہے۔ وہ مشکل بات کو اپنی فنکارانہ مہارت سے آسان اور رواں زبان میں بیان کرتے ہیں۔ وہ بے جا معنوی اور بھاری بھر کم الفاظ استعمال میں نہیں لاتے بلکہ ان کا انداز بالکل سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ وہ زبان و بیان کی شگفتگی اور خیالات کی نزاکت سے ایک ایسی تصویر مرتب کرتے ہیں کہ حقیقت اور افسانے کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ان کے افسانے اسلوبیاتی سطح پر بھی انفرادیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا اسلوب صاف اور سادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سہل ہے اور ان کے افکار و خیالات میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب اور اندازِ بیاں میں کوئی پر پیچ کیفیت نظر نہیں آتی۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اور سوچتے ہیں اسے صاف اور سادہ انداز میں ظاہر کر دیتے ہیں۔
ان کے خیالات میں ایک فطری روانی اور بہاؤ ان کی نمایاں ترین خصوصیات ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں تکلف سے کام نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب آرائش و زیبائش کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ سجا سجایا نہیں ہے لیکن اس میں ایک باقاعدگی ضرور ہے اور اس باقاعدگی اور خوش سلیقگی میں اس کا حسن ہے۔ اس حسن کا زور سادگی ہے اور اس سادگی میں ان کے ہاں ایک پرکاری نظر آتی ہے۔
اختصار
افسانے کی بنیادی صفت اس کا اختصار ہے۔ بعض ناقدین کے نزدیک مختصر افسانہ وہ ہوتا ہے جو آدھ گھنٹے میں آسانی سے پڑھا جا سکے۔ بعض کا خیال ہے کہ جو کہانی ایک ہی نشست میں پڑھی جائے اسے افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ افسانہ نگار پر وقت کی قدغن نہیں لگائی جا سکتی لیکن یہ بھی بجا ہے کہ افسانہ نگار کو افسانے میں غیر ضروری تفصیلات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بعض ناقدین افسانے کو غزل کے مشابہ قرار دیتے ہیں جو بظاہر تو مختصر مگر معنوی اعتبار سے جامعیت کا عنصر لئے ہوتی ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کی دوسری اہم خصوصیت اختصار ہے۔ انھوں نے افسانے کی بنت میں اختصار کا خاص خیال رکھا ہے۔ انھوں نے مختصر الفاظ میں اپنے نظریات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں میں بے جا تفصیل نہیں ہے اور نہ ہی وہ افسانے کے موضوع کی حدود سے باہر نکلے ہیں۔ ان کے افسانوں میں چھوٹے چھوٹے جملے بڑی کام کی بات سمجھا جاتے ہیں۔
اشفاق احمد اپنے اختصار کے باعث بڑی سی بڑی بات کو بہت ہی باریک انداز میں مزاح کے پہلو میں ڈھال کر بیان کر دیتے ہیں۔ بظاہر نہ تو وہ خود ہنستے ہیں اور نہ دوسروں کو ہنسانے کی دانستہ کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ چپ چاپ احساس کو اس طرح چھیڑ دیتے ہیں ہنسنے اور کبھی کبھار قہقے لگانےپر مجبور ہو جاتا ہے۔
مکالمہ نگاری
افسانے کے مکالموں کا لب ولہجہ سادہ، فطری ،برجستہ اور شگفتہ ہونا چاہیے۔خوشی، غم ، حیرت یا غیض وغضب کے مواقعوں پر لہجے کے آہنگ میں موقع و محل کے مطابق فرق کرنا لازم ہے۔
مکالمہ نگاری کی تعریف ابو الاعجاز حفیظ صدیقی یوں کرتے ہیں:
دو یا دو سے زیادہ اشخاص کی گفتگو کو انہی کے الفاظ میں نقل کرنا ادبیات کی اصطلاح میں مکالمہ کہلاتا ہے”۔ (13)
مکالمہ ڈرامہ کے علاوہ داستان، ناول اورافسانہ میں خاص اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی کہانی مکالموں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ناول کا دائرہ ویسے بھی بہت وسیع ہوتا ہے اور اس کی تکمیل میں مکالمہ لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اچھا مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں مصنوعی پن محسوس نہ ہواور وہ جذبات کی فطری عکاسی کرے۔ اختصار، جذبات و احساسات اور اخلاقی اقدار کا آئینہ دار نہ ہو۔کہانی میں اگر مکالمہ موقع محل اور کرداروں کی حقیقت کے مطابق ترتیب دئیے ہوئے ہوں تو کہانی انتہائی خوبصورت اور فنی اصولوں سے آراستہ و پیراستہ معلوم ہوتی ہے اور انتہائی منطقی انداز سے تکمیل کی طرف بڑھتی ہے۔
اشفاق احمد کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے سماجی حقیقت نگاری کے لئے افسانے میں مکالمہ کی صنف کا خوب صورتی سے استعمال کیا ہے۔ اشفاق احمد نے افسانوں میں مکالمہ نگاری سے خوب کام لیا ہے۔ ان کے بیانیہ اور کرداروں کے مکالمے نہایت دلچسپ اور بے ساختہ ہیں۔ ان کو جذبات نگاری پر بھی عبور حاصل ہے۔ وہ کرداروں کے جذبات اور احساسات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حقیقت کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔ ان کے کردار اپنے علم، تجربے اور مرتبے کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔
منظر کشی
تصویر نگاری یعنی الفاظ کے زور سے ماحول کا ایسا نقشہ کھینچنا کہ جس سے وہ منظر آنکھوں کے سامنے آجائے۔ منظر کشی کے حوالے سے پروفیسر انور جمال لکھتے ہیں:
"قلم میں الفاظ کے ذریعے تصویر بنانا کہ منظر آنکھوں کے سامنے اُتر جائے، منظر آنکھوں کے سامنے آجائے”۔(14)
اشفاق احمد کے افسانوں میں خوبصورت کیفیات اور تصوراتی مناظر ابتدا سے لے کر آخر تک جاری و ساری رہتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں نہ صرف واقعات بلکہ اس میں موجود ماحول اور باہر کی فضا سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ قاری کو مکمل طور پر اُس ماحول میں قید کر لیتے ہیں کہ وہ نہ صرف مناظر فطرت کو بیان کرتے ہیں بلکہ کمرے، سفر، فضا، خوبصورت مناظر، گھر اور ریستوران کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں مناظر کی ایسی انتہائی دلفریب انداز میں عکاسی کی ہے منظر نگاری میں چاند کی رونق ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ محبت کی اٹکلیاں اور رعنائیوں کا ذکر ہے۔ حسن کے جلوے ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ ساری فضا معطر اور خوشگوار ہے۔ بے جان جسموں میں بھی محبت کا کون گردش کر رہا ہے۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتی اور محبت کے گیت گاتی ثروت جل پری کا منظر پیش کرتی محسوس ہوتی ہے۔
اشفاق احمد منظر نگاری کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ افسانے کی فضا پرلطف ہو جاتی ہے۔ حالات و واقعات کی لفظی تصویریں کھینچنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ رنگ و روغن کی تصویروں میں شائد ہی وہ دکشی و تاثیر ہو جو ان کے لفظی پیکروں میں موجود ہوتی ہے۔
کردار نگاری
ہر کہانی میں کردار کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ چونکہ کردار معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں اس لئے کہانی میں کرداروں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ کردار بالکل جامع اور بے لچک نہیں ہونے چاہیں بلکہ ضروری ہے کہ کرداروں کی بول چال، حرکات و سکنات، عادات و اطوار زندہ لوگوں جیسی ہوں۔ معاشرے کے فعال کردار افراد محسوس ہوتے ہوں۔ ایسے کردار افسانے میں توانائی اور توازن پیدا کر دیتے ہیں جس سے افسانہ بے رنگی اور بدمزگی کا شکار نہیں ہوتا۔
افسانے کا کردار عشق و محبت، ہجر و وصال کی باتوں کے ساتھ ساتھ ان مسئلوں سے بھی دوچار ہوتا ہے جن کو حل کرنے کی جستجو میں صدیاں لمحوں میں بیت جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کردار شعوری سطح پر حرکات و سکنات، عمل و رد عمل اور عقائد کے ساتھ ساتھ لا شعوری محسوسات و واقعات کی غیر متوقع نمود سے اپنی پیچیدگی کا احساس دلاتے ہیں۔
انسان کی عملی، ذہنی یا نفسیاتی زندگی میں جو باہمی ربط ہے اشفاق احمد کے افسانوں میں اس کی کئی شکلیں نظر آتی ہیں۔ اشفاق احمد نے کرداروں کے ماحول اور مزاح کے رشتے کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے بہت زیادہ محسوس کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں خارجی ماحول اور کردار کی داخلی کیفیتوں کے مشاہدے کا جو تیکھا پن موجود ہے اس سے ایک بار پھر منشی پریم چند کے افسانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جن میں حقیقت اور تخیل کا امتزاج شاعرانہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظرافت کی دھڑکنیں ملتی ہیں۔
اختتام
افسانے کے اختتام پر کشمکش اور تصادم کی فضا آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور افسانہ قاری کے ذہن پر کوئی طربیہ ، حزنیہ یا حیران کن اضطرابی کیفیت چھوڑ کر اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔افسانے کا انجام فطری انداز میں ہونا چاہیے کہ قاری یہ محسوس کرے کہ کہانی کا انجام بر محل اور مناسب ہوا ہے اس سے اچھا اختتام اور انجام اس کے علاوہ ممکن نہیں تھا۔
اشفاق احمد کہانی کو بڑے سلیقے اور ہنر مندی سے پیش کرنے میں ماہر ہیں۔ وہ ایک ایک لفظ جوڑ کر کہانی کا ایسا تار پود تیار کرنے کے بعد افسانے کا اختتام کرتے وقت فرصت کے ساتھ تاثر کی خوشبو بڑی مہارت اور بے تکلفی کے ساتھ بکھیر دیتے ہیں کہ پڑھنے والا حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اردو افسانہ:آغازو ارتقاء
اردو افسانے کا آغاز راشدی الخیری جیسے بڑے افسانہ نگاروں سے ہوتا ہے لیکن فنی لحاظ سے پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے افسانہ کے اندر بہت بڑی تبدیلی کیی اور افسانے کو مضبوط بنایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے افسانے کے اندر حقیقت نگاری کی روایت قائم رکھی۔ ڈاکٹر سنبل نگار افسانے کی روایت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
"راشد الخیر ی اور سجاد حیدر یلدرم کو بعض اصحاب نے اردو کے اولین افسانہ نگار کہا ہے لیکن فنی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار قرار پاتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی ۔دیہات کی زندگی اور دیہات کے مسائل کو افسانہ میں جگہ دی۔ حقیقت نگاری کی روایت قائم کی اور سیدھی سادی زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا”۔(15)
اردو کے پہلے افسانہ نگار پریم چند نے افسانے کی روایت کو آگے بڑھایا اور افسانے میں ان موضوعات کو شامل کیا جو حقیقت کے قریب تھے۔ جیسے دیہات کے مسائل اور وہاں کی سیدھی سادی زندگی ۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔
افسانہ نگاری کی ابتدا ایک زمانے میں شروع ہوئی۔ پریم چند کا جو پہلا افسانہ ملا وہ ۱۹۰۷ء کا لکھا ہوا ہے۔ اور اس کا عنوان "دنیا کا سب سے انمول رتن ” ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ” سوز وطن ” حکومت وقت نے بغاوت کے الزام میں جلا ڈالا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعوں میں "پریم بتیسی” اور ” پریم پچیسی” اہم ہیں۔ ان میں پریم چند موضوع اور فن کے اعتبار سے آگے بڑھتے ہیں۔ ان میں اصلاحی اور معاشرتی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے ہندؤں کے سماجی مسائل کو پیش کیا۔ ۱۹۱۹ء کے بعد ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری اپنی پوری شدت سے نظر آتی ہے۔ انھوں نے تقریباً ڈھائی سو افسانے لکھے جو سب کے سب فنی لحاظ سے مربوط اور متنوع ہیں۔ پریم چند کے افسانہ نگاری کے حوالے سے مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:
"ابتداء سے ہی پریم چند اپنے دیگر معاصرین سے بہتر افسانہ نگار تھے۔ زبان و بیان کے حوالے سے پریم چند سب سے آگے ہیں۔ داستان سے جڑت پریم چند کے افسانوں کا خاصہ اور قصہ گوئی کا بیانیہ چودھری محمد علی اور حسن نظامی کے ہاں ملتا ہےاور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ آگے چل کر پریم چند نے اپنے بہتر وژن کے سبب دیگر قریبی معاصرین پر واضح برتری حاصل کر لی”۔(16)
پریم چند نے جو بھی لکھا خوب لکھا ۔ اس طرح لکھا کہ قومی زندگی میں اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ کے ساتھ سجاد حیدر یلدرم اور دوسرے افسانہ نگار بھی شامل ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے ساتھ افسانے کے اس دوسرے دور میں جو افسانہ نگار ہمیں نظر آتے ہیں اُن پر سجاد حیدر یلدرم کی افسانہ نگاری کے اثرات واضح ہیں۔ سید وقار عظیم افسانے کی روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
"افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں سجاد حیدر کے طرزِ فکر اور اندازِ تخیل کا عکس ہمیں مختلف شکلوں میں تین افسانہ نگاروں کے یہاں نظر آتا ہے۔ نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری اور حجاب امتیاز علی۔ ان تینوں افسانہ نگاروں کے افسانوں کی دلکشی کا مرکز محبت، رومان اور عورت ہے”۔ (17)
سجاد حیدر یلدرم سے متاثر ہو کر جن لوگوں نے لکھا ان میں نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری اور حجاب امتیاز علی جیسے افسانہ نگار شامل ہیں جن کے افسانوں میں ہمیں رومانویت نظر آتی ہے۔ سجاد حیدر یلدرم بنیادی طور پر رومانوی افسانہ نگار ہیں۔ ان کے ہاں شدت جذبات اور تخیل ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں مرد اور عورت کی محبت کی تصویر کشی کی ہے۔ان کی افسانہ نگاری سے متاثر ہو کر بہت سے لکھنے والوں نے اس روایت جو آگے بڑھایا جو کہ رومانوی افسانہ نگار ہیں۔
پریم چند کے بعد جو بھی لکھنے والا آیا اُس نے اپنی کہانیوں کا مواد زندگی سے حاصل کیا اور کسی نہ کسی طرح وہ پریم چند سے ضرور متاثر ہوا۔ پریم چند کے افسانوں میں ہمیں زندگی کے دل کی ہلکی پھلکی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے جو تیز تر ہوتی جاتی ہے تو "آشیاں برباد ” جیسی کہانیوں کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ پریم چند نے سیدھے سادھے بیانیہ انداز میں افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں میں "آخری میلہ”، "شکوہ”، "شکایت”،” نوک جھونک ” اہم ہیں۔
۱۹۳۶ء کے بعد ہمارا افسانہ نگاروں کی ایک نئی پود سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں چند ایسے نام شامل ہیں جنھوں نے بہت جلد ادب میں اپنی جگہ بنائی ۔ مثلاً کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، اختر حسین رائے پوری، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، سعادت حسن منٹو اور احمد علی وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے کے مطابق:
"”کرشن چندر کے زیرِ اثر ہمارے افسانوں میں رومانیت ایک گہری تہہ کی طرح چھا گئی ہے۔ اس سے قبل بھی یلدرم، حجاب امتیاز علی، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری نے اردو افسانے کو ایک ماورائی فضا میں محدود کر دیا تھا۔ ان کے کردار جذباتی ہیں۔ وہ ذرا سے واقعے پر ابل پڑتے ہیں اور فلسفیانہ تقریریں کرتے ہیں۔ وہ چلنے پھرنے اور محبت کرنے سے زیادہ سوچنے کے عادی ہیں۔رومانیت کا اثر جدید افسانے پر اسی وارثت کے ساتھ آیا ہے”۔ (18)
کرشن چندر سے پہلے لکھنے والوں نے اردو افسانے کو محدود حد تک سوچا۔ ان کے کردار جذباتی تھے۔ وہ حسن کی آنکھ سے ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کرشن چندر اور ان سے پہلے لکھنے والے خیال پرستی اور رومانیت کی منزلیں طے کر کے ترقی پسندی تک پہنچے۔ ان لکھنے والوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنے مزاج اور شخصیت کی چھاپ اپنے افسانوں پر عیاں کرتے گئے۔ اندازِ فکر، طرزِ تخیل اور خیالات و احساسات کو اپنے افسانوں میں داخل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلوب اور فن کے نئے نئے تجربے بھی کئے۔ مختصر افسانے کو مزید وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔ ۱۹۴۷ء تک جن افسانہ نویسوں نے اپنے افسانے کے فن کو بلند کیا علی عباس حسینی، کوثر چاند پوری اور اعظم کرلوی جیسے بزرگ بھی ہیں اور بیدی کرشن چندر ، احمد علی، منٹو، رشید جہاں، اختر انصاری، سہیل عظیم آبادی، ممتاز مفتی، آغا بابر، ابراہیم جلیس، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح، سجاد ظہیر، بلونت سنگھ، غلام عباس، انتظار حسین، شوکت صدیقی، شفیق الرحمٰن، حسن عسکری، احمد ندیم قاسمی اور نئے موضوعات کی تلاش میں افسانہ نگاروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کی۔ رشید جہاں کی رفتار سست ہوگی لیکن عصمت چغتائی ، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور اور رضیہ فصیح کی روحوں میں چراغ جلا دئے۔ اس دور میں افسانے کی تکنیک کے حوالے سے جو نام ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، احمد ندیم قاسمی اور قراۃ العین حیدر شامل ہیں۔ اس ضمن میں غلام ثقلین نقوی لکھتے ہیں:
"تکنیک کے لحاظ سے جدید افسانہ بہت ترقی کر گیا ہے۔ تکنیک کے نئے تجربے ہوتے ہیں۔ پرانے لکھنے والوں نے بھی افسانے کو تکنیکی ارتقاء بخشا ہے۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، قراۃ العین حیدر اور دوسرے افسانہ نگاروں کے جو تقسیم کے بعد صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئے تکنیکی لحاظ سے ان کے پہلے افسانوں سے کئی قدم آگے ہیں۔ ان میں جذبات کا جوش کم اور داخلی آہنگ زیادہ ابھرا ہوا ہے”۔(19)
کرشن چند رنے اردو افسانے کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کرایا۔ انھیں اپنی زندگی ہی میں لازوال شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم افسانہ نگاروں کو نصیب ہوتی ہے۔کرشن چندر کی افسانہ نگاری کا آغاز اس زمانے میں ہوا جب دنیا ایک اقتصادی بحران سے گزر رہی تھی۔ ہر طرف فسادات، تقسیم ملک کے مسائل، قحط یہ سب تھا۔ انھوں نے یہ سب بہت قریب سے دیکھا اور اسی کا اثر بھی قبول کیا۔ ۱۹۴۹ء میں سیاسی تبدیلیوں کی حمایت میں عورتوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر افسانہ "برہمپترا” لکھا۔ اس میں مزدوروں کے مسائل بیان کئے۔ جس کی وجہ سے ملوں میں ہڑتال ہوئی۔ سرکار نے مزدوروں پر گولی چلائی۔ کرشن چندر نے افسانہ ” پھول سُرخ ہیں” لکھ کر اس حادثے کو یادگار بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرشن چندر ایک حقیقت پسند افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کے دیگر افسانوں میں "کالا سورج” ، "بالکونی”، "ہم وحشی ہیں”، ” دل کا چراغ”، "مہا لکشمی کا پل”، "ان داتا”، "پھانسی کے سائے”، "تھالی کا بینگن” اور "پشاور ایسپریس” وغیرہ شامل ہیں۔
اردو میں جہاں مردوں نے افسانے لکھے وہاں خواتین بھی افسانہ نگاری کے میدان میں پیش پیش رہی ہیں۔ داستان سے کہانی اور کہانی سے افسانے کا یہ سفر بہت طویل ہے۔ افسانے کی روایت میں مرد افسانہ نگاروں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ عورتوں نے افسانے کی روایت کو مزید آگے بڑھایا۔ حالانکہ اس دور میں عورتوں نے اتنا پڑھا بھی نہیں تھا ۔ سر سید احمد کی تحریک نے عورتوں کے اندر تعلیم کا شعور پیدا کیا تو "شریف بی بی” اور ” تہذیبِ نسواں” جیسے رسائل جاری ہوئے۔ بیسویں صدی میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کی ہندوستانی رسوم کو ترک کرنے کی تحریک شیخ عبد القادر، شیخ محمد اکرم اور مولانا راشد نے پیدا کی۔ ۱۹۰۸ء میں دہلی سے رسالہ "عصمت ” جاری ہوا ۔ اس رسالے میں مولانا راش الخیری نے متعدد ایسے مضامین اور افسانے لکھے جو خواتین کے فرضی ناموں سے شائع ہوئے۔ آہستہ آہستہ خواتین کے اندر بھی لکھنے کا شوق پیدا ہو۔
خواتین افسانہ نگاروں کے حوالے سے پہلا نام نذر سجاد کا ہے جو سجاد حیدر یلدرم کی بیگم تھی۔ جن خواتین نے کود اپنے قلم سے افسانے لکھے ان میں عباسی بیگم، نذر سجاد حیدر، خاتون اکرام، آمنہ الوحی، راحت بیگم اور شاہستہ اختر سہر وردی کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ سب ایسی خواتین تھیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کو موضوع بنا کر اصلاحی نقطۂ نظر سے افسانے لکھے۔ خاتون اکرام اللہ رسالہ "عصمت ” کی سب سے اہم افسانہ نگار تھیں۔ انھوں نے ۱۹۱۴ء تا ۱۹۲۴ء کے دوران متعدد افسانے لکھے جن میں سے "انقلابِ زمانہ”، "پیکرِ وفا” اور "بچھڑی بیٹی” کو بہت شہرت ملی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ "گلستان خاتون” کے نام سے شائع ہوا۔ وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں صاحبِ کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔
عباسی بیگم کے دو افسانے "گرفتار قفس” اور "دو شہزادیاں” ، نذر سجاد حیدر کے افسانے "نیرنگ زمانہ”، "حق بہ حق دار سید” "حورِ صحرائی” اور ” خونِ ارمان” ، آمنہ الوحی کے افسانے "شہیدِ وفا ” کو اس دور میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔لکھنؤ سے "نگار” ، لاہور سے "ہمایون”، "نیرنگِ خیال” ، "ادبی دنیا” اور دارالحکومت دہلی سے "ساقی ” جیسے رسالے جاری ہوئے۔ دنیا رومانی تحریک کے دور سے گزر رہی تھی۔ اس دور میں مغربی افسانوں کے تراجم اردو میں ہوئے اور نیاز فتح پوری، احمد اکبر آبادی، قاضی عبد الغفار اور مرزا ادیب نے اردو افسانے میں رومانی تحریک کو جنم دیا ۔ اس دور کی دو اہم خواتین افسانہ نگار ایک حجاب اسمٰعیل جو بعد میں حجاب امتیاز کے نام سے مشہور ہوئی جبکہ دوسری مسز عبد القادر ہیں جنھوں نے افسانے کو نیا انداز اور کروٹ دی۔ حجاب امتیاز کے افسانوں میں ہمیں رومانی فضا نظر آتی ہے۔ مسز عبد القادر کے "لاشوں کا شہر”، "صدائے جرس”، "وادی کوہ قاف” اور "راہبہ ” گروپ کی افسانہ نگار تھیں۔ انھوں نے رومانیت کو اپنے افسانوں میں شامل کیا اور روایتی اور اصلاحی افسانہ نگاری سے اجتناب کیا۔ انھوں نے افسانے کا رخ حقیقت نگاری کی طرف موڑا۔ ان کے بعد آنے والی خواتین افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، واجدہ تبسم، بانو قدسیہ، قراۃ العین حیدر اور عذرا اصغر کے نام اردو افسانہ کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ جنوں نے افسانوں میں جنس کے فطری جذبے کو پیش کر کے معاشرتی حقیقت نگاری کی کوشش کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عصمت کو یہاں پر بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ وہ مکالمہ فطری انداز میں لکھتی ہیں۔ خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور نے افسانے میں ترقی پسند نظرئے کو اہمیت دی۔ انھوں نے زندگی کو عورت کے نازک احساس اور کومل جذبات سے دیکھنے کی کوشش مکی۔ خدیجہ مستور نے ترقی پسند افسانے کے دور میں لکھنے کا آغاز کیا۔ اس لئے ان کے افسانوں پر اس تحریک کا گہرا اثر ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
"خدیجہ مستور کا طلوع ترقی پسند افسانے کے عروجی دور میں ہواتھا۔ اس تحریک کے زیرِ اثر انھوں نے معاشرتی تضادات اور عورت کی مظلومیت کو اپنے افسانوں میں خصوصی اہمیت دی۔ ‘بوچھاڑ’،’ چند روز’ اور ‘تھکے ہارے ‘ اور ‘ ٹھنڈا میٹھا پانی ‘ میں انھوں نے متوسط طبقے کے کرداروں کو ان کے مسائل سے ابھارا ہے”۔ (20)
خدیجہ مستور نے اپنے افسانوں میں بیواؤں، بڑی عمر کی عورتوں اور شادی شدہ عورتوں کے اندر جاگی آرزؤں کے بارے میں زیادہ لکھا۔ رفتہ رفتہ انھیں احساس ہوا کہ ٹھوس حقائق کا استعمال کیا جائے اور معاشرے میں ہونے والی خود فریب صورتوں کو گرفت میں لیا جائے۔ انھوں نے ‘راستہ ‘ اور ‘ٹھنڈا میٹھا پانی ‘ جیسے افسانے لکھے۔ انھوں نے پاکستان کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمرانوں کے رہن سہن اور گھریلو زندگی کو پیش کیا۔ اس حوالے سے”سودا ” اور "سرا” جیسے سماجی طنز کے افسانے لکھے۔ خدیجہ مستور کے بنیادی موضوعات طبقاتی تقسیم ، کرپشن، افسر شاہی اور منافقتوں کی بنیاد پر استوار معاشرے کی ناہمواریاں ہیں۔ ان کے افسانے "بھورے” میں جنس، محبت اور غربت کے حوالے شامل ہیں خدیجہ مستور کے ہاں کہانی کا فن بڑی خوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ وہ کہانی کو بہت سی جزئیات سمیٹ کر ایک دلچسپ اور نئے موڑ پر ختم کرتی ہیں۔خدیجہ مستور نے اپنے افسانوں میں عورت کی مظلومیت، معاشرتی تضاد اور متوسط طبقے کے لوگوں کے مسائل کو شامل کیا۔اس کے بعد ہاجرہ مسرورکا نام افسانے کے حوالے سے اہم ہے۔ ان کے افسانے عام زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان افسانوں میں دکھی لوگوں کے ایک ایک دکھ کو جس طرح اجاگر کیا گیا ہے وہ ہاجرہ مسرور کا ہی کمالِ فن ہے۔ "کنیز”، "بھاگ بھری ” ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
"ہاجرہ مسرور کے ہاں انسانی زندگی کی چہرہ دستیوں اور ماحول کے جبر کے خلاف احتجاج ملتا ہے جو کبھی چیخ بن جاتا ہے تو کبھی بغاوت۔ہاجرہ مسرور نے اردو ادب کو بے شمار افسانے دئے ہیں۔ افسانوں کے انجام چونکا دیتے ہیں۔ ان کا بنیادی موضوع گھر آنگن کی زندگی ہے جہاں بیوی کا نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی رشتہ ہے۔ افراد کے اندر جھانکنے کے عمل نے ان کے افسانہ میں کئی جہتیں پیدا کی ہیں”۔ (21)
ہاجرہ مسرور کے ہاں انسانی زندگی پر ہونے والے ظلم اور ان کے خلاف ہونے والا احتجاج نظر آتا ہے جن میں کبھی کبھی تو دکھی انسانیت کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے تو کبھی لوگ بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے عوام دوستی کی مثالی تصویریں پیش کی ہیں۔ ان کے افسانوں میں "امت مرحوم "، "بڑے انسان بنے بیٹھے ہو”، "تیسری منزل”، "پھر لہو کیا ہے” اور "چوری چھپے” جیسے افسانے شامل ہیں۔
غیر ترقی پسند افسانے کے حوالے سے سب سے پہلا نام قراۃ العین حیدر کا ہے۔ قراۃ العین کے افسانوں کے حوالے سے حمیر اشفاق لکھتی ہیں:
"قراۃ العین حیدر نے جدید افسانے کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ اس کا محرک فن کے ساتھ ان کی ذاتی دلچسپی ہے۔ انھوں نے اردو افسانے میں جدت کے نقش پیش کئے ہیں۔ جو جدید افسانے کی تاریخ میں ان کا نام بہت اوپر درج کراتے ہیں”۔ (22)
قراۃ العین حیدر فن ناول نگاری کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا ۔ ابتداء ہی سے ان کے افسانوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے ایسے افسانے تخلیق کئے جو جدید افسانے کی آبرو قرار دئے جا سکتے ہیں۔ رومانیت قراۃ العین حیدر کے ابتدائی افسانوں کی اساس ہے۔ ان کا ذہن رومانی ہے۔ یہ خصوصیت انھیں اپنے والد سے وراثت میں ملی ہے۔ قراۃ العین حیدر کے ہاں تخیل اور حقیقت کی آمیزش ملتی ہے۔ قراۃ العین حیدر کی زندگی میں رنگا رنگی اور رومانیت کے عناصر ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں جو ان کے افسانوں میں حاوی نظر آتے ہیں۔ قراۃ العین حیدر نے افسانے میں رومانیت کے رجحان کو آگے بڑھایا۔ ان کا جہان ڈرائنگ روم ، پائیں باغ اور کلب ہے کیونکہ قراۃ العین حیدر کا تعلق اعلیٰ طبقے سے رہا ہے۔ انھوں نے جاگیردرانہ ماحول میں پرورش پائی۔
جن خاندانوں سے ان کا مراسم رہا وہ بھی اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ انھیں اس طبقے کی زندگی کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ آزادی کے بعد انھوں نے جاگیرداری نظام اور زمینداروں کی تہذیب کو مٹتے دیکھا۔ اس صورت حال کی جھلکیاں ہمیں ان کے افسانوں میں بھی نظر آتی ہیں۔قراۃ العین حیدر کا وژن وسیع تھا۔ وہ ساری زندگی کو اپنے فن میں سمیٹ لینا چاہتی ہے چاہے وہ جاگیردارانہ نظام ہو یا اُن کا زوال، اونچے طبقے کے مسائل ہوں یا کمزور طبقے کی لاچارگی، یہ سب ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کے افسانے بہت پر کشش ہیں۔ انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل ہے۔ وہ افسانے کے موضوع کے حوالے سے زبان کا انتخاب کرتی ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں کے مجموعے "ستاروں سے آگے”، "ٹوٹے تارے”، "شیشے کے گھر”، "پت جھڑ کی آواز”، "فصلِ گل آئی یا اجل آئی”، "روشنی کی رفتار” اور "یاد کی ایک دھنک چلے” شامل ہیں۔ ممتاز شیرین نے "میگھ ملہار”، "کفارہ” اور ” اپنی نگریا ” جیسے افسانے لکھے۔ وہ اردو افسانے کی واحد افسانہ نگار ہیں جنھیں اردو افسانے کا فنی شعور اور تکنیک کے تجربات کا گہرا ادراک تھا۔ انھیں اردو افسانے کی پہلی تنقید نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ممتاز شیریں نے مثبت اندازِ فکر اختیار کیا ہے اور موضوع کو خالص پاکستانی نقطۂ نظر سے پیش کیا ہے۔ ممتاز شیریں اردو افسانے کا ایک ایسا نام ہے جس نے اپنے افسانوں میں واقعیت پسندی سے لے کر علامت نگاری تک کا سفر کیا اور اپنے تخلیقی تجربے کی بنا پر اردو افسانے کو نیا مقام دیا۔
ممتاز شیریں کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ” اپنی نگریا” بہت پہلے چھپا تھا۔ دوسرا آخری مجموعہ اردو افسانے کا دورِ زریں آزادی کے بعد چھٹی دہائی میں سامنے آتا ہے جب افسانے کے افق پر بانو قدسیہ، فرخندہ لودھی، واجدہ تبسم، الطاف فاطمہ، رشیدہ رضویہ، جمیلہ ہاشمی، شکیلہ رفیق، اختر جمال، سیدہ حنا، رضیہ فصیح احمد، خالدہ حسین اور فردوس حیدر جیسی افسانہ نگار طلوع ہوگئیں اور یوں افسانے کے فن پر خواتین نے غلبہ حاصل کر لیا۔بانو قدسیہ افسانہ نگاری کے حوالے سے بڑا نام ہے۔ ان کے نئے افسانوں میں سماجی حقیقت کو فکری انداز میں پیش کیا۔ بانو قدسیہ کے افسانے قاری کے ذہن کو نئی سوچ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے متعلق احمد پراچہ لکھتے ہیں:
"بانو قدسیہ فکشن پر قدرت رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہانی کی بنت میں معاشرتی حقائق اس خوبی اور خوبصورتی سے شامل کئے ہیں کہ زندگی کا کوئی راز پوشیدہ نہ رکھ سکی۔ چنانچہ بانو قدسیہ کے زندگی آمیز افسانے تجربے اور مشاہدے کی بھٹی سے نکل کر ایک بھر پور اور مکمل شکل میں قاری کے سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ موصوفہ اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیاتی تصویر کشی میں بہت کامیاب ہیں۔ بانوقدسیہ کے افسانوں کے مجموعے میں ‘امر بیل’، ‘بازگشت’، ‘کچھ اور نہیں’ کے علاوہ ‘قابلِ ذکر ‘ کو خاص پذیرائی ملی”۔ (23)
بانو قدسیہ نےکہانی میں معاشرتی حقائق کو اس خوبی سے پیش کیا کہ زندگی کا کوئی راز کبھی چھپ نہ سکا۔ جمیلہ ہاشمی نے کلچر کو زندہ رکھا۔ فرخندہ لودھی نے شہر کے لوگوں کے افسانے اکھٹے کئے۔ واجدہ تبسم نے جذبات کی عریاں ترجمانی کی جو شہر ممنوع میں پرورش پاتے ہیں۔ الطاف فاطمہ عورت کے معاشرے کی وہ آنکھ ہے جو ان کےدرد پر آنسو بہاتی ہے۔ انھوں نے لاچار اور بے بس عورتوں کے افسانے لکھے۔ خالدہ حسین نے علامتی اور تجرباتی افسانے لکھے۔ سائرہ ہاشمی نے گنہگار عورت کی افسانہ نگاری کی۔ حمیدہ معین نے بیرونِ ملک آباد ہونے والی خواتین کی کہانیاں لکھیں۔
بانو قدسیہ کے افسانے پاکستان کے حالیہ دور میں فروغ پانے والے جذبات و احساسات کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کا زیادہ تر مواد متوسط طبقے سے حاصل کیا۔ ان کے بیشتر افسانے مایوسیوں اور محرومیوں سے پر ہیں۔ بانو قدسیہ نے کرداری افسانے کم لکھے تاہم عورت ان کے افسانوں کا اہم موضوع رہی ہے۔ ان کا ہر افسانہ ہی نیا موضوع لئے ہوئے ہے۔ جیسے "کاغذی سے پیرہن”، "بازگشت”، "تنکے کا سہارا” اور "نیلو فر” وغیرہ۔ ان کے افسانوں میں معاشرتی مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ عورت اس مسئلے کو ابھارنے اور نکھارنے کا وسیلہ ہے۔ بانو قدسیہ نے گھریلو عورت کو بھی اپنے افسانوں میں شامل کیا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کے ساتھ جو ظلم اور نا انصافیاں ہوئیں انھیں دور کرنے کے لئے خواتین افسانہ نگاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور ان خواتین افسانہ نگاروں نے زندگی کے ان واقعات کو سامنے لایا جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے۔
۱۹۴۰ء کی دہائی کے بعد افسانہ ایک نئی فضا لے کر آیا لیکن عذرا اصغر نے با مقصد افسانے اور سنجیدہ افسانے لکھے۔ ان کے افسانے لکھنے کا انداز روایتی ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کہانی اور کردار نگاری پر بھر پور توجہ دیتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں شامل "پت جھڑ کا آخری پتا”،”تنہا برگد کا دکھ”، "گول سمندر” ، "بیسویں صدی کی لڑکی”وغیرہ ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں:
"عذرا اصغر کے افسانوں کی بنیادی علامت بانجھ دھرتی ہے۔’پت جھڑ کا آخری پتا ‘ میں متعدد ایسے کردار سامنے آتے ہیں جو زندگی کو تنکے کی طرح بے جواز ڈول رہے ہیں۔ انھوں نے اس انسان کے بے حد شفقت کی نظر سے دیکھا ہے”۔ (24)
عذرا اصغر کے ہاں محبت اور شفقت سے دیکھنے کا انداز نمایاں ہے۔ ان کا فنِ کمال یہ ہے کہ معمولی واقعہ اور عام مشاہدے کے باوجود سماجی حقیقت کو خوبصورت افسانے کے روپ میں ڈھال دیتی ہیں۔ اس دور میں جتنے بھی افسانے لکھے گئے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت کے لوگوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے یہ ایک روشنی تھی جو اندھیرے میں چراغ کا ذریعہ بنی اور ان کو راستہ دکھانے کی کوشش کی۔ اس دور میں کشور ناہید اپنی کتاب "خواتین افسانہ نگار ” کے دیباچے میں لکھتی ہیں:
"۱۹۳۰ء سے ۱۹۹۰ء کے درمیان اس ملک کے لوگوں کے ساتھ انصاف اور مذہب کے نام پر جو نا انصافیاں ہوئیں اس اندھیرے کو دور کرنے کے لئے گیلی دیا سلائی سے روشنی پیدا کرنے کی کوشش ہمارے خالی گھڑوں ، خالی برتنوں اور خالی ذہنوں کو سمندر کی لہر پر رکھے چراغ کے ذریعے راستہ دکھانے کی وہ کوشش جو کہتی ہے ‘آزادی ہمیشہ پہلے آتی ہے اور موت بعد میں'”۔ (25)
ان افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور معقوفانہ رنگ کی جھلکیاں بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں جو خواتین افسانے کے منظر پر ابھریں اور اپنا منفرد نقش بنانے میں کامیاب ہوئیں ان میں نیلو فر ، نگہت سہبا، شمع خالد، شکیلہ رفیق، رفعت مرتضٰی، رفعت کیانی، خالدہ شفیع، رخسانہ صولت، نسرین قریشی اور پروین عاطف وغیرہ شامل ہیں۔
درج ذیل افسانہ نگاروں کے علاوہ موجودہ دور تک کی تاریخ کا اگر سر سری جائزہ لیا جائے تو ایسے کئی نام منظر عام پر آتے ہیں جنھوں نے اپنے خونِ جگر سے اردوافسانہ نگاری کے ماتھے پر افشاں چنی کی۔ ان افسانہ نگاروں کا احاطہ کرنے کی اگر سعی کی جائے تو یہ ایک ایسا لا متناہی سلسلہ ہے جو کہیں تھمتا ہوا نطر نہیں آتا۔
اگرچہ چند افسانہ نگاروں کا تذکرہ کر دینے سے اردو ادب کے تمام افسانہ نگاروں کا احاطہ ناممکن سی بات ہے البتہ مختصر تعارف کروا کر دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے ۔ ان تمام افسانہ نگاروں کی اگر فہرست مرتب کرنا شروع کر دی جائے تو یہ مختصر سا تعارف ایک ضحیم کتاب بن جائے۔ ادب کا مطالعہ لطف و شہرت سے بصیرت تک لے جاتا ہے۔
برصغیر کے ہر افسانہ نگار نے اسی وسیع سمندر میں غوطہ زنی کر کے اپنی بساط کے مطابق اس صنفِ ادب میں لطف و ابساط کے ساتھ مقصدیت کو بھی پیش کرنے کی سعی کی ہے۔یہ محض تین چار سالوں کی بات نہیں ، گنے چنےافسانہ نگاروں کا قصہ نہیں بلکہ ڈیڑھ سو سالوں کی ریاضت پر مشتمل ایک پوری تاریخ ہے۔ افسانہ نگاری کی روایت میں ہر مصنف اپنا حصہ ڈال کر اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی اگر کسی جگہ تشنگی کا احساس رہا مگر کچھ شاہکارافسانے بھی ادب کی زینت بنتے رہے۔ لطف و شہرت کے ساتھ قید کا سلسلہ بھی رواں دواں رہا۔
اس تحقیقی مقالے کا تعلق اشفاق احمد کے افسانوی مجموعے” ایک محبت سو افسانے” سے ہے۔ لہذا اس مقالے میں اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ہی بحث کی جائے گی۔
اشفاق احمد کی افسانہ نگاری
اردو افسانہ نگاری کی روایت میں اشفاق احمد کا تعلق ان ادیبوں کی قبیل سے ہے جنھیں اردو ادب کے معمار تصور کیا جاتا ہے۔ جو رجحان ساز ہیں اور جنھوں نے اردو ادب کو وقار بخشا۔ اشفاق احمد برصغیر کی جس زمانی و مکانی لکیر پر کھڑے تھے وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم دور تھا ۔غربت، بے روزگاری، سیاسی و سماجی مسائل نے ایک جگہ یکجا ہو کر تخلیقی منظر نامہ تشکیل دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام موضوعات اور مسائل ان کے تخلیقی تجربات کے لئے بڑے اہم محرکات ثابت ہوئے۔
اردو ادب کی خوش بختی تصور کی جائے کہ ایک عرصے تک اشفاق احمد ادب کے افق پر جگمگاتے رہے۔ انھوں نے اپنے عہد کے بہت سے تاریخی اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا اور انھیں تہہ بہ تہہ اپنی تخلیقات میں پیش کر دیا۔ ان کا اگر تخلیقی سفر دیکھا جائے تو نصف صدی سے زائد کے عرصے پر مشتمل ہے۔اسی دوران انھوں نے خود کو ایک صاحبِ نظر اور پختہ شعور کا مصنف منوانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی ہیں۔
بطورِافسانہ نگار اشفاق احمد بلند مقام کے حامل ہیں۔ ان کے فنِ ناول کا اگر جائزہ لیں تو وہ ایک ممتاز مقام کے حامل فن کار نظر آتے ہیں۔ اردو فکشن کی روایت میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اشفاق احمد کا شمار ترقی پسند مصنفین میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کا اثر ان کی تخلیقات پر واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ ایک سماجی حقیقت نگار کا درجہ رکھتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی اور منشی پریم چند کی طرح انھیں بھی دیہاتی زندگی سے خوب صورت تصویریں اخذ کر کے اپنی تحریروں میں پیش کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔
اگر ان کی افسانہ نگاری کا دیہی پسِ منظر میں جائزہ لیا جائے تو وہ خاصے کی چیز ہیں۔ اس تناظر میں ان کا قوت مشاہدہ انتہائی مضبوط اور تخیل بہت توانا ہے۔ اپنے وسیع تجربے کے بل بوتے وہ دیہی اور زرعی معاشرے کی جاندار اور متحرک تصویریں پیش کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ دیہی معاشرہ کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ‘ایک محبت سو افسانے ‘ میں ان کی یہ خوبی انتہائی ہنر مندی کے ساتھ استعمال ہوئی ہے۔
اشفاق احمد کے کردار عمدہ ہوتے ہیں۔ وہ کرداروں کی نفسیات سے مکمل آگاہی رکھٹے ہیں۔ ان کے کردار جامد نہیں ہوتے بلکہ متحرک اور جاندار ہوتے ہیں۔ اور اپنی وضع قطع اور بنت کے اعتبار سے اپنے نظریات اور طبقات کی مکمل نمائندگی کرتے ہیں۔ کرداروں کی زبان بھی ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتی ہے۔ان کےافسانوں میں تجربے اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ ان کی گہرائی کے ساتھ جو فنی پختگی موجود ہے وہ اس بات کی گواہ ہے کہ اشفاق احمد نے تخلیقی ارتقاء کے کئی مدارج طے کئے ہیں۔ ان کیافسانہ نگاری میں ہمارے قومی اور انفرادی کردار کی بلندیاں ، پاکیاں اور خوبیاں ہی نہیں بلکہ پستیاں، لغزشیں اور کوتاہیاں بھی ہیں۔
اشفاق احمد کے افسانوں میں خواتین جس طرح ظہور ہوتی ہیں وہ انھیں قدرے منفرد بنا دیتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات سے آگاہ نہیں کہ وہ اگلے لمحے کیا کرنے والی ہیں، کہاں جانے والی ہیں۔
المختصر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اشفاق احمد ایک ایسے افسانہ نگار تھے جن کی انگلیاں سماج کی نبض پر رہتی تھیں ۔ وہ انسان دوستی اور محبت کے علمبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا لب و لہجہ ، ان کا اندازِ نرمی اور شگفتگی لئے ہوئے تھا۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرت، بد امنی، تعصب، وہ ان تمام باتوں سے بے حد متنفر نظر آتے تھے۔ اپنے آس پاس کی زندگی میں راحت و احساس چاہتے تھے۔
افسانے کے فن کے سلسلے میں جو بات قابل ذکر ہے وہ بیانیہ پر مصنف کی مکمل دسترس ہے ۔ جس کی مدد سے وہ پوری فضا کو اسیر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ حساس بیانیہ اس وقت خاص کر تشکیل پاتا ہے اور تب حالات و واقعات منظر پر لائے جاتے ہیں جب کسی مقام پر جذبات کے مدو جزر کا نقشہ کھینچنا مقصود ہوتا ہے۔ اور یوں وہ تضاد کو بھی نمایاں کرتے ہیں اور تعطیر جذبات کا بھی کام کرتے ہیں۔ جس ٹھوس محاکات نگاری سے وہ کام لیتے ہیں اس سلسلے میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ ہمیشہ دیہی زندگی کے پس منظر میں برتے جاتے ہیں اور ان محاکات میں ایک حرکی عنصر پایا جاتا ہے۔ یہی انھیں مؤ ثر اور جاندار بناتا ہے۔
اردو کے چند مشہور افسانہ نگار:
افسانہ کسی بھی موضوع پہ لکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی افسانے میں سیاسی مسائل کے حل کی تلاش ملتی ہے یا اس کا کوئی ایک خاص حال پیش کیا جاتا ہے۔ تو کسی افسانے میں سماجی پہلوؤں کی نشاندہی ہی کی جاتی ہے۔کسی کے لیے معاشی بحران اور اس کے متعلق در پیش مسائل زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں تو کسی افسانہ نگار کے لیے اخلاقی یا اصلاحی نقطہ نظر کوئی من کی دنیاؤں میں کھویا ہوا ہے تو کوئی شعور اور لاشعور کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہے کوئی حسن کو پوجتا ہے تو کوئی انقلاب کانقیب ہے۔
افسانوی ادب کو ان خاص بندھے ہوئے خانوں میں تقسیم کر دینا ادب کو چند بندھے ٹکے فارمولوں میں تقسیم کر دینے کے مترادف ہے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہر افسانوی انسانی زندگی کے اطراف کھومتا ہے اور اس کے ہی گرد ساری زندگی رواں دواں رہتی ہے ۔ افسانے کا یہی انسان سیاسی اور معاشی زندگی بسر کرتا ہےضمیر کی چھین محسوس کرتا ہےیا اس کا گلہ کھونٹتا ہے بعض اوقات لاشعور کے تابعہو کر ہر چیز پر عمل کرتا ہے اور کبھی اس کے اصولوں سے انخراف برت کر لاشعوری طور پہ کوئی قدم اٹھاتا ہے اور یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی کے متعلق اس کی سوچ و فکر کا تمام تر زاویہ اور نقطہ نظر غیر استدلالی اور غیر اخلاقی نوعیت کا ہو۔
اردو افسانے میں مارکسی فلسفے اور فرائڈی خیالات کے اثرات قریب قریب ایک ہی دور میں داخل ہوئے جس کے باعث نئے افسانہ نگاروں نے طبقاتی کشمکس اور جنسی جبر کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا یہی وجہ ہے کہ اس دور کے افسانوں میں مرکس اور فرائڈ گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ اس دور کے افسانہ نگاروں نے اردو ادب کو کئی قابل قدر افسانے عطا کیے۔ چند مشہور افسانہ نگار درض ذیل ہیں۔غلام عباس، احمد ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو ، منشی پریم چند ، سجاد حیدر یلدرم ، عصمت چغتائی وغیرہ۔
غلام عباس
کسی بھی تخلیق کے لیے موضوع بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ موضوع چاہے حقیقی زندگی کے مسائل کا عکاس اور اخذ شدہ ہو یا انسانی زندگی سے منسوب کوئی واقعہ ہو افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ حقیقی ادب درحقیقت عوام کا ادب ہوتا ہے جس کی بنیادیں عوام کے مسائل سے بنی ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے طارق بن عمر لکھتے ہیں:
"جب فرد اپنے رویے کو معاشرے کے رویے میں ہم آہنگی کرے گا تو ایک ایسا رویہ جنم لے گا جسے ہم سماجی ، معاشی مذہبی اور سیاسی بیداری کا نام دے سکتے ہیں یہ فکری عمل بعض اوقات ہمیں زندگی کی کچھ بے رحم تصاویر بھی دکھاتا ہے "۔ (26)
ہر ادیب کوئی بھی کہانی لکھنے سے پہلے اپنے ذہن میں کسی نہ کسی خیال کا تانا بانا بنتا ہے۔ اور پھر اسے لفظوں کا جامعہ پہنا کر صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔
غلام عباس کے افسانے ایسے ہیں جو عوام کے مسائل اور تکالیف کی کہانیاں بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی زندگی کے کئی اچھوتے اور نرالے پہلوؤں کا اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے خوب صورت اسلوب اور دلچسپ موضوعات کی بدولت اردو ادب میں پذیرائی حاصل کی ، غلام عباس کا اسلوب اور زبان کے استعمال کا طریقہ کار بہت منفرد اور نکھرا ہوا تھا، وہ غیر ضرروری مرکبات اور مشکل الفاظ کے استعمال اور طوالت کو نا پسند کرتے تھےچنیدہ الفاظ پر یقین رکھتے تھے غلام عباس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
"میں نے اپنے لیے قواعد بنائے کہ اردو کیسی ہونی چاہیے مثلاً میں دو صفات کبھی ایک ساتھ استعمال نہیں کرتامیں نے عشق و محبت کبھی نہیں لکھا یا تو عشق لکھا یا محبت ، رنج و غم کا ایک ساتھ استعمال بھی فضول ہے یا تو رنج ہے یا غم ہے۔ پہلے ادب میں اچھا خاصا محاوروں کا استعمال ہوتا تھا”(27)
غلام عباس افسانے کے مرکزی خیال کے بارے میں یقین رکھتے تھے ان کے نزدیک زندگی کے ہر احساس بھرے پہلوؤں کو افسانے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے کسی ایک معمولی سے واقع کو موضوع بنا کر کہانی پلاٹ کا تانا بنا جا سکتا ہے اس حوالے سے غلام عباس لکھتے ہیں:
"ذرا سی بات ہوتی ہے جو افسانے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں ان کی داخلی و خارجی کیفیات کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات و احساسا ت، فکرو شعور کے عکاس ہیں ان کے افسانے متنوع موضوعات کے حامل ہیں غلام عباس نے اپنے افسانوں میں روزمرہ زندگی کے حالات و واقعات کو جگہ دی ہے”(28)
افسانہ نگاری اردو ادب کا ایک نہایت اہم ستون ہے۔ کسی زبان کی ترقی اور ترویج میں تمام اضاف ادب کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔ غلام عباس ادب کی تقریباً تمام اضاف پر نہایت گہری نظر رکھتے تھے غلام عباس ایک بلند پایہ افسانہ نگار تھے وہ جدید حالات کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے اور آنے والے وقت میں متوقع چیزوں کا نہایت باریکی سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کرتے تھے افسانے کا انسانی زندگی سے نہایت گہرا تعلق ہے ادب میں بغیر ماں باپ کے کوئی مصنف نہیں ہے اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ افسانہ ہو یا کوئی اور صنف خلا میں پیدا نہیں ہوتی افسانے کی ضروری شرط اس کا اختصار ہے لیکن دلکشی اور تاثر کے ساتھ ساتھ اس کی جامعیت بھی بڑھ جاتی ہے افسانوں میں موضوعات کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں :
"کہتے ہیں کہ ایک ذہین اور طباع افسانہ نگار کو ہر انسان کی زندگی کم سے کم دس افسانوں کے موضوعات سمجھا سکتی ہے اس لحاظ سے دس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں ایک ارب انسانوں کے موضوعات بکھرے پڑے ہیں مگر وہ افسانہ نگار کہاں جو ان موضوعات کو سلیقے سے سمیٹیں”(29)
اس کی ایک وجہ شاید وقت کی قلت اور تن آسانی بھی ہے کہ آج کا افسانہ نگار افسانے کےلیے بے شمار موضوعات کے ہوتے ہوئے بھی موضوعات کی تنگی کا شکار ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے ہر شخص شعر کہہ سکتا ہے ہر شخص افسانہ لکھ سکتا ہے لیکن تخلیقی نزاکت اور فنی بلندیاں صرف انہی سے معرض وجود میں آ سکتی ہیں جنہوں نے مشاہدات پر کافی عرق ریزی کی ہے کامیاب مشاہدے کے لیے حواس کی مناسب تربیت نہایت ضروری ہے اور دنیا کا عجائب خانہ اپنہ جملہ رنگ من مانیوں کے ساتھ ہمیں دعوت نظارہ دے رہا ہے۔ اس حوالے سے سید عبداللہ لکھتے ہیں:
"میری کمزوری یہ ہے کہ میں حقیقت نگاری کی بعض خوبیوں کو ماننے کے باوجود بے لاگ ننگی حقیقت نگاری کو زیادتی سمجھتا ہوں کہ آرٹ اور ادب میں جب حقیقت نگاری فنی حد سے آگے بڑھ کر غرض مندانہ ہو جائے تو وہ شرف انسانی یا (عظمت انسان) کے بارے میں بے اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ اور یہ بذات خود ایک مرض بن جاتی ہے”(30)
یہ اقتباس اس امر کا عکاس ہے کہ موجودہ اور آنے والے حالات کے تناظر میں اور اس ماحول کی افادیت کو ایک افسانہ نگار کس طرح دیکھتا ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کو ہر موضوع پر لکھنا چاہیے اور باقاعدگی سے لکھتے رہنا چاہیے۔غلام عبا س کے افسانوں میں ادبی چاشنی بھر پور ہے لیکن ان کے موضوعات میں بھی خاصہ تنوع نظر آتا ہے غلام عباس ہر دفعہ ایک نیا اور اچھوت مضمون لیکر حاضر ہوتے تھے اور اس وقت تک اس موضوع کا سحر باندھے رکھتے تھے جب تک کہ اگلہ افسانہ کسی نئے مضمون کے ساتھ منصئہ شہود پر نہیں آ جاتا تھا۔
احمد ندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں انسانی رویوں کی عکاسی اور ان کے ذہنی اور جذباتی مسائل کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے احمد ندیم قاسمی کمال مہارت سے فرد کے داخل اور خارج کے عمل سے نتائج اخذ کرتے ہیں اور بہترین انداز سے انہیں اپنی تحریر میں شامل کرتے ہیں احمد ندیم قاسمی انسان کے بدلتے ہوئے رویوں اور انسانی فطرت کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں ۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانے لغورانی دنیا کی بجائے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع حقیقت نگاری ہے۔ اور وہ اپنے افسانوں کے ذریعے قاری کو زندگی کے تلخ حقائق سے روشناس کرواتے ہیں احمد ندیم قاسمی مناظر کشی پہ زور دینے کے بجائے حقیقی واقعات کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے زندگی کے مسائل اور دکھوں کو جس شدت سے محسوس کیا اسے اپنے افسانوں میں بیان کر دیا احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد ہمارے معاشرے کی جو تصویر ہمارے سامنے آ رہی ہے وہ ایک بے ربط اور سنگ دل اصولوں اور میکانکی اصولوں کے عکاس ہے جو بے حس ہونے کے ساتھ ساتھ بے بس اور لاچار بھی ہے۔.
کرشن چندر
ہمارے افسانوی ادب میں کرشن چندر کے ہاں فطرت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے بعض نقادوں کے نزدیک کرشن چندر افسانے کا شاعر ہے ۔ کرشن چندر نے تو اپنے افسانوں میں فطرت کو ایک بہت بڑا موضوع بنا دیا ہے جہاں اسے انسانوں کو دکھ دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں اسے مجوں، شاخوں، پھولوں، پنکھڑیوں، خوشبوؤں، جھیلوں اور پرندوں کے حسن کا پورا ادارک ہے۔
ورڈزورتھ کی نظمیں قاری کو ایسی پر اسرار اور حسین وادیوں میں لے جاتی ہیں کہ وہ فطرت پرست بن جاتا ہے۔ ہارڈی نے فطرت کو ایک اور زاویے سے دیکھا ہے اس کے نزدیک فطرت ظالم اور جابر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فطرت نے اپنے روپ پر فنکار پر الگ الگ مظاہر کیے ہیں۔ وارث علوی اپنے مضمون ” کرشن چندر کی افسانہ نگاری” میں لکھتے ہیں:
"کرشن چندر کے ہیاں کشمیر کی وادیاں نہ پرہم چند کے گاؤں ہیں نہ بمبئی منٹو کا بمبئی ہے فطرت ویسے پرہم چند، منٹو ، بیدی، ندیم قاسمی، قراۃ العین حیدر، غلام عباس کے یہاں ہے لیکن چونکہ وہ کل ایک جزو ہے اور الگ سے شاعری اور نماہیت کا موضوع نہیں۔”(31)
کرشن چندر کا قلم جس چیز کو چھوتا ہے اسے نمایاں اور اجلا کر دیتا ہے۔
بانو قدسیہ
ادب حیاتِ انسانی کی تشریح ہے۔ انسان ابتدا ہی سے معاشرتی زندگی میں دلچسپی لیتا آ رہا ہے اور یہی دلچسپی ادب کی بنیاد ٹھہری ہے۔ افسانے کی ابتدا اردو ادب میں بیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی۔آغاز سے اس صنف ادب نے زندگی کے مختلف ادوار کو اپنے دامن میں جگہ دینا شروع کی ۔زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ افسانہ جس عہد میں بھی موجود رہا اس دور اور معاشرے کے تمام تر تہذیبی ، تمدنی اور معاشرتی موضوعات کو اپنے دامن میں جگہ دی۔
پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، قرات العین حیدر، بانو قدسیہ اور دیگر کئی افسانہ نگاروں کے ہاں تہذیبی و معاشرتی عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان ہی افسانہ نگاروں میں ایک منفرد نام بانو قدسیہ کا بھی ہے۔جنہوں نے معاشرے کے متوسط اور غریب طبقے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔بانو قدسیہ اردو نثری ادب کی مشہور و معروف شخصیت ہیں۔ انھوں نے اردو ادب میں بے شمار افسانے تخلیق کیے۔جن کے اندر معاشرے کے غریب اور متوسط طبقہ کی عکاسی کی گئی ہے
بانو قدسیہ کے افسانوی مجموعے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ان کے افسانوں میں اپنے عہد کی تصویریں تمام رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔بانو قدسیہ کے افسانوں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ان کے اندر معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے کی عکاسی بدرجہ اتم موجود ہے۔
شفیق الرحمان
اردو کے افسانوی ادب میں شفیق الرحمان کا نام ایک معتبر حیثیت کا حامل ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ جدید افسانوی ادب میں ان کا نام سرفہرست ہے تو مبالغہنہ ہوگا۔ افسانوی ادب اور اس کی مختلف اسلوبی اور ادبی جہتوں پر جس قلم کار نے شگفتگی اور شوخی سے زندگی کے جواں سال جذبوں کی رومان کے حوالے سے ترجمانی کی ہے وہ بلا شبہ شفیق الرحمان ہی ہے۔اس حوالے سے "کرنیں” کے دیباچہ میں حجاب امتیاز علی لکھتے ہیں:
” وہ رومان میں فرحت کے ساتھ تاثر بھی بڑی بے تکلفی سے پیدا کر لیتے ہیں۔ "کرنیں” ان کا بہت دلآویز افسانہ ہے جس میں ایک محبوب ہستی کی یاد ماضی کی تاریکی میں سے چھن چھن کر نکلتی اور ہال میں کانپتی اور جھلملاتی ہوئی روشنی کے ایسے سہانے اور مؤثر نقوش بناتی چلی جاتی ہے جو آنکھوں سے آپ ہی آپ خراج وصول کرتے ہیں”۔(32)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شفیق الرحمان کی تحریر میں رومانویت کے ساتھ ساتھ بڑی شوخی اور تازگی ہے اور انھوں نے اس صنفِ سخن کو اپنے منفرد اندازِ تحریر سے مالا مال ہی نہیں کیا بلکہ مغرب کی ادبیات عالیہ کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے۔
یہ بات درست سہی کہ اردو کا مزاحیہ و طنزیہ ادب اپنے دامن میں بہترین تخلیقات کو سموئے ہوئے ہے۔ اور اس صنف کو ایسے سخن فہموں نے روشنی عطا کی ہے جو اردو ادب میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ لیکن شفیق الرحمان کے بارے میں ادبِ لطیف کے اس دعویٰ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ شفیق الرحمان موجودہ دور میں مزاحیہ ادب کے بانی ہیں۔
شفیق الرحمان ان خوش قسمت ادیبوں کی فہرست میں شامل ہیں جنھیں ان کی زندگی میں عروج اور شہرت ملی ہے اور ان کے سامنے ان کے افسانوں کو ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی ہے۔ انھوں نے اب تک ۱۰کتابیں لکھی ہیں۔اور ہر کتاب کئی بار شائع ہو چکی ہے جس سے ان کی تحریروں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی مشہور تصانیف میں "کرنیں”، "شگوفے”، "لہریں”، "مدو جزر”، "پرواز”، "حماقتیں”، "پچھتاوے”، اور "مزید حماقتیں” قابلِ ذکر ہیں۔ "انسانی تماشہ” ایک ترجمہ ہے جبکہ "دجلہ ” ان کا سفر نامہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مضامین بھی لکھے ہیں اور خط بھی۔ اس حوالے سے اسد اللہ نیاز لکھتے ہیں:
” شفیق الرحمان اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں اور خط بھی لکھتے ہیں”۔ (33)
یہ اقتباس واضح کرتا ہے کہ شفیق الرحمان کسی ایک صنف پر اکتفا کرنے والے ادیب نہیں بلکہ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ہر صنفِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔
شفیق الرحمان کا اگر ہم عصر مزاحیہ ادب کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو بڑی حد تک اپنی طرز کے اس منفرد مزاح نگار کا اردو کی مزاحیہ روایت میں مقام و مرتبہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانے زبان اور رویے کے اعتبار سے رومانوی اسلوب کے نمائندہ ہیں اور اپنے اندر بھرپور دلچسپی لئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ادبی حلقوں میں اپنے ہم عصروں سے زیادہ پذیرائی ملی ۔ ان کے افسانوں میں ایک فطری دکشی اور اسلوب میں تازگی موجود ہے جو کہ زندہ ادب کی پہچان ہے۔یہ رومانوی طرزِ تحریر ان کے کئی افسانوں میں نمایاں ہے۔اور جا بجا ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شفیق الرحمان کی تحریریں اپنے عہد کی مروجہ افسانہ نگاری کے مزاج سے بہت قریب تر ہیں۔
حوالہ جات
- رفیع الدین ہاشمی، "اصناف ادب” ،ص102
- پروفیسر انور جمال، "ادبی اصطلاحات”،ص182۔183
- عبادت بریلوی، ڈاکٹر، "نقوش افسانہ نمبر، جلد دوم”،ص28
- اقبال آفاقی، داکٹر، "اردو افسانہ فن ہنر اور متنی تجربے”،ص35
- مولوی نو ر الحسن، "نور اللغات”،ص368
- ابو الاعجاز حفیظ صدیقی، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”،ص23
- جمیل جالبی، ڈاکٹر، "ارسطو سے ایلیٹ تک”،ص87
- سید عابد علی عابد، "اسلوب”،ص212
- سید عبد اللہ، ڈاکٹر، "اشارات تنقید”،ص222
- سید عابد علی عابد، "اسلوب”،ص22
- ذوالفقار احمد تابش، "سوال یہ ہے”، مشملہ "اوراق”،ص81
- رشید امجد، ڈاکٹر، ” رویے اور شناختیں”،ص98
- ابو الاعجاز حفیظ صدیقی، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”،ص38
- پروفیسر انور جمال، "ادبی اصطلاحات”،ص19
- سنبل نگار، ڈاکٹر، "اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ "،ص180۔181
- مرزا حامد بیگ، "اردو افسانے کی روایت۱۹۰۳ء-۲۰۰۹ء”،ص15
- سید وقار عظیم، "داستان سے افسانے تک”،ص193
- فرمان فتح پور، ڈاکٹر، "اردو نثر کا فنی ارتقاء”،ص36
- غلام ثقلین نقوی، "ماہنامہ عصرِ جدید نئی قدریں” شمارہ نمبر ۵،ص23
- انور سدید، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”،ص553
- سلیم اختر، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”،ص525
- حمیر اشفاق، "جدید اردو فکشن عصری تقاضے اور بدلتے رجحانات”، ۲۰۱۰ء، ص21
- احمد پراچہ، "پاکستانی اردو ادب اور اہلِ قلم خواتین”،ص270
- انور سدید ، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”،ص555
- کشور ناہید، "خواتین افسانہ نگار”،ص47
- طارق بن عمر،”اردو افسانہ اور فکری رویے”،ص38
- غلام عباس،”ایک مطالعہ”،ص107
- غلام عباس،”ایک مطالعہ”،ص123
- احمد ندیم قاسمی، سہ ماہی، "فنون”، ندیم نمبر،ص۔36
- سیدعبداللہ، ڈاکٹر، "ادب وفن”،ص73
- وارث علوی، "کرشن چندر کی افسانہ نگاری”،ص215
- اسد اللہ نیاز، "اردو کے اہم مزاح نگار”،ص323
- اسد اللہ نیاز، "اردو کے اہم مزاح نگار”،ص187
حواشی
1) رفیع الدین ہاشمی، "اصناف ادب” ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص102
2) پروفیسر انور جمال، "ادبی اصطلاحات”، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء، ص182،183
3) عبادت بریلوی، ڈاکٹر، "نقوش افسانہ نمبر، جلد دوم”، ادارہ فروغِ اردو، لاہور، س ن،ص 28
4) اقبال آفاقی، داکٹر، "اردو افسانہ فن ہنر اور متنی تجربے”، فکشن ہاؤس ، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص35
5) مولوی نو ر الحسن، "نور اللغات”، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۰۶ء، ص368
6) ابو الاعجاز حفیظ صدیقی، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۵ء، ص23
7) جمیل جالبی، ڈاکٹر، "ارسطو سے ایلیٹ تک”، نیشنل بک فاؤنڈیشن، کراچی، ص87
8) سید عابد علی عابد، "اسلوب”، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم، ۱۹۹۶ء،ص212
9) سید عبد اللہ، ڈاکٹر، "اشارات تنقید” سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱، ص222
10) سید عابد علی عابد، "اسلوب”، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم، ۱۹۹۶ء، ص22
11) ذوالفقار احمد تابش، "سوال یہ ہے”، مشملہ "اوراق”، لاہور، سالنامہ جنوری فروری ۱۹۷۶ءص81
12) رشید امجد، ڈاکٹر، ” رویے اور شناختیں”، مقبول اکیڈمی، راولپنڈی، ۱۹۸۸ءص98
13) ابو الاعجاز حفیظ صدیقی، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۵ء، ص38
14) پروفیسر انور جمال، "ادبی اصطلاحات”، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء، ص19
15) سنبل نگار، ڈاکٹر، "اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ "، دارالنور اردو بازار لاہو، ۲۰۱۳ء، ص180-181
16) مرزا حامد بیگ، "اردو افسانے کی روایت۱۹۰۳ء-۲۰۰۹ء”، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ص15
17) سید وقار عظیم، "داستان سے افسانے تک”، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء، ص 193
18) فرمان فتح پور، ڈاکٹر، "اردو نثر کا فنی ارتقاء”، الاعجاز پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، ص36
19) غلام ثقلین نقوی، "ماہنامہ عصرِ جدید نئی قدریں” شمارہ نمبر ۵، ۱۹۰۶ء، ص23
20) انور سدید، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”، عزیز بک ڈپو ، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص553
21) سلیم اختر، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۳ء، ص525
22) حمیر اشفاق، "جدید اردو فکشن عصری تقاضے اور بدلتے رجحانات”، ۲۰۱۰ء، ص21
23) احمد پراچہ، "پاکستانی اردو ادب اور اہلِ قلم خواتین”، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۰۰ء، ص270
24) انور سدید ، ڈاکٹر، "اردو ادب کی مختصر تاریخ”، عزیز بک ڈپو ، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص555
25) کشور ناہید، "خواتین افسانہ نگار”، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص47
26) طارق بن عمر،”اردو افسانہ اور فکری رویے”، مشمول،مجلہ ماہ نور، جلدنمبر9، ستمبر2011 ء، لاہور،ص۔38 ۔ رسائل
27) غلام عباس،”ایک مطالعہ”، مرتب، شہزادمنظر، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور،۱۹۹۱ ء، ص۔107
28) ایضاً ، 123
29) احمد ندیم قاسمی، سہ ماہی، "فنون”، ندیم نمبر،ص۔۳۶ ۔رسائل
30) سیدعبداللہ، ڈاکٹر، "ادب وفن”، مغربی پاکستان اکیڈمی سخی آباد، لاہور، ۱۹۸۷ ء، ص۔73
31) وارث علوی، "کرشن چندر کی افسانہ نگاری”، کراچی، ۱۹۸۲ ء، ص۔215
32) اسد اللہ نیاز، "اردو کے اہم مزاح نگار”، بیت الحکمت، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص323
33) اسد اللہ نیاز، "اردو کے اہم مزاح نگار”، بیت الحکمت، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص187
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں