موضوعات کی فہرست
تنافر کی تعریف CACOPHANY
تنافر کی تعریف: تنافر عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی بھاگنے اور نفرت کرنے کے ہیں۔
اصطلاح ادب میں کلام میں دو متحد المخرج یا قریب المخرج حروف کا اتصال جس کو ادا کرتے وقت ایک نوع کی ثقالت پیدا ہو اور قاری کا ذوق ساعت جس سے ناگواری محسوس کرے، تنافر کہلاتا ہے۔
——-> تنافر مشرقی ادبیات کی قدیم اصطلاح ہے جسے عام طور پر فصاحت کے منافی خیال کیا جاتا ہے اور اس کی موجودگی سے کلام میں ایک عیب پیدا ہو جاتا ہے جو تخلیق کار کے عجر بجن کا اظہار کرتا ہے۔
—–>{حسرت موہانی تنافر کی تعریف یوں کرتے ہیں :
——> جب کسی شعر میں دو ایسے الفاظ متصل آ جاتے ہیں، جن میں پہلے لفظ کا آخری حرف وہی ہوتا ہے جو دوسرے لفظ کا حرف اول ہوتا ہے تو ان دونوں حرفوں کے ایک ساتھ تلفظ میں ایک قسم کا نقل اور ناگواری پیدا ہو جاتی ہے۔
اسی کا نام عیب تنافر ہے۔ اس سے شاعر کو حتی الامکان احتراز لازم ہے ۔“
——->قدیم علمائے ادب نے تنافر کو فصاحت کے منافی قرار دیا ہے اور کلام میں اس کی موجودگی کو عیب ٹھہرایا ہے مگر بڑے بڑے سخن گو اور شعرا اس عیب سے بچ نہیں سکے
اور ان کے کلام میں جا بہ جا تنافر کے نمونے دکھائی دیتے ہیں ۔
———->1.1 تنافر کی اقسام:
علمائے ادب نے تنافر کو دوقسموں میں بانٹا ہے۔
اوّل: تنافر خفی ، دوم : تنافر جلی ۔
تنافر خفی
——>تنافر کی وہ صورت جو کلام میں زیادہ نمایاں نہیں ہوتی اور فصاحت کے رنگ کو بڑی حد تک برقرار رکھتی ہے، تنافر خفی کہلاتی ہے۔
تنافر خفی کی چند مثالیں دیکھیں:
نام سنتے ہی اس کا کیوں قائم
پھر کیا تو نے اضطراب شروع
☆
چاندنی چھٹکی ہمارے اشک کے سیلاب سے
رات کو روئے جو ہم اک مہ لقا کے واسطے
☆
کچھ حال غیر مجھ سے قسم لے اگر کہوں
ظالم میں وہ نہیں کہ ادھر کی اُدھر کہوں
☆
یوں تو ہے ہر رند کو ساقی سے چشم التفات
بزم میں ملتا ہے کس کو جام صہبا دیکھیے
☆
غیر کی بزم میں ، میری تو خبر کیا لو گے
ابھی اپنی ہی نہیں تم کو خبر دیکھ لیا
☆
دل پر محیط رنج محسن کی سپاہ ہے
تم کیا گئے کہ کشور راحت تباہ ہے
——>ان اشعار میں ایک ہی حرف کی تکرار سے تنافر پیدا ہوتا ہے تا ہم یہ تنافر کلام میں نقل پیدا نہیں کرتا اور اس کو ادا کرتے وقت روانی درجہ فصاحت سے نہیں گرتی ،
یہی وجہ ہے کہ علمائے ادب کا ایک بڑا گر وہ تنافر خفی کو عیب کلام خیال نہیں کرتا۔
تنافر جلی
——–>تنافر خفی کے برعکس تنافر کی وہ صورت جو کلام کے حسن کو مجروح کرنے اور روانی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا موجب ٹھہرتی ہے، اسے تنافر جلی کہا جاتا ہے۔
*تنافر جلی کی چند مثالیں دیکھیے *
آنکھوں میں میری عالم سارا سیاہ ہے اب
مجھ کو بغیر اس کے آتا نہیں نظر کچھ
☆
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
☆
ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
☆
دیکھ کر مجھ کو جو وہ حال مرا جان گئے
جی کے ارماں دل بیتاب کے قربان گئے
☆
ضعیف وزار ہیں یہ ہم جہانِ فانی میں
بنے ہیں تار نظر چشم ناتوانی میں
☆
غیر سے کب ہوا ہے ترک کلام باتیں تم ہم سے بھی بنانے لگے
——->علمائے ادب ہمیشہ تنافر کو عیب شمار کرتے رہے اور شعرا کو اس سے باز رہنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے مگر تنافر یہاں وہاں اپنی جلوہ گری کرتا دکھائی دیتا ہے
اور ہر طبقے کے شعرا کے ہاں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
جدید عہد کے ناقدین و ماہرین نے قدیم علمائے ادب کی بے جا پابندیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اس سختی کی مخالفت کی ہے۔
——-> عہد جدید کے معروف نقاد سید عابد علی عابد اس ضمن میں فرماتے ہیں:
——>اگر یہ فرض کر لیا جائے ، جہاں تنافر ہوگا وہاں شعر پڑھنے میں ضرور دشواری ہوگی اور سماعت پر بھی وہ گراں گزرے گا تو وہ اور بات ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم تنافر خفی میں تو جب تک پڑھنے والے کی توجہ خاص طور سے اس طرف منعطف نہ کرائی جائے شعور بھی نہیں ہوتا کہ تنافر موجود ہے۔
اس طرح ممکن ہے کہ تنافر جلی میں شعر پڑھنے میں کچھ دشواری پیش آئے اور روانی میں کمی واقع ہو لیکن محض اس بنا پر یہ دعوی کرنا کہ جب تک کلام تنافر سے پاک نہ ہوگا فصیح نہ ہوگا؛ زبان پر ایسی مصنوعی اور گراں پابندیاں عاید کرنے کے مترادف ہے، جن کے ہوتے ہوئے کوئی فن کار مطالب و معانی کا اظہار تام نہیں کر سکتا ۔
——->تنافر ایک شعری عیب ہے مگر جہاں اس کی موجودگی کلام کے حسن کو مجروح کرنے کا سبب ٹھہرے اور شعر کی روانی میں رکاوٹ ظاہر ہو محض حرفوں کی تکرار کو فصاحت کے منافی ٹھہرانا درست نہیں۔
ذوق سلیم جن حرفوں کے تکرار کو جائز سمجھتا ہے، وہاں فصاحت قائم رہتی نی ہے اور کلام کی تاثیر میں ذرا فرق نہیں پڑتا۔
فراق گورکھ پوری کا یہ شعر دیکھیے جس میں کئی مقامات پر تنافر موجود ہے.
——> مگر شعر بہ قول ابوالاعجاز حفیظ صدیقی نشتر کا درجہ رکھتا ہے:
مزاج عشق کو لازم ہے اب بدل جانا
کہ کچھ دنوں سے تو سنتے ہیں حسن بھی ہے حزیں
(موضوعتنافرکتاب کا نام {{{ادبی اصطلاحات}}}{کوڈ کورس :—–> : 9015} {صفحہ نمبر *{ 122 تا 125 } *{مرتب کرده…مسکان محمد زمان}*
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں