مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

دنیا کا امیر ترین ملک، جہاں نوجوان رہنا نہیں چاہتے


آئرلینڈ کا معمہ: دنیا کا امیر ترین ملک، جہاں نوجوان رہنا نہیں چاہتے

دنیا کا امیر ترین ملک، جہاں نوجوان رہنا نہیں چاہتے

ایک ایسا ملک جو آج امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ کویت اور قطر سے بھی زیادہ امیر ہے، لیکن اس کے اپنے ہی شہری، خاص طور پر 70 فیصد نوجوان، وہاں نہیں رہنا چاہتے۔

یہ کہانی ہے آئرلینڈ کی، جو کچھ دہائیاں پہلے یورپ کا ایک غریب ملک تھا اور آج دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ اس خوشحال ملک کے نوجوان اسے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں آئرلینڈ کے ماضی اور حال کی گہرائی میں اترنا ہوگا۔

آئرلینڈ اتنا امیر کیسے بنا؟

آج کی چمک دمک کے پیچھے آئرلینڈ کی ایک تاریک تاریخ چھپی ہے۔ آج سے صرف ڈیڑھ سو سال پہلے کے حالات انتہائی تکلیف دہ تھے۔

دی گریٹ ہنگر: ایک تاریک ماضی

آئرش پوٹاٹو فیمین، جسے "دی گریٹ ہنگر” بھی کہا جاتا ہے، نے 1845 سے 1852 کے درمیان آئرلینڈ پر قیامت ڈھا دی۔ اس قحط میں دس لاکھ سے زائد لوگ، یعنی ملک کی کل آبادی کا 11 فیصد، بھوک سے ہلاک ہو گئے۔ یہ تاریخ کا اتنا بڑا سانحہ تھا کہ آج تک آئرلینڈ کی آبادی اپنی 1840 کی سطح پر واپس نہیں آسکی۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کی موجودہ آبادی ماضی کے مقابلے میں کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انٹارکٹیکا: برف کے نیچے چھپے راز اور اس کی پراسرار تاریخ

کیلٹک ٹائیگر کا عروج

1922 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد بھی اگلے 50 سال تک آئرلینڈ کے معاشی حالات کچھ خاص نہ بدلے۔ اصل تبدیلی 1973 میں آئی جب آئرلینڈ نے یورپین اکنامک کمیونٹی (EEC) میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے آئرلینڈ کو اپنی مصنوعات بغیر کسی رکاوٹ کے دوسرے رکن ممالک میں فروخت کرنے کا موقع ملا۔

آئرلینڈ کی قیادت نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ایک انقلابی پالیسی کا اعلان کیا:

  • بیرونی کمپنیوں کو آئرلینڈ میں ہیڈکوارٹر قائم کرنے کی دعوت دی گئی۔
  • کارپوریٹ ٹیکس نہ ہونے کے برابر کر دیا گیا۔
  • حکومت نے کمپنیوں کو سبسڈی اور دفتر کے لیے انتہائی سستی زمین فراہم کی۔

اس اعلان کے بعد ڈیل (Dell)، مائیکروسافٹ (Microsoft)، اور انٹیل (Intel) جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اپنے یورپی ہیڈکوارٹرز آئرلینڈ منتقل کرنا شروع کر دیے۔ ٹیکس فری ماحول اور بہترین قانون کی حکمرانی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا سیلاب آ گیا۔ صرف دس سال (1990-2000) میں غیر ملکی سرمایہ کاری 2.2 فیصد سے بڑھ کر 49.2 فیصد تک پہنچ گئی۔

لوگوں کی تنخواہیں بڑھیں، معیشت سنگاپور اور جنوبی کوریا سے بھی تیز رفتاری سے ترقی کرنے لگی اور آئرلینڈ کو "کیلٹک ٹائیگر” کا خطاب ملا۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد آئرلینڈ نے کارپوریٹ ٹیکس کو تقریباً صفر کر دیا، جس کے بعد گوگل (Google) اور فیس بک (Facebook) جیسے ٹیک جنات بھی یہاں آگئے۔

تو پھر نوجوان آئرلینڈ کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟

کاغذوں پر سب کچھ بہترین نظر آتا ہے، لیکن زمین پر حقیقت کچھ اور ہے۔ آج 18 سے 24 سال کے 70 فیصد نوجوان مستقل طور پر آئرلینڈ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔

جی ڈی پی (GDP) کا دھوکہ

آئرلینڈ حقیقت میں اتنا امیر نہیں ہے جتنا اس کا جی ڈی پی پر کیپیٹا (GDP per capita) دیکھ کر لگتا ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے تو آئرلینڈ دنیا میں سب سے آگے ہے، لیکن جب ہم دوسرے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو تصویر بدل جاتی ہے۔

  • اوسط سالانہ تنخواہ: آئرلینڈ کی اوسط تنخواہ تمام اسکینڈینیوین ممالک، نیدرلینڈز، بیلجیئم اور آسٹریا سے کم ہے، جبکہ ان ممالک کا جی ڈی پی آئرلینڈ سے آدھا ہے۔
  • ڈسپوزیبل انکم: عام آدمی کے پاس خرچ کرنے کے لیے بچنے والی رقم کے معاملے میں آئرلینڈ دنیا میں 17ویں نمبر پر ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آئرلینڈ کا جی ڈی پی مصنوعی طور پر بڑھا ہوا (Artificially Inflated) ہے۔ یہاں زیادہ تر معاشی سرگرمی غیر ملکی کمپنیوں کی وجہ سے ہے جو اپنا سارا منافع ملک سے باہر لے جاتی ہیں۔ یہ کمپنیاں زیادہ تر غیر ملکی ملازمین کو ہی نوکریاں دیتی ہیں اور مقامی آئرش لوگ زراعت، ریٹیل یا کان کنی جیسے کم تنخواہ والے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

ہاؤسنگ کا سنگین بحران

کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح آئرلینڈ بھی شدید ہاؤسنگ بحران کا شکار ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تعمیراتی کمپنیوں کے لیے نئے گھر بنانا منافع بخش نہیں رہا، جس کی وجہ سے گھروں کی تعداد طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ڈبلن جیسے شہر میں کرائے کے ایک گھر کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

دباؤ کا شکار ہیلتھ کیئر سسٹم

آئرلینڈ کا صحت کا نظام شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بہت سے آئرش ڈاکٹرز بہتر تنخواہوں کے لیے دوسرے یورپی ممالک کا رخ کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور مریضوں کو علاج کے لیے مہینوں انتظار کی فہرست میں رہنا پڑتا ہے۔

مستقبل کے چیلنجز اور سبق

آئرلینڈ کی کامیابی کی کہانی ایک نازک ماڈل پر کھڑی ہے۔ جب آئرلینڈ اپنی زیرو ٹیکسیشن پالیسی کو ختم کرے گا (کیونکہ کوئی بھی ملک طویل عرصے تک کم ٹیکس پر نہیں چل سکتا)، تو اس کا یہ منفرد فائدہ ختم ہو جائے گا۔ بہت سی غیر ملکی کمپنیاں واپس اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں گی، جس سے آئرلینڈ کی معاشی ترقی کی قلعی کھل سکتی ہے۔

خلاصہ

آئرلینڈ کی کہانی یہ سبق دیتی ہے کہ طویل مدتی کامیابی کے لیے صرف غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مقامی صنعتوں کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ معاشی اعداد و شمار بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ترقی کا فائدہ عام شہریوں تک نہ پہنچے تو وہ ملک کبھی حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں