کتاب کا نام :تاریخ اردو ادب 2
موضوع: امیر خسرو کی ادبی خدمات
صفحہ نمبر :62تا65
مرتب کردہ:ارحم
___🌺____
امیر خسرو کی ادبی خدمات
لاہور سے چل کر دہلی پہنچیں تو امیر خسرو کی صورت میں ایک ایسی ہمہ صنف اور سدا بہار شخصیت ملتی ہے جو زبان شاعری تصوف اور موسیقی میں نابغہ روزگار ثابت ہوئی اور دائمی حوالہ کی صورت اختیار کر چکی ہے یمین الدین ابو الحسن خسرو( 1253 _ 1325) سے 99 تصانیف منسوب ہیں مگر محققین نے بعض کے ادارے میں شکوک کا اظہار کیا ہے اگرچہ امیر خسرو تصوف کے دلدادہ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص تھے مگر وہ خانقاہی صوفی ہونے کے برعکس عملی انسان تھے اپنے عہد کے تمام بادشاہوں کے دربار سے متعلق رہے سفارتی خدمات بجا لائے فوجی مہمات میں شرکت کی بلکہ ایک جنگ میں تو شہزادہ قان کی ہلاکت کے بعد شکست کے نتیجہمیں دو برس تک بلک میں قید میں رہے امیر خسرو کی اصل شہرت فارسی شاعری کی بنا پر ہے اہل ایران ہندوستان کے فارسی گوشعرا کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن خسرو کی زبان کے ایرانی بھی قائل تھے خسرو نے ہندی میں بھی صورت ریختہ اشعار کہے تھے جس کی وجہ سے اب ان کا نام اور کلام سب فرد زبان کے نشونما کے اس دور یعنی تیرویں، چودویں صدی عیسوی کے لیے ایک اسی حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے مزید برآں امیر خسرو کے نام سے متعدد لوگ گیت پہلیاں دوہے بھی منسوب ہیں جن کے طبع زاد اور حقیقی ہونے کے بارے میں لسانی موقع کی نہ شکوک کا اظہار کیا ہے وسطی ہند میں شادی بیاہ کے موقع پر گیا جانے والا یہ مقبول گیت بھی خسرو ہی سے منسوب ہے
کہا ہے کو بیاہی بدریس رہے سن بابل مورے
شاعری کے ساتھ ساتھ امیر خسرو موسیقی میں بھی استاد موجد کا درجہ رکھتے تھے چنانچہ بعض راگوں اور سازوں جیسے ستار اور طبلہ ان سے منسوب ہے شاعری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ریختہ بھی امیر خسرو کی ایجاد ہے اگرچہ یہ موسیقی کے لیے اختراع کی گئی اس کا اطلاق ایسی شاعری پر بھی ہونے لگا جس میں ایک یا نصف مصر ہندوی اور فارسی کا ہونا معلوم نہیں ریختہ موسیقی میں چلایا نہیں لیکن شاعری میں خاصی قبولیت حاصل ہوئی اس حد تک میر سودا غالب تک کے زمانے میں ریختہ شعروں اور غزلوں کے لیے استعمال ہوتا رہا
محمود شیرانی لکھتے ہیں
جب امیر خسرو دہلوی نے ایرانی اور ہندی موسیقی کے اتحاد سے ایک نئی چیز تیار کی اس کے لیے انہوں نے رفتہ کی اصطلاح وضع کی۔
( پنجاب میں اردو ص: 30)
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ریختہ کے مفہوم میں ایک اور تبدیلی بھی اگئی یہ اردو زبان کے بعد اردو کلام کے لیے بھی مستعمل ہوا غلط کے وقت تک ریختہ شاعری غزل کے مفہوم میں استعمال ہوتا رہا ہے چنانچہ غالب کہتا ہے ریختہ کہ تمہیں استاد نہیں ہو غالب امیر خسرو کی مشہور غزل درج ہے
زحالِ مسکین مکن تغافل
ورائے نینا بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لبوئے کا ہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز جو زلف روز لش جو عمر کوتاہ
سکی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری ریاں
یکا یک از دل دو چشم جا دو بسد فر بہم بہر تسکین
کسے پڑی ہے جو سنا دے پیارے پی کو ہماری ایاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں زمہر آ ں مہ بختم آخر
نانیند نیا نا انگ چینا نہ آپ آوے نہ بھیج پتیاں
بحق روز وصال دلبر کہ دلو مارا فریب خسرو
میں بیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھیاں
اس غزل میں ایک بات بطور خاص توجہ طلب ہے ہندی کتب میں ارادہ کرشن کی محبت پر مبنی گیتوں کی روایت کے موجب اور عورت اظہار تمنا کرتی ہے جبکہ فارسی شاعری ریختوں عشق مردانہ خواہشات کے تابع ہوتا ہے اس لیے خسرو یا ان کے مناظرین کے ریختوں میں اظہار عشق عورت کی جانب سے ہوتا ہے با الفاظ دیگر اردو شاعری نے فارسی کی تقلید میں ہندی سے مخصوص انداز سخن ترک نہ کیا لہذا ان کے ریختہ میں مقامی فضا برقرار رہتی ہے
مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجئے
خسرو کا ذہنی سفر__ انصاری نئی دہلی 1988
امیر خسرو دہلوی از ممتاز حسین کراچی اور
امیر خسرو ڈاکٹر وحید مرزا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں