برق بلا کی آفت ہوں
معصوموں کی رفاقت ہوں
شیرینی کا شربت ہوں
تلخ نوا کی شامت ہوں
اک ملت اک اُمت ہوں
اپنے خدا کی رحمت ہوں
ترجمه: خاطر غزنوی
امیر حمزہ شنواری (1907ء ۔ 1994ء)
امیر حمزہ شنورای 1930 ء تک اردو میں شاعری کرتے رہے مگر اس کے بعد اپنے مرشد پیر عبدالستار شاہ کے حکم پر پشتو میں شعر کہنے لگے۔ ان کے کلام کو قدیم دور کے اختتام اور جدید دور کے آغاز کے درمیان ایک پل کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو شاعر تھے۔ ان کی غزل متنوع خصوصیات کی حامل ہے۔
آٹھویں صدی ہجری میں اکبر زمینداور نے پشتو زبان و ادب میں غزل کی جس روایت کی بنیاد ڈالی تھی، اس غزل کی روایت کی تکمیل کا سہرا بابائے غزل حمزہ شنواری کے سر بندھتا ہے۔ انھوں نے روایتی موضوعات نئے رنگ و انداز میں پیش کیے اور ان میں جدت وتنوع پیدا کیا۔
ان کی شاعری میں فنی پختگی اور شاعرانہ تلازمات کے بہترین التزام کے ساتھ ساتھ تصوف اور تغزل کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ چوں کہ وہ علمی صوفی بھی تھے اور عملی بھی، اس لیے ان کے اشعار میں تصوف اور بالخصوص وحدت الوجود کا فلسفہ بڑی شدت سے بیان کیا گیا ہے۔ دو اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
ترجمہ: ”اے حمزہ! جب میں نے حسن کی وحدت دیکھ لی تب معلوم ہوا کہ میں کس کا ہوں“۔
حمزہ شنواری نے اگر ایک طرف اپنی شاعری میں عشق حقیقی اور اخلاقیات کے مضامین بیان کیے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے پشتون اتحاد اور پشتون ثقافت کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ ایک شعر کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:
ترجمہ: ”جب تک میں پشتونوں کو ایک مرکز پر جمع نہ کرلوں، اس وقت تک ہر قبیلے کے جرگے کے ساتھ جاؤں گا“۔
ترجمہ: ”اے میرے دل! تو قدم قدم رک کر آرام کرنے کا طالب ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سفر نے مجھے تھکا کر تیرے اوسان خطا کر دیے ہیں“۔
” جب بھی مرا کوئی آسرا نہیں رہتا، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تو میرا حامی و ناصر ہے۔
اے میرے محبوب کی بکھری زلفوں کے تصور! تو عقل اور عقل تیرے دل کے لیے لٹ بن گئی ہے۔
زندگی نے جب خاموشی کے مہر کو توڑا، وہیں سے اس کے لیے صدائے اجل بلند ہونے لگی“۔
[ترجمہ : مصطفی کمال]
غزل
رواں ہوں اپنی طرف اور نامہ بر بھی میں
میں مبتدا بھی خود اپنا ہوں اور خبر بھی میں
میں پانیوں کی طرح بے نیازِ ضرب رہا
کہ خود ہی زخم بھی، مرہم بھی، چارہ گر بھی میں
میں آپ جوہرِ گم کردہ آئینے کا ہوں
ہوں خود ہی محوِ نظارا بھی، بے بصر بھی میں
ازل کے خواب کو ہے انتظار صبحِ ابد
عیاں ہے یہ کہ رہا اپنا منتظر بھی میں
سپندِ دل مرا رقصاں ہے سوزِ الفت سے
بری نظر بھی ہوں میں، مجمر و اثر بھی میں
جہاں کے خواب میں گم ہوں مگر نہیں ہوں گم
میں آپ اپنی ہی منزل ہوں اور سفر بھی میں
سرابِ جاں بھی ہوں میں اور پائمال بھی آپ
تمام تشنہ دل لبوں کو ہوں رود تر بھی میں
[ترجمه: خاطر غزنوی]
انس خان روغانی
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب 2،موضوع: امیر حمزہ شنواری ( 1907- 1994ء)،کورس کوڈ: 5615،صفحہ: 57, 58،مرتب کردہ: سلمیٰ نور