موضوعات کی فہرست
اقبال اور تہذیب مغرب
علامہ اقبال کی ذہنی تشکیل
——–> تہذیب مغرب پر علامہ اقبال کی مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سا معیار تھا جس پر علامہ نے مغرب و مشرق کی تہذیب و تمدن کو پرکھا اور کہا:
——> شعر
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
——-> پھر اس بے ذوقی صہبا کو مہل نہیں رہنے دیا بلکہ اعلان کیا۔
——> شعر
- لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا ہے
- مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
——->اس بے ذوقی کا انجام اور مشرق کی بیماری کی مکی خفتہ در بطحا کہہ کر بیان بھی کر دی ظاہر ہے یہ حوالہ قرآن وسنت پر علامہ کی نظر کو واضح کرتا ہے۔
———-> قرآن حکیم خلافت ارضی کے لئے جن اعلیٰ اصولوں کو بنیادی حیثیت دیتا ہے وہ اس نے تخلیق آدم کی تمثیل کے ذریعے سمجھائے ہیں اور علامہ نے آدم کے حوالے سے کئی نظموں ( سرگذشت آدم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے اور تسخیر فطرت جیسی نظموں کا خصوصی مطالعہ ضروری ہے) میں اس طرف توجہ دلائی ہے۔
وہ اصول درج ذیل ہیں۔
-1– علم حقائق اشیاء
-2 باہمی مشاورت
-3 سجدہ خلافت ( اعتماد کا ووٹ )
4– عہد الست علامہ نے جاوید نامہ میں ( جو تہذیب کی حیات جاوداں کا نسخہ ہے ) محکمات عالم قرآنی کے تحت عنوان ان مبادی کو اس طرح ترتیب دیا ہے۔
{1} خلاف آدم
{2} حکومت الہیہ
{3} الارض اللہ اور حکمت خیر کثیر
——> جہاں تاریخ قرآنی (ایام اللہ ) ہمیں صالحین کو الہ پکڑنے فراعنہ ونماردہ کو رب الاعلیٰ تسلیم کرائے جانے سے آگاہ کرتی ہے وہاں وہ اس کے خلاف تحریک دعوت توحید کے ( نوح علیہ السلام سے قبل موسیٰ علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہ السلام کے خیمہ اجتماع سے لے کر :
——-> حناب طالوت کی پہلی آسمانی بادشاہت
حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت اور
——–> ریاست مدینہ کے بانی اول و آخر مغرض الطاعة اولی الامر منکم حضرت محمد ﷺ تک کے انتخابی وللفرامی اصول و قواعد سے بھی مفصلاً آگاہ کرتی ہے۔ علامہ کا تاریخی شعور اور قرآن وسنت پر ان کی گہری نظر نے ایک مفکر ومصلح کی حیثیت میں انہیں اس آئینے میں ساری دنیا کے نظامات و افکار کو پرکھنے کی جو صلاحیت بخشی وہ کم کم ہی کسی اور کو نصیب ہوئی ۔
——–> کعبۃ اللہ کو قبلہ بنانے کے احکامات علامہ اقبال نے ان کے عام معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ ایک دائمی ابدی معاشرتی تنظیم (ملت) کے حوالے سے ان کی جو جو تعبیریں کی ہیں وہ مغربی تصور قومیت و اجتماعیت ہی نہیں خود مشرقی مفکرین کے بعض افکار کو بھی پر کھنے کا غیر معمولی معیار بنتی ہیں ۔
قرآن حکیم نے لقد كان للهم في رسول الله اسوة حسنة كا اعلان کیا اور رسول اکرم ﷺ نے آخری خطبہ میں ان الزمان قد اقتدار على هيته يوم خلق السموات والارض بلا شبہ زمانہ پھر کر وہیں آرکا جہاں تخلیق سماوارض کو تھا ظاہر ہے زمانے کا حقیقی تصور آدم کی تخلیق اور خلافت ارضی کے مذکورہ بالا واقعہ ہی سے تھا خلافت آدم کے تمام اصول و مبادی جو طالوت و داؤ پر جزاء بروئے عمل آئے حضرت محمد ﷺ پر کاملاً پورے ہو گئے ۔
{1} ——> منشائے ربانی تھی کہ ارضی خلافت کسی کو سونپی جائے مقصد ذات باری تعالٰی کا عرفان تھا۔
فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق
——-> رب العالمین کی یہ منشاء آگے چل کر اولاد آدم کی ضرورت بن گئی قوم نوح نے اس ضرورت اجتماع کو ود سواع وغیرہ کو الہ پکڑ کر پورا کیا یہ بگاڑلادیوں، یہودیوں اور نصرانیوں میں علماء کو تائبین حق کے بطور کلی اقتدار و اختیار سو چنے تک جاری رہا۔
——–> حالانکہ اصول یہ تھا کہ حکومت جن کی ضرورت وہی حکمران کو نامزد کریں جیسا کہ اللہ نے آدم کو نا مزد کیا۔ قوم سموئیل کو بھی جالوت کے مقابلے کے لئے حکمران کی ضرورت پڑی مگر انہوں نے یہ ضرورت پیغمبر وقت کے ذریعے پوری کرتے ہوئے اللہ سے حکمران مانگا۔ یہ مامور من اللہ حکمران طالوت ملک کہلایا۔
2 ———> یہ مامور بن اللہ ملک باوجود اس کے کہ جالوت پر فتح پا کر تمام تر تبرکات موسیٰ ( دولت سکینہ ) واپس لانے میں کامیاب رہا چونکہ ورثہ الانبیاء نے اسے بپتسمہ ( ہر اعتماد و تصدیق) سے نہ نوازا تھا اس لئے مساؤل ( غیر قومی اور غاصب ) کہلایا۔ اس کے خلاف حکومت الہی کی بحالی کی تحریک چلی اور قتل کر دیا گیا
تا ہم اس کی جگہ پھر بھی نائبین حق نہ آسکے بلکہ طالوت کا ایک لشکری کو جس نے زرہ بنا کر جالوت پر غلبہ کو آسان بنایا ملا حظہ ہو علم حقائق اشیاء کی اہمیت خلیفہ بنا دیا گیا اللہ تعالیٰ نے اسے نبوت سے سرفراز کیا کر کے اس انتخاب کی توثیق کر دی اور خلیفہ (طالوت کا خلیفہ ) کہہ کر پکارا صدیق اکبر جس طرح خلیفہ الرسول کہلائے۔
3 حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام بر سر اقتدار آئے باوجود اس کے کہ نبی تھے اللہ نے ان کا شمار ملوک میں کیا ہے۔ حضور نے اپنے بعد کسی و نامزد نہ فرما کرعبداللہ ابن عمر کو حضرت عمر نے اپنے بعد خلافت کا امید وار نہ ہونے کا اعلان فرما کر
اور حضرت علی حضرت حسن کی بیعت کر لینے والوں کو لاامركم ولاالنهكم و انتم ابصر فرما کر اس تعلیم ربانی قرآنی کی تعمیل کی۔ حضرت امیر معاویہ نے یزید ابن معاویہ کا اپنے بعد تقرر فرما کر ملوکیت آغاز کی۔
4 ——> اہل یثرب کو بھی جنگ بعاث کی بھڑکائی ہوئی آتش نفرت سے نجات کے لئے سردار کے انتخاب کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے کسی غیر جاندار سردار کے انتخاب پر سوچ و بچار کیا اور تاج شاہی بھی تیار کر لیا تا کہ غیر جانبدار سردار عبداللہ ابن ابی کا انتخاب کر لیا جائے کہ اتنے میں کسی متوقع جنگ کی صورت میں حلیفوں کی تلاش انہیں قبیلہ بنو ہاشم کے محمد بن عبد اللہ کے پاس لے آئی ۔
آپ نے دعوت توحید دی تو وہ خوش ہوئے کہ یہی تو ان کے دکھوں کا مداوا تھا چنانچہ بیعت عقبہ ہوئی دوسری تیسری بیعت میں حضور سے یثرب آنے کا وعدہ لیا گیا اب مستقر چھوڑ نے کا شرعی عذر سرداران قریش نے مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنا کر بہم پہنچایا اہتمام محبت کے ساتھ اللہ نے ہجرت کا حکم دے دیا۔ آپ یثرب پہنچے اور مطاع تسلیم کر لئے گئے۔
عبداللہ ابن ابی کا سرتاج پوشی سے محروم رہا۔ عمر بھر اقتدار کی ہوس اسے مسلمانوں میں نفاق کے بیج ہونے پر مجبور کرتی رہی۔
5 ———> حضور نے میثاق مرتب کیا مسلم اور غیر مسلم فریق معاہدہ کے علیحدہ علیحدہ حصے مرتب ہوئے دونوں حصوں کی شق نمبر ا ایک لفظ ( لیکن بہت بڑے فرق کی نشاندہی کرنے ) کے فرق سے یوں تھی ۔
——–> مسلم حصہ اس معاہدے کے شرکا ء اہل ایمان اپنے تمام تنازعات اللہ اور محمد ﷺ کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہیں۔ غیر مسلم اپنے تنازعات اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہوں گے۔
مسلمانوں کے لئے صرف "محمد” اور غیر مسلموں کے لئے رسول لانا ایک اہم نکتہ ہے جو مسلمانوں کو محمد بحیثیت رسول اور محمد بحیثیت اولی الامیر ۔۔۔۔ کا مطیع و فرمانبردار رہنے کا حکم دیتا ہے.
6 ——-> حکمران کے انتخاب کے بعد مجلس مشاورت کا نمبر آتا ہے۔ چونکہ مشاورت باب مفاعلت سے ہے جس میں مشورہ دینے اور مشورہ لینے دونوں شامل ہیں اس لئے مجلس مشاورت بھی اولی الامرنھم کے منصب کی حامل اور انہیں شرائط سے مشروط ہو گی یعنی با قاعدہ اختلاف رائے کے اظہار کے بعد عوامی انتخاب سے قائم ہوگی اور منکم کی شرط لازم کا بھی لحاظ ہوگا ۔
مسلم مجلس مشاورت میں کسی غیر مسلم کی کسی طرح کوئی گنجائش نہیں نہ عہد رسالت میں نہ خلافت راشدہ میں کسی غیر مسلم کو مشیر بنایا گیا قرآن مجید کا حکم بھی واضح ہے۔ لا تتخذ والطان من دونكم لا يا لو نكم خيالاً
{ترجمه} : مومنو! اپنے سواکسی (غیر مسلم ) کو اپنا راز دار ( مشیر ) نہ بنانا وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھے گا۔
حواشی:
﷽(موضوع) اقبال اور تہذیب مغرب،کتاب کا نام || علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ -I،کوڈ کورس : 5613،صفحہ نمبر 134 تا 137،مرتب کرده… مسکان محمد زمان
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں