بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم،
عنوان: ساقی نامہ کی تشریح،
کتاب ۔بنیادی اردو،
کورس کوڈ ۔9001،
مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین۔
ساقی نامہ کی تشریح
اقبال کا ئنات کا حر کی تصور رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کا نکات ہر لحظہ بدل رہی ہے۔ کائنات کی فطرت ہی یہ ہے اسے ثبات نہیں۔ ہر ذرہ تڑپ رہا ہے یعنی حرکت کی حالت میں ہے۔ اقبال نے سائنسی نظریے کی توثیق کی ہے کہ کائنات کا ذرہ بھی تازو شان وجود رکھتا ہے۔ موت اس حرکت کا مر جاتا ہے۔ جب جمود طاری ہو جاتا ہے تو اشیا کو موت آجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال اور مغربی تہذیب کی بنیاد | PDF
ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی کسی راز میں پنہاں ہے، اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم تمام عمر زندگی کو سمجھتے رہتے ہیں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے ۔ کوئی زندگی کوموت کی تیاری کہتا ہے، کوئی زندگی کوصرف زندگی تک محدود سجھتا ہے۔ کوئی زندگی اور موت سے ماورا کیفیات کا نام زندگی سمجھتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ زندگی صرف آگے بڑھنے کا ذوق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال اور اردو نظم
جس آدمی میں زندگی میں بلند ۔ مقام حاصل کرنے کا ذوق ابھرتا ہے، وہ صحیح معنوں میں زندگی کا راز جان کیتا ہے۔ زندگی بہت سے تجربات سے گزرتی رہتی ہے۔ اس میں بلندی و پستی کا سامنا رہتا ہے۔ مگر وہی کامیاب رہتا ہے جس نے سفر اختیار کیا یعنی چلتا رہا کسی ایک جگہ رکا نہیں۔ اقبال سفر کوئی حقیقت کہتے ہیں۔ کسی مقام پر ٹھہر جانا سراسر نقصان دہ اور دھوکا ہے۔
جب زندگی موت کا سامنا کرتی ہے تو موت بھی زندگی کو قابو کرنے سے گھبراتی ہے۔ زندگی الجھ کر تڑپ کر مزے لیتی ہے۔ بے کاری اور کا ہلی زندگی کا حاصل نہیں۔ جب زندگی عمل کے لیے میدان میں اترتی ہے تو یہ موت سے ماورا ہونے لگتی ہے یعنی موت زندگی سے بھاگنے لگتی ہے۔ ایسے کئی افراد جن کی خودی ان پر آشکار ہے، وہ موت سے ماورا ہو جاتے ہیں۔
ان کا بدن مرتا ہے مگر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے زندہ رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاخ کبھی خشک نہیں ہوتی ، اگر اس شاخ سے پھول ٹوٹ جاتے ہیں تو اسی شاخ سے پھر
نئے پھول بھی نکل آتے ہیں۔ کچھ نادان لوگوں نے زندگی کو شاید یوں سمجھ لیا ہے کہ جب زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کا وجود دوبارہ کبھی نہیں عیاں ہوگا ۔ اقبال اس تصور کو فریب اور دھوکا قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی صرف اپنی شکل بدلتی ہے۔ جس طرح شاخ سے پھول پھوٹتے رہتے ہیں حتی کہ شجر بھی ختم ہو جا ئیں تو اس مٹی سے نئے شجر نکل پڑتے ہیں۔ زمانہ یعنی وقت کیا ہے یہ تو صرف سانسوں کے الٹ پھیر کا نام ہے۔
دوسرا حصہ
اقبال اس بند میں خودی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اقبال خودی کو انسان کی صلاحیتیوں کا ادراک کہتے ہیں۔ جس شخص کی خودی زندہ ہے، وہ اصل میں زندہ ہے۔ سانس لینا یعنی زندگی کو تلوار کہا جائے تو خودی تلوار کی دھار ہے۔ زندگی یعنی سانس لینے کا عمل خودی سے اپنے معنی یا مقاصد پاتا ہے۔
جیسے تلوار اپنی دھار کے بغیر محض لوہے کا ٹکڑا ہے اس طرح زندگی محض سانس لینے کا عمل رو جاتی ہے اگر اس کے پاس خودی نہیں ۔ خودی ہی زندگی کا راز ہے۔ خودی پوری کائنات میں بیداری کا پیغام ہے۔ یہ ایسا راز ہے جو سمندر ہو کے ایک بوند پانی میں بند کر دیا گیا ہے۔
خودی ازل یعنی جب کا ئنات تخلیق کی گئی، اُس وقت سے موجزن ہے اور اس دن تک موجود ہے جب کا ئنات ختم ہو جائے گی۔ ازل اور ابد کے درمیان اگر کسی چیز کا مستقل ظہور ہے تو وہ انسان کی خودی ہے۔
خودی ٹھہرنے والی چیز نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔جن انسانوں کی خودی آشکار ہو جاتی ہے، ان کے ہاتھوں پتھر بھی معمولی لگتے ہیں۔ خودی ہر رکاوٹ کو ختم کر دیتی ہے پہاڑوں تک کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔ خودی ازل سے کشمکش میں گھری ہوئی ہے۔ بالآخر انسان کے اندر اس نے جنم لیا۔
یعنی خدا نے خودی جیسے قوت کو انسان میں بھیجا۔ انسان کو اس قابل سمجھا کہ خودی کا ظہور ہو۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کے دل میں خودی کا مرکز رکھا گیا ہے۔ اقبال نے انسانی دل کو خودی کا مرکز بتایا ہے اس مرکز کی مثال انسانی آنکھ سے نظر آنے والے آسمان کی ہی ہے۔ جس طرح آنکھ سے آسمان کی وسعت نظر آرہی ہوتی ہے، اسی طرح دل میں خودی جیسی وسعت آمیز تخلیقی قوت سمٹ جاتی ہے۔
ساقی نامہ | |
ہُوا خیمہ زن کاروانِ بہار اِرم بن گیا دامنِ کوہسار گُل و نرگس و سَوسن و نسترن شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھُپ گیا پردۂ رنگ میں لہُو کی ہے گردش رگِ سنگ میں فضا نِیلی نِیلی، ہوا میں سُرور ٹھہَرتے نہیں آشیاں میں طیُور وہ جُوئے کُہستاں اُچکتی ہوئی اَٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اُچھلتی، پھِسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نِکلتی ہوئی رُکے جب تو سِل چِیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چِیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام! سُناتی ہے یہ زندگی کا پیام پِلا دے مجھے وہ میء پردہ سوز کہ آتی نہیں فصلِ گُل روز روز وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات وہ مے جس میں ہے سوزوسازِ ازل وہ مے جس سے کھُلتا ہے رازِ ازل اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے | |
زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ پُرانی سیاست گری خوار ہے زمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے گیا دَورِ سرمایہ داری گیا تماشا دِکھا کر مداری گیا گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے دلِ طُورِ سینا و فاراں دو نِیم تجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام! حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ اُمّت روایات میں کھو گئی لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب! بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہُوا لُغَت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہُوا وہ صُوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد محبّت میں یکتا، حمِیّت میں فرد عَجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے | |
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا! مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا مری خاک جُگنو بنا کر اُڑا خِرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پِیروں کا استاد کر ہری شاخِ مِلّت ترے نم سے ہے نفَس اس بدن میں ترے دَم سے ہے تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدّیقؓ دے جگر سے وہی تِیر پھر پار کر تمنّا کو سِینوں میں بیدار کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے مری ناؤ گِرداب سے پار کر یہ ثابت ہے تُو اس کو سیّار کر بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات مرے دیدۂ تَر کی بے خوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں مرے نالۂ نیم شب کا نیاز مری خلوَت و انجمن کا گداز اُمنگیں مری، آرزوئیں مری اُمیدیں مری، جُستجوئیں مری مری فطرت آئینۂ روزگار غزالانِ افکار کا مرغزار مرا دل، مری رزم گاہِ حیات گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر مرے قافلے میں لُٹا دے اسے لُٹا دے، ٹھِکانے لگا دے اسے! | |
دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شُعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دُود گراں گرچہ ہے صُحبتِ آب و گِل خوش آئی اسے محنت آب و گِل یہ ثابت بھی ہے اور سیاّر بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسِیر مگر ہر کہیں بے چگُوں، بے نظیر یہ عالَم، یہ بُت خانۂ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں کہ تُو مَیں نہیں، اور مَیں تُو نہیں من و تُو سے ہے انجمن آفریں مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں چمک اس کی بجلی میں، تارے میں ہے یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے اسی کے بیاباں، اسی کے بَبُول اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھُول کہیں اس کی طاقت سے کُہسار چُور کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور کہیں جُرّہ شاہینِ سیماب رنگ لہُو سے چکوروں کے آلُودہ چنگ کبوتر کہیں آشیانے سے دُور پھَڑکتا ہُوا جال میں ناصبُور | |
فریبِ نظر ہے سکُون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات ٹھہَرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت، حضَر ہے مجاز اُلجھ کر سلجھنے میں لذّت اسے تڑپنے پھٹرکنے میں راحت اسے ہُوا جب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا اُتر کر جہانِ مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں مذاقِ دوئی سے بنی زوج زوج اُٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج گُل اس شاخ سے ٹُوٹتے بھی رہے اسی شاخ سے پھُوٹتے بھی رہے سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات اُبھرتا ہے مِٹ مِٹ کے نقشِ حیات بڑی تیز جولاں، بڑی زود رس اَزل سے اَبد تک رمِ یک نفَس زمانہ کہ زنجیرِ ایّام ہے دَموں کے اُلٹ پھیر کا نام ہے | |
یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے، رازِ درُونِ حیات خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک ازل اس کے پیچھے، اَبد سامنے نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی سِتم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کِرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں یہ بے رنگ ہے ڈُوب کر رنگ میں اسے واسطہ کیا کم و بیش سے نشیب و فرازوپس و پیش سے اَزل سے ہے یہ کشمکش میں اسِیر ہُوئی خاکِ آدم میں صُورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے | |
خودی کے نِگہباں کو ہے زہرِ ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دُنیا میں گردن بلند فرو فالِ محمود سے درگزر خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام یہ عالم، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت یہ عالم، یہ بُت خانۂ چشم و گوش جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاک داں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے، تُو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیِ فکر و کردار کا یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار تُو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زِشت تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ، گُفتار زنگ فروزاں ہے سِینے میں شمعِ نفَس مگر تابِ گُفتار کہتی ہے، بس! ’اگر یک سرِ مُوے برتر پَرم فروغِ تجلّی بسوزد پَرم، |