اختر شیرانی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

اختر شیرانی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Akhtar Sherani ki shairi ka tanqeedi jaiza

نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat

اختر شیرانی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

اختر شیرانی نے 1905ء سے 1948ء 43 برس کی مختصر زندگی پائی ، مگر اس مختصر سی زندگی میں ہی انہوں نے اردو شاعری پر اپنا گہرا نقش چھوڑا ۔

وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے اور رومان ان کے مزاج میں رچا بسا ہوا تھا۔

ان کی نظموں میں عشق و رومان کی لطیف فضا نہیں ملتی ہے۔

اپنے وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے والہانہ لگاؤ بھی ان کی شاعری کی ایک خصوصیت ہے۔

ان کا ذکر شاعر رومان کے طور پر ہوتا ہے۔ ان کے کئی مجموعہ ہائے کلام منتظر عام پر آئے ۔

صبح بہار، اخترستان لالہ طور،
طیور آوارہ وغیرہ ان کے شعری مجموعے ہیں

جن میں بے شمار رومانی نظمیں ملتی ہیں انہوں نے حسن کی ہر تصویر میں رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔

” اے عشق کہیں لے چل‘ ان کی مشہور رومانی نظم ہے۔ اس میں انہوں نے خود کو پریم پجاری کہا ہے؟

ہم پریم پجاری ہیں تو پریم کیا ہے تو

پریم کنہیا ہے یہ پریم کی نیا ہے

یہ پریم کنیہا ہے تو اس کا کھوتا ہے

کچھ فکر نہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل

ان چاند ستاروں کے بکھرے ہوئے شہروں میں

ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی شہروں میں

ٹھہری ہوئی شہروں میں سوئی ہوئی لہروں میں

اے خضر حسیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل

یہ درد بھری دنیا بستی ہے گناہوں کی!

دل جاگ امیدوں کی سفاک نگاہوں کی!

ظلموں کی ، جفاؤں کی ، آہوں کی ، کراہوں کی!

میں تم سے حزیں لے چل اے عشق کہیں لے چل

اس نظم کا ڈکشن قابل غور ہے۔ چاند ستاروں کا بکھرا ہوا شہر، نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی لبہر، بھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہر ، خضر حسیں ، گناہوں کی بستی ، ان سب میں ایسی امیجری ہے جو شاعر کو راہ فرار کی طرف لے جاتی ہے۔

کنہیا کی تلمیح لا فانی اور بے لوث عشق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

انہوں نے اس نظم میں عشق کے وسیلے سے معاشرتی برائیوں ظلم و ستم اور مایوسی و اناامیدی کا اظہار کیا ہے۔

اس طرح نظم میں عصری حسیت ہوتے ہوئے بھی عشق و رومان کے نرم غلاف میں لپٹی ہوئی ہے۔

ان کی ایک اور نظم "او دیس سے آنے والے بتا” میں بھی انہوں نے ہندوستانی ثقافت، موسم اور سادہ زندگی کا ذکر بڑے ہی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔

اس نظم کے ہر بند میں سوال ہیں جو پردیش میں بسے ہوئے انسان کے دل میں اپنے وطن کے متعلق اٹھتے ہیں:

کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں

مستانہ ہوائیں آتی ہیں؟

کیا اب بھی وہاں کے پر بت پر

گھنگھور گھٹائیں آتی ہیں؟

کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں

ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں

او دیس سے آنے والے بتا

کیا گاؤں میں اب بھی ساون پر

برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں؟

معصوم گھروں سے بھور بھئے

اختر شیرانی کے مزاج میں ہندوستان کی مٹی کی سوندھی خوشبو بسی ہوئی تھی۔

انہیں اپنے وطن کے ذرے ذرے سے پیار تھا۔ یہاں کے گیت ، یہاں کے باغوں کے جھولے، چکی کی صدائیں، بچھڑی ہوئی سکھیوں کا گیت، برسات کی بہاریں، گھنے جنگلوں کی منہ زور ہوائیں ، آم کے باغات ، ندی، پہاڑ وغیرہ اختر شیرانی کے دل میں عشق اور رومان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

وہ زندگی کے تلخ تجربوں اور معاشرے کے دکھ درد کو بھی رومان کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کرنے کے قائل ہیں۔

اختر شیرانی کی نظم ” وادی گنگا میں ایک رات” میں وہ گنگا کے حسن اور اس کے ساحل کے نظاروں کو بڑے ہی خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں:

کرتے ہیں مسافر کو محبت کے اشارے

اے وادی گنگا ترے شاداب نظارے

یہ بکھرے ہوئے پھول یہ نکھرے ہوئے تارے

خوشبو سے مہکتے ہوئے دریا کے کنارے

مہتاب ہے یا نور کی خوابیدہ پری ہے

الماس کی مورت ہے کہ مندر میں کھڑی ہے

مرمر کی صراحی مئے رنگین سے بھری ہے

اور تیرتی ہے تیل کی موجوں کے سیارے

غرض اختر شیرانی کے یہاں فطرت اور رومان نے مل کر ایک خواب آور فضا کی تخلیق کی ہے۔

ان کے استعارے لفظیت اور پیکر ان کی رومانی نظموں کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں