اختر حسین جعفری کی نظم نگاری کی خصوصیات

اختر حسین جعفری کی نظم نگاری کی خصوصیات

ایسا ہونا بھی ! کار دارد ہے
جیسے اختر حسین جعفری ہیں
ظفر معین بلے جعفری

دنیائے سخن کا بے تاج بادشاہ جو آج بھی بحکم تعالیٰ اپنے حسن فکر کی بدولت زندہ ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ اختر حسین جعفری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ معتبر شخصیت فن کی دنیا میں مزید روشنیاں بکھیرنے 15 اگست 1932ء کو جلوہ افروز ہوئے۔

انھوں نے شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی ہر طرف تہلکہ مچا دیا اور اسی بنا پہ انھیں بلا مبالغہ بیسویں صدی کا غالب کہا جاتا ہے۔
انھیں ان کے عظیم شعر پاروں کی وجہ سے 2002ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی دیا گیا ۔۔اس کے علاوہ ان کی کتاب آئینہ خانہ کو بھی آدم جی ادبی ایوارڈ دیا گیا۔
اختر حسین جعفری نے مشرق و مغرب کے جن بزرگ شعرا کی ہنرمندی، فکری صلابت اور قوت متخیلہ کا ذکر کیا ہے وہ غالباً خود ان کی شاعری کے تخلیقی مثلث کے اجزائے ترکیبی ہیں۔
ان کے مجموعہ آخری اجالا کے حوالے سے دیکھا جائے تو ”آخری اجالا “ دراصل کلیات اختر حسین جعفری کا نام ہے۔ اس میں انھوں نے کلیوں کے چٹخنے سے لے کر انسانی جذبات کو ایک منفرد لے سے روشناس کیا۔اس مجموعے کی وساطت سے حقیقتاً ہر طرف چمکتے دمکتے جگنوؤں سے اجالا ہوتا نظر آتا ہے۔ اس میں انھوں نے وطن کی محبت،انسانی مسائل اور فکری تناسب کو مد نظر رکھا ہے۔
کلیات سے پہلے ان کے دو خوبصورت شعری مجموعے ” آٸینہ خانہ “ اور “جہاں دریا اترتا ہے ” زیور طباعت سے آراستہ ہوکر کاغذی پیرہن میں سامنے آٸے ۔ یہ تینوں شعری مجموعے جدید اردو ادب کا گراں مایہ سرمایہ ہیں ۔
ان کے شعری مجموعے جہاں دریا اترتا ہے،سے چند اشعار ملاحظہ ہوں جس میں انھوں نے لفظوں کی جادو گری سے سماں باندھتے ہوئے قوت متخیلہ کی حد کر دی۔ ”

سرشکِ خوں، رُخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ
نکلتا ہے

ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوانِ سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سُولی پر پیمبر بات کرتے ہیں

مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا
مِرے چشموں میں شورِ آب یکجا بر شگالی ہے
ندی مقروض بادل کی
میرا دریا سوالی ہے
رگِ حرفِ زبوں میں جو چراغِ خوں سفر میں ہے
ابھی اس نقطہً آخر کے زینے تک نہیں آتا
جہاں جلّاد کا گھر ہے
جہاں دیوارِصبحِ ذات کے رخنے سے نگہِ خشمگیں
بارُود کی چَشمک ڈراتی ہے
جہاں سُولی کے منبر پر پیمبر بات کرتے ہیں (1

ان کی شاعری فکر تک رسائی سے پہلے ان کی زبان کی تفہیم اور فنی باریکیوں کو بہرطور سمجھنا ضروری ہے۔
انھوں نے اپنی شاعری میں علامتوں کے ساتھ ساتھ محاورات کا بر محل استعمال کیا ہے ۔بادی النظر ،زبان کلاسیکل ہے لیکن اس میں موجود معنویت کلاسیکیت سے قطعی ہٹ کر ہے ۔اس ضمن میں احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ

اختر حسین جعفری اپنی علامتوں کا انتخاب اپنی ہی تاریخ و تہذیب ،
اپنے ہی عقائد و نظریات سے کرتا ہے۔اس کے لیے اسے سمندر
کو پار نہیں کرنا پڑتا ،جو کچھ ہم پر گزر چکا ہے اور جو گزر
رہا ہے،وہی اختر حسین جعفری کی علامتوں کا ذخیرہ ہے۔2

اس کا عکس ان کی نظم آئینہ خانہ میں دیکھا جاسکتا ہے جیسا کہ

حرف جگانا جگائیں حرف کو خواب سفر سے اور پوچھیں
خشت اٹھانا اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
خود اپنے آپ سرکتی فصیل ذات کی خشت خشت سرکنا
خوشبو کشید کرنا وہ روشنائی‘ وہ خوش بوئے غم کشید کریں
راکھ سجنا سجی ہے کون سی نوک مژہ پہ ابر کی راکھ
رحم کے سکے گرنا گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر
سمندر چھاننا صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
خود اپنے آپ قدم چھوڑتی زمین فرار قدم چھوڑنا
قدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا قدم کھیچنا(3

صاحب نظم اختر حسین جعفری کے ہاتھوں میں لفظ کھلونے کی سی حیثیت رکھتے ہیں ۔۔ان کے لفظوں کی بدولت ان کی فکر تک رسائی پانا گویا اپنا ذہنی زنگ اتارنا ہے۔ اپنے عہد کے جبر اور تشنہءتکمیل آرزوں‘ خواہشوں اور ضروتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ زندگی کے جمود کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ سوال درحقیقت زندگی کو رستہ دکھاتے ہیں اور سوچوں کے عمل کو متحرک رکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں تکرار لفظی کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔۔ان کی بدولت ایک نئی ترنگ اور موسیقیت دیکھنے کو ملتی ہے۔۔اس حوالے سے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

اسی کے نام کٹری دوپہر میں جلتے بدن
اسی کی نذر بجھے حوصلوں کی مزدوری
اسی کی نذر قلم‘ حاشیے‘ سیاق و سباق
اسی کے نام یہ تعویز نا فرستادہ
اسی کی نذر فرد رفتہ زمیں باغات
اسی کی نذر رکی آب جو‘ تہی دریا

ان کی شاعری اور نظریات میں انسانیت کا دکھ ایک بلیغ استعارہ ہے۔اس میں انھوں نے انسانیت کو بطور فیشن لینے کے بجائے ان کی باطنی اقدار کو موضوع بحث بنایا ہے ۔وہ کم سنی سے ہی ترقی پسند نظریات کے حامی تھے لیکن اس سے ناواقف ہونے کی وجہ سے کوئی باقاعدہ راہ متعین نہ کر سکے۔فطرتاً انسان دوست ہونے اور اپنے ارد گرد مثبت تبدیلیاں دیکھنا پسند کرتے تھے ۔وہ اپنی شاعری کے حوالے سے خود لکھتے ہیں کہ
بادلوں کے نام زمین کا یہ مکتوب ان دعاؤں ،التجاؤں،شکایتوں
اور حکایتوں پر مشتمل ہے زمین جسے ہوا،ستارے،لمحہ لمحہ
سوکھتے ہوئے سمندروں ،پھٹے بادبان،خالی مکان،پیوند لگی اور
طلوع ہوتے ہوئے آفتاب اور گہنائے ہوئے مہتاب سے لکھواتی
اور انہی نامہ بروں سے جواب میں تاخیر پر گلہ مند ہوتی ہے۔4)

جعفری صاحب نے اپنی نظموں میں ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی کی بجائے ایسا ادب تخلیق کیا جو عصری مسائل اور تقاضوں کو موضوع بحث بناتا ہو۔انھوں نے جدید نظم نگار ہونے کا ثبوت اس وقت دیا جب انھیں اپنے معاشرے میں سیاسی دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی نظم "میں غیر محفوظ رات سے ڈرتا ہوں” میں انھوں نے بے شمار تلمیحات ،استعارات اور علامات کے ذریعے سیاسی جبر کو صفحہ قرطاس کیا۔۔چند نمونے ملاحظہ ہوں:-

رات کے فرش پر
موت کی آہٹیں
پھر کوئی در کھلا
کون اس گھر کے پہرے پہ مامور تھا
کس کے بالوں کی لٹ
کس کے کانوں کے در
کس کے ہاتھوں کا زر
سرخ دہلیز پر قاصدوں کو ملا ؟
کوئی پہرے پہ ہو تو گواہی ملے
یہ شکستہ شجر
یہ شکستہ شجر جس کے پاوں میں خود اپنے سائے کی موہوم زنجیر ہے
یہ شکستہ شجر تو محافظ نہیں
یہ شکستہ شجر تو سپاہی نہیں
شب سے ڈرتا ہوں میں 5
جعفری صاحب نے جدید اردو نظم کے حوالے منفرد اسلوب اور تاثر پیش کیا ہے۔ان کی نظموں میں بناوٹ اور تصنع کی بجائے تخلیقی قوت غالب ہے۔یہ چھوٹی چھوٹی لہروں سے آگے بڑھتی سمندر کا روپ دھار لیتی ہے۔انھوں نے ارتقائی سفر طے کرتے اپنی شاعری کو تخلیقی معنویت اور اعلی بصیرت بخشی ہے۔اس حوالے سے ان کی ایک نظم ہے جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے ایک بڑی تصویر بناتی ہے۔اس میں ان پر لگایا گیا مشکل پسندی کا الزام رد ہوتے ہوئے سادگی کی واضح تصویر اختیار کر جاتی ہے ۔نظم کا عنوان "فیصلہ صبح کرے”:
رات، تصویر، منتشر چہرہ
چھت گری ہے کہ آئنہ ٹوٹا
کوئی پتھر ہوا کے ہاتھ میں تھا
راستہ خود ہو رہنما جیسے
تیز قدموں سے یوں چلا جیسے
اندھا لاٹھی میں آنکھ رکھتا تھا
باغ، جلسہ، افق افق نعرہ
شور، تقریر، قہقہہ، نوحہ
چاند شاید ابھی نہیں نکلا
بلب، فٹ پاتھ، ٹیلیفون کے تار
جسم جیسے پڑھا ہوا اخبار
بورڈ پر نرخ، کان میں جھمکا
چائے عورت کے رنگ سی کالی
بیرا، ہوٹل، غلیظ سی گالی
صاف وردی میں جسم میلا تھا
شیشہ و سنگ جوہری کی دکاں
بند شو کیس، قید روشنیاں
قفل، زنجیر، آہنی پہرا
کذب، دعوے، حقوق، سچائی
ہاتھ خنجر، محاذ آرائی
صبح ہوگی تو فیصلہ ہو گا6 )
آخر میں مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو اختر حسین جعفری کی نظموں میں موضوعاتی گہرائی ،آزاد تلازمہ کا عکس،علامتی اسلوب،،آزادنظم کا استعمال،فطرت کا جمالیاتی استعمال ،احترام آدمیت،فلسفیانہ فکر،جذبات کی عکاسی اور انقلابی سوچ جیسی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔اختر حسین جعفری نے حقیقی معنوں میں جدیدیت کو فروغ دیا۔ان کی بیش بہا نظمیں ان کے عہد ،ان کے تخیلاتی فکر اور نظریہ محبت کو اجمالی صورت میں کو واضح کرتی ہیں۔ان کا جدید اور آفاقی طرزِ تحریر انھیں ہر عہد میں زمرہ رکھے گا ۔جیسا کہ ڈاکٹر محمد حسن بیان کرتے ہیں کہ:
نظم اشعار کا وہ بامعنی سلسلہ ہے جو کسی ایک
مرکزی تاثر کو پیش کرتا ہے،اور جس میں
احساس یا فکر کا تسلسل پایا جاتا ہے۔7)
تو بالکل ایسا ہی مرکزی تاثر جعفری صاحب کی نظموں میں پایا جاتا ہے جو ان کی مقبولیت کو اوج کمال تک لے گیا۔فن کی منازل طے کرتے
کتابیات :-
منور جمیل ،منتخب شاہکار نظموں کا البم،صفحہ نمبر384۔
قاسمی،احمد ندیم،فلیپ: "آخری اجالا”،از اختر حسین جعفری ،ص 11 12۔
اختر حسین جعفری،کلیات آئینہ خامہ
اختر حسین جعفری ،زمین کا اولین مکتوب،مشمولہ :آخری اجالا ،ص 36۔
اختر حسین جعفری ،آئینہ خانہ ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز،1981،ص،57,58۔
اختر حسین جعفری ،آخری اجالا ،ص 172،174۔
محمد حسن،پروفیسر،”اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ”،نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،1998،ص201۔

نام : شہر بانو بنت ظہور احمد
پتہ:ذین العابدین سکوئر مخالف ہائر سکینڈری پائلٹ سکول پھالیہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں