اردو زبان کا آغاز و ارتقاء ۔۔
مختلف نقادوں کے مختلف نظریات۔۔۔
عین الحق فرید کوٹی کا نظریہ۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔ تاریخ اردو ادب کوڈ۔۔۔5601
پیج۔۔۔۔53…..54.
عین الحق فرید کوٹی کا نظریہ
عین الحق فرید کوئی نے مندرجہ ذیل مثال سے مختلف زبانوں کا اشتراک واضح کیا ہے۔
پنجابی ڈھوک ، جھوک : پانی کے ذخیرے کے کنارے آباد گاؤں سندھی۔ جھوک : پانی کے ذخیرے کے کنارے آباد گاؤں
پشتو ۔ ڈاگ ڈاگر ڈاگی ، ڈھکی ندی نالہ، جھیل یا ان کے کنارے آباد گاؤں بلوچی ڈو کو ڈھاکہ ڈھاک ، جھوک : ندی نالہ ، چشمہ یا ان کے کنارے آباد گاؤں براہوی : ڈیک پانی ندی نالہ وغیرہ۔
اردو زبان کی قدیم تاریخ سرورق کی پشت پر دیا گیا نقشہ )رشید اختر ندوی کی ایک دلچسپ تحقیقی کتاب ہے۔ پاکستان کا قدیم رسم الخط اور زبان (اسلام آباد : 1995ء) اس میں انہوں نے مغربی ماہرین لسانیات کے شواہد کی بنا پر دراوڑی کے بارے میں لکھا ہے۔
رگ وید میں ڈراویڈی الفاظ کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہے کہ ان دنوں ڈراویڈی شمال مغربی ہند میں موجود تھے اور بروہی زبان آج بھی شمال مغربی ڈراویڈی زبان کےنمائندہ ہے۔” (پاکستان کا قدیم رسم الخط اور اردو زبان اسلام آباد 1995ء ، ص : 225)رشید اختر ندوی بلوچستان میں آباد بروہی نسل کی زبان کے بارے میں لکھتے ہیں :
"علمائے کسان کا خیال ہے کہ بروہی قبیلہ جب سے بلوچستان کے اس پہاڑی حصہ میں ایران سے آکر آباد ہوا تھا تو ان کے اور یہاں کے اصل آباد کاروں ڈراویڈی قبائل میں حد درجہ خلط ملط ہوا تھا اور یہ زبان اس اختلاط کی پیداوار ہے اور امتداد زمانہ کے باوجود اپنے حسب و نسب سے خاصی مضبوطی کے ساتھ چپکی رہی ہے”۔
(پاکستان کا قدیم رسم الخط اور اردو زبان اسلام آباد 1995ء ص : 225)عین الحق فرید کوٹی نے اپنے ایک نظریہ کی تائید میں منڈا دراوڑی ، پنجابی اور اردو کے ساتھ ساتھ تامل، ملیالم وغیرہ کے مشترک الصوت اور ہم معنی الفاظ کی فہرست مرتب کی ہے (صفحات 104 تا 121)واضح رہے کہ منڈا قبائل کوئی چھ ہزار برس قبل پنجاب اور سندھ کے علاقہ میں آباد تھے۔
ہم اردو لسانیات کے دو شعبے کر سکتے ہیں ایک وہ شعبہ جس کے بموجب اردو کا آغاز کسی مخصوص جغرافیائی خطر سے مخصوص قرار دیا جاتا ہے چاہیں تو اسے کلاسیکی لسانیات یا قدیم لسانیات بھی کہہ لیں جبکہ اس کے بر عکس جدید لسانیات میں اردو کے آغاز کا مسئلہ جغرافیہ کے بر عکس قدیم تاریخ اور علم الانسان کی تناظر میں طے کیا جانے لگا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ نظریہ سازوں کا ماضی میں سفر انہیں عہد عتیق میں لے گیا۔ اس لسانی جستجو کا اختتام کہاں ہوگا ؟ شاید قبل تاریخ کے اس عہد میں جب انسان نے اپنی محدود زندگی کی محدود تر ضروریات کے لئے گفتی کے چند الفاظ ہی سیکھے ہوں گے ابھی اس نے لفظوں کے ہار گوندھنے نہ سیکھے تھے۔