موضوعات کی فہرست
احمد ندیم قاسمی کا تعارف اور سوانح
احمد ندیم قاسمی ۲۰ نومبر ۱۹۱۶ء کو وادی سون سکیسر کے ایک گاؤں انگہ ، خوشاب ( پنجاب ) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ قاسمی کے والد کا نام پیر غلام نبی اور والدہ غلام بی بی تھیں ۔ احمد ندیم قاسمی نے ادب اور صحافت دونوں میدانوں میں گراں قدر خدمات پیش کیں ۔ ترقی پسند تحریک کے سیکرٹری بھی رہے۔ ان کو حق گوئی کی پاداش میں دو مرتبہ جیل کی سزا ہوئی۔
احمد ندیم قاسمی معروف ادبی "فنون” کے بانی مدیر تھے۔ اس کے علاوہ تہذیب نسواں، ادب لطیف اور بچوں کے رسالے پھول کے مدیر بھی رہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور اور دہلی سے بھی وابستہ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: میرے ہمسفر (سوانحی خاکے) احمد ندیم قاسمی | PDF
صحافت کے میدان میں احمد ندیم قاسمی کی نمایاں خدمات رہیں۔ وہ روزنامہ امروز کے ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ جنگ میں حرف و حکایت اور روز نامہ حریت میں فکاہیہ کالم موج در موج کے نام سے لکھتے رہے۔ قاسمی کے کالموں کا ایک انتخاب کیسر کیاری کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے مختلف اصناف ادب میں لکھا۔ آپ نے افسانے کے علاوہ نظم، غزل اور ڈرامے لکھے۔
یہ بھی پڑھیں: ندیم کی غزلیں، احمد ندیم قاسمی | PDF
بحیثیت شاعر بھی آپ بہت توانا تھے ، مگر بحیثیت افسانہ نگار آپ ایک منفرد پہچان کے حامل ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعوں کی تعداد ١۷ہے، اس کے علاہ دو ناولٹ "پت جھڑ "اور” اس راستے پر” شائع ہو چکے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے کچھ افسانوی مجموعوں کے نام حسب ذیل ہیں: چوپال، بگولے، طلوع و غروب ، گرداب، سیلاب، آنچل ،آبلے، آس پاس، درو دیوار ،سناٹا، بازار حیات، برك حنا، گھر سے گھر تک، نیلا پتھر، کپاس کا پھول، کوہ پیما اور پت جھڑ۔
اب ہم ذیل میں قاسمی کی کہانیوں کے فن اور فکر کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
احمد ندیم قاسمی کو پنجاب کی دیہی زندگی کا عکاس افسانہ نگار کہا جاتا ہے۔ قاسمی کا بچپن اور لڑکپن اپنے گاؤں "انگہ” خوشاب میں گزرا۔
یہ دور ان کے شعور اور لاشعور میں ایسا محفوظ ہوا کہ ان کے افسانوں میں دیہی زندگی کے مناظر اور رنگ، طرز معاشرت ، دیہاتیوں کی معصومیت ، طبقاتی کشمکش اور رسم و رواج سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
بڑا ادیب اپنے آپ کو کسی خاص مقام اور وقت تک محدود نہیں رکھتا۔
وہ اپنے عہد کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے مگر اس کا فن اور پیغام آنے والے زمانوں کے لیے بھی ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب فنکار نے فنی لوازم پر بھی بھر پور توجہ دی ہو۔ یہی سبب ہے کہ قاسمی کے افسانے ہم دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
قاسمی کی بڑی خوبی ان کی پنجاب کی ثقافت اور انسانی نفسیات سے گہری شناسائی ہے۔ وہ انسانوں کو محض اچھے اور برے میں تقسیم کر کے نہیں دیکھتے۔
انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ تاہم مجموعی طور پر قاسمی کی کہانیوں میں خیر کا پہلو حاوی رہتا ہے۔ دیہی زندگی میں نام نہادانا کے باعث معمولی جھگڑے قتل و غارت میں بدل جاتے ہیں مگر قاسمی کی کہانیوں میں سخت سے سخت دل انسان میں بھی رحم اور محبت کے جذبات کسی نہ کسی طرح اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔
قاسمی زندگی کی رنگا رنگی اور تنوع دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے پڑھ کر قاری کے دل میں زندگی اور انسان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
تقسیم ہند کے موقع پر پھوٹنے والے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ادب کو اصطلاحاً "فسادات کا ادب” کہا جاتا ہے۔
اس دور کے لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں شاید ہی کوئی ہو جس نے کسی نہ کسی طور پر اس المنا کی کا ذکر نہ کیا ہو۔ انسانیت سوز مظالم کی یہ داستانیں ادب میں محفوظ ہوگئی ہیں۔ اس موضوع پر لکھنا آسان نہیں ۔ اس میں کئی طرح کی مشکلات ہیں۔
اول یہ کہ افسانہ نگارسستی جذباتیت کا شکار ہو سکتا ہے ، دوم یہ کہ فنی لحاظ سے افسانہ کمزور ہو سکتا ہے ، سوم وہ جانبدار ہو سکتا ہے۔ اس کڑے پیمانے پر اردو میں فسادات کے موضوع پر چند ہی افسانے پورا اتر پائے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا پرمیشر سنگھ ان کامیاب افسانوں کی فہرست میں شامل ہے۔
پروف ریڈنگ:شمیم اشفاق
حواشی
موضوع:احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام:بنیادی اردو
کورس کوڈ:9001
مرتب کردہ:اریبہ فاطمہ