افسانچہ فرقت
خوشی تو بہت تھی کہ فرقت کے یہ دن ختم ہونے والے تھے ، ماں کی ممتا ٹھنڈی ہونے کو تھی۔ آخر وہ خوش کیوں نہ ہوتی کہ اس کا لخت جگر ،نور نظر ، اس کےلیے تو یہی تھا شمس و قمر ، اس کے اکلوتے بیٹے کی اکلوتی نشانی۔ دیدہ یعقوب لیےسال سے منتظر ہے کہ پوشاک یوسف نہیں لختِ یوسف آئے گا۔وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں ہر چیز کے بچوں کی بہت قدر کرتی تھی۔اسے علم تھا کہ کھونا کتنی اذیت ہے۔ایک کمرہ ایک ڈائنگ ٹیبل اور ایک چارپائی بڑا سامان تھا۔ چند جوڑے کپڑوں سے اس کا گزربسر تھا مگر شکوہ روز و شب تو اسے تھا ہی نہیں بلکہ ایک رمق تھی جو جینے کا سہارا تھی۔ یہی سبب تھا کہ وہ پانی پینے کو جگ ہمیشہ دروازے کے ساتھ رکھتی تھی۔تاکہ نظریں رستے سے نہ ہٹنے پائیں۔ آج دن تھا ، آمد کا وہ صبح سے منتظر تھی ابن یوسف کب پہنچے گا۔اسی انتظار میں تمام گھر کو صاف کیا ، ناتواں ہاتھوں سے جھاڑوں دیتے ہوئے تین بار جھکی کمر کو سیدھا کیا اور اس کی تصویر دیکھی۔یوسف کی شادی کی تصویر ، کھانے کے لیے دیوار پہ لٹکے چھابے کو اتارنا تھا مگر وہاں تک ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ منتظر تھی کہ بہو آئے گی ، تو اتارے گی۔ دیسی گھی کا لوٹا جس کا منہ موٹے کپڑے کی دوتہوں سے ڈھانپ کے باندھا تھا اسے دو بار جھاڑا کہ اس مٹی کے برتن پہ گرد کہیں بری نہ لگے۔ آج ناتواں ہاتھوں میں طاقت پہلے سے زیادہ تھی اور نظریں بھی دروازے سے نہیں ہٹنے والی نہیں تھیں۔ کمرے میں چوزے پھر رہے تھے مگر بچے تھے تو انھیں باہر نکالنا اس کے بس کی بات نہ تھی کیوں کہ اس کا بیٹا بھی تو باہر تھا ، پر واپس نہ آیا۔ یہی انتظار پہلے یوسف کا ہوتا تھا اور آج ابن یوسف کا ہے۔ پر اب تھک چکی تھی عمر ، طاقت اور حوصلہ سب نے اسے الوداع کہنے کی ٹھان لی پر اچانک آواز آئی نہیں چل کے جاؤں دادی کے پاس وہیں جھاڑو پھینک کے موڑتی ہے اور ماں کے ہاتھوں کے سہارے چلتا اسے یوسف ہی دیکھائی دیا جسے وہ ایسے چلاتی تھی۔ آنکھوں سے آنسوں بہ کے زمیں پہ گرتا ہے اور وہ بازو پھیلائے اسے گلے لگانے کو آگے بڑھتی ہے۔کھلے بازوؤں ابن یوسف کا لمس پاتے ہیں اور سانسیں۔
(مصنف کے بارے میں: کالم نویس اور افسانچہ نگار عنایت اللہ کلیرا، ایم فل اردو یونی ورسٹی آف لاہور)
ناول ‘ایمن’ از محمد عمران شاہ(دور جدید کا عکاس ناول)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں