افسانہ "فیصلہ” طاہر سجاد

افسانہ "فیصلہ” طاہر سجاد | Afsana: "Faisla”Az Qalam Tahir Sajjad

افسانہ "فیصلہ” طاہر سجاد

وہ لکڑیاں اٹھانے کا کہہ کر چھوٹے صحن کی طرف چل دی۔۔۔۔
آج میں اسے قتل کر دوں گی۔۔۔۔
نہیں یہ غلط ہے۔۔۔۔
یہ زندہ رہنے کا حق دار نہیں ہے۔۔۔۔
لیکن پھر بھی میرا سہاگ ہے ۔۔۔۔۔
آگ لگے ایسے سہاگ کو جس کے ساتھ ہر لمحہ اذیت ہو ۔۔۔۔
کہاں جاؤ گی؟ماں باپ مر چکے ہیں اور بھائیوں کا کیا بھروسہ ؟
مگر میں اس ظالم کے ساتھ نہیں رہوں گی،نہیں رہوں گی ،نہیں رہوں گی۔۔۔۔
اپنے آپ سے لڑتی ہوئی وہ لکڑیاں اٹھانے کی بجائے اس بڑے کمرے میں پہنچ چکی تھی جہاں پچاس من دانے ایک ڈھیر کی شکل میں پڑے تھے۔دروازے کے سامنے والی دیوار میں لگی الماری پہ اس نے اپنا ماتھا ٹکا دیا گویا الماری نے اسے گرنے سے بچا لیا ہو ۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی اس کے جسم سے آزاد ہو جائے گا۔کانپتے ہاتھ اس نے کنڈی پر رکھے اور اپنا پورا زور لگا کے کنڈی کھول لی۔
چرررررررر کی آواز سے الماری کا دروازہ کھلا اور اس آواز سے ڈرنے کی وجہ سے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور دانوں میں رکھنے والی زہریلی گولیوں میں سے دو گولیاں اٹھائیں انہیں اپنے دوپٹے کے کونے سے باندھا اور باہر کی طرف بھاگی ۔
نفیسہ نے جلدی سے صحن میں پڑی لکڑیاں اٹھائیں اور باورچی خانے کی طرف چل دی ۔
آج میں آزاد ہو جاؤں گی ۔۔۔
پاگل مت بنو۔۔۔
مجھے اس نے پاگل کر دیا ہے ،میں اس خونخوار کو سلا دوں گی۔۔۔
شوہر ہے وہ تمہارا،تمہارے پانچ بچوں کا باپ بھی ہے۔۔۔۔
بس آج آزاد ہو جاؤں گی۔۔۔۔
زوہان ابھی صرف چھے ماہ کا ہے۔۔۔
آزادی۔۔۔۔۔
آج آزاد۔۔۔۔
مجھے کیا ہوگا؟کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ان خیالوں میں گم لکڑیاں اٹھائے وہ کب باورچی خانے میں داخل ہوئی اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔۔
"امی”
بارہ سالہ عروہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ چونکی۔
امی اتنی دیر کیوں لگا دی؟ ابو تین بار آپ کو بلا چکے ہیں۔
کیوں ایسی کیا قیامت آگئی تھی؟بتا دیتی کہ لکڑیاں اٹھانے گئی ہے۔
بتایا ابو کو ،ڈانٹ دیا ابو نے مجھے،آپ کو بھی گالیاں دیں۔
عروہ کے رخساروں سے نیچے گرتے آنسو نفیسہ کے کلیجے کے آر پار ہوگئے۔۔
آج کے بعد نہیں ڈانٹ سکے گا،نفیسہ بڑبڑائی۔۔
جی امی؟عروہ نے کہا
کچھ نہیں ،تم جاؤ منے کے کپڑے دھو کے رسی پہ ڈالو بڑے کپڑے میں خود آ کے دھو دوں گی۔
عروہ کے جانے کے بعد وہ رشید کے کمرے کی طرف چل دی۔
ملک صاحب !!!!
ملک صاحب!!!!
ملک رشید عرف شیدو ٹوٹے ہوئے بازو اور فریکچر زدہ ٹانگ کو تکیے پر رکھے سو گیا تھا۔زمین کے تنازعے میں مخالفین نے اس کی خوب درگت بنائی تھی اور ایک ٹانگ اور ایک بازو توڑ دیا تھا۔ شاید دوائیوں میں ڈاکٹر نے نیند کی گولی بھی لکھ دی تھی جس کی وجہ سے اسے نیند آگئی تھی۔وہ واپس باورچی خانے آئی ۔آگ سلگا کر اس نے چولہے پر دودھ کی دیگچی چڑھا دی اور خود ایک بار پھر خیالوں کی دنیا میں کھو گئی۔۔۔
آگ کے شعلے دیکھ کر وہ خود کو جلتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔پندرہ دن پہلے کی ہی تو بات ہے جب ملک رشید نے روٹی بناتی نفیسہ کو چولہے سے لکڑی نکال کے خوب مارا تھا اور خوب اپنی مردانگی کا مظاہرہ کیا تھا صرف اس وجہ سے کہ روٹی بنانے میں دیر کیوں کی؟نفیسہ کے لئے یہ نئی بات نہیں تھی ۔یہ تو روز کا معمول بن چکا تھا۔نفیسہ اپنے ماضی کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی،گویا چولہے میں آگ کی جگہ ٹی وی چل رہا تھا۔اور ٹی وی پر اس کی زندگی کی فلم چل رہی تھی۔وہ دیکھ رہی تھی کہ اس کا بھائی اور اس کی نند آپس میں محبت کے خواب دیکھ رہے تھے اور اس محبت کی بھیانک تعبیر نکلنے والی تھی۔اس نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے اس نے اپنے گھر میں بھائی کو تھپڑ مارا تھا اور اسے اپنے گھر آنے سے روکا تھا۔قسمت کی خرابی کہ اپنا گھر بچانے کی اس کوشش میں اس نے اپنا سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔کیوں کہ جب یہ بات چل رہی تھی تو اچانک نفیسہ کا دیور پہنچ گیا تھا اور سب کچھ سن چکا تھا ۔اس کے بعد سے نفیسہ کی زندگی عذاب بن چکی تھی۔
دودھ گرم ہونے لگا تھا نفیسہ اٹھی ہلدی کا ڈبہ اٹھایا اور ملک رشید کے لئے ہلدی والا دودھ بنانے لگی۔
دو چمچ ہلدی دودھ میں ڈال دی۔
نفیسہ نے ساتھ پڑے ہاون دستے کو صاف کیا ۔دوپٹے میں بندھی گولیاں پیس لیں اور دودھ میں ڈال دیں
گولیاں ڈالنے کے بعد وہ دودھ کو گھور رہی تھی۔دودھ میں اسے ملک رشید کی میت نظر آرہی تھی۔”بھاڑ میں جائے”نفیسہ بڑبڑائی
میری زندگی جہنم بنا کے رکھ دی ہے اس ذلیل انسان نے۔
آج یہ دودھ اسے پلا دوں گی یا خود پی لوں گی۔
نہیں نہیں ،مرنا اسے چاہیئے
اسے ہی پینا ہوگا یہ دودھ
آج اسے مرنا ہوگا
ضرور مرے گا
مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا
نفیسہ بڑبڑائے جا رہی تھی ۔ دودھ ابل چکا تھا۔جلدی سے اس نے چھلنی اٹھائی اور ایک بڑے مگ میں دودھ انڈیلنے لگی۔اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔دودھ مگ سے باہر بھی گر رہا تھا ۔مگ آدھے سے زیادہ بھر چکا تھا ۔نفیسہ نے وہ مگ ایک بڑی پلیٹ میں رکھا ۔مگ کے ساتھ ایک کٹوری میں شہد ڈالا ایک چمچ رکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ پلیٹ تھامے کھڑی تھی ۔اس کے قدم منوں بھاری ہو رہے تھے ۔ایک قدم چلنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔اس نے اپنی ساری طاقت جمع کی اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ملک رشید کے کمرے کی طرف چل دی۔اس کا ذہن بھیانک ماضی اور وسوسوں سے بھرپور مستقبل کے گنجلک میں پھنس کر رہ گیا تھا ۔وہ اپنے آپ سے لڑ رہی تھی۔دودھ کے مگ میں ملک رشید کی موت اسے صاف دکھائی دے رہی تھی ۔”میرے بچے یتیمی کی زندگی کیسے گزار پائیں گے؟”وہ اپنے آپ سے گویا ہوئی۔یہ جملہ اس کے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح لگا تھا۔عین اسی وقت وہ دروازے کے پاس پڑی چارپائی سے ٹکرائی۔چھناکے کی آواز کے ساتھ دودھ والا مگ ٹوٹ چکا تھا۔اسی لمحے ملک رشید کی آواز گونجی”ارے او بد کردار،کوئی کام تو ڈھنگ سے کر لیا کر۔دو گھنٹے بعد دودھ بنایا وہ بھی گرا دیا ۔پتہ نہیں کس یار کی سوچوں میں گم رہتی ہو بے غیرت کہیں کی”
نفیسہ نے چپکے سے ٹوٹا ہوا مگ اور کٹوری پلیٹ میں رکھی اور ہلدی والا دودھ بنانے باورچی خانے کی طرف چل دی ۔۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں