افسانہ کتبہ چند نئے مباحث

افسانہ کتبہ چند نئے مباحث | Afsana ktba chand nai mubahis

تحریر از:فرمان علی، توسیف لطیف، بیلا سیو، حنین مہتاب، آر جے ربانی، حبیب صدیقی، اور علی حنظلہ

افسانہ کتبہ کا خلاصہ

افسانہ کتبہ کا مرکزی کردار شریف حسین اپنا ذاتی مکان بنانا چاہتا ہے ایک دن دفتر سے لوٹتے ہوئے ایک کباڑی کی دوکان سے سنگ مرمر کا ایک ٹکڑا اس امید پر خریدتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے دروازے پر نصب کرے گا ۔

وہ محنت سے کام کرتے ترقی کی امید پر اسے تین مہینے کےلئے ایک کلرک کی جگہ مل جاتی ہے لیکن اصل شخص کی واپسی پر ان کا خواب ادھورا ر جاتا ہے ۔

ریٹائرمنٹ کے بعد گھر اور کتبہ کا تصور دھندلا ہو جاتا ہے اس کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے کو گھر کی صفائی کرتے ہوئے سنگ مرمر کا وہ ٹکڑا مل جاتا ہے جس تھوڑی سی ترمیم کے بعد وہ اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیتا ہے ۔

اس میں غلام عباس نے شریف حسین کا ایک قسم المیہ بیان کیا ہے کہ وہ تمام عمر خاندان والوں کی ضرورتوں پورا کرنے میں گزار دیتا اور ان کا ایک خواب ادھورا رہ گیا شریف حسین نے سنگ مرمر کا ٹکڑا خریدا کس غرض پر تھا اور وہ کہاں کام آیا ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: کتبہ کا فن و فکر

کتبہ افسانے کا کتابی ماخذ

غلام عباس کے افسانوں کے مجموعے

1۔ آنندی 1948 10افسانوں پر مشتمل ہیں ۔

2۔جاڑے کی چاندنی 1960۔ 13 افسانوں پر مشتمل ہیں۔ اس مجموعے پر ان کو آدم جی انعام بھی ملا۔

3۔ کن رس 1969۔ 9 افسانوں پر مشتمل ہیں ۔

غلام عباس کے کل افسانوں کی تعداد 33 ہیں ۔ اور ان کا ” افسانہ کتبہ” ان کے پہلے مجموعے آنندی میں شائع ہوا ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو مختصر افسانہ فنی و تکنیکی مطالعہ pdf | ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان

افسانہ کتبہ کا فنی و فکری جائزہ

فنی جائزہ

کتبہ افسانے کے فن پر ایک نظر

افسانہ کتبہ غلام عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک نمائندہ افسانہ ہے ۔ راست اسلوب کے اس افسانہ کا بیانہ سادہ اور اکہرا ہے ۔

جس کی بُنت بہت مضبوط ہے ۔ تحریر میں انتہائی روانی اور سادگی ہے ۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری بھی ایک دکھ بھری سانس لے کر رہ جاتا ہے ۔


اس افسانہ پر یہ کہاوت / محاورہ بالکل درست بیٹھتی ہے کہ زرا سی بات کو افسانہ بنا دیا ۔
اس تحریر کا پلاٹ بہت جاندار ہے قاری کو باندھ کر رکھ دیتا ہے ۔

یہ بھی دیکھیں: افسانہ انندی کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

افسانہ کتبہ کا اسلوب

اس افسانے کا اسلوب سادہ ہے قاری کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتا ہے اور قاری کو تجسس میں ڈالتا ہے.
اقتباس:

شریف حسین کباڑی کی دکان کے سامنے سے گزرتا ہے اس کو ایک پتھر نظر اتا ہے جو دکھنے میں بہت خوبصورت ہے وہ دیکھنے کے لیے رک جاتا ہے۔

کباڑی والا کہتا ہے کہ یہ پتھر زیادہ مہنگا نہیں وہ کہتا ہے کہ میں ایک روپے کا خرید سکتا ہوں تو آخر میں بات ایک روپے پر ختم ہو جاتی ہے اور وہ پتھر لے کر چل رہا ہوتا ہے تو یہاں پر جو پر تجسس ہے کے وہ اس پتھر کا کیا کرے گا۔

پلاٹ

اس کا پلاٹ اکہرا ہے کہانی شریف حسین کی سوچ وفکر پر چلتی ہے سادہ مربوط پلاٹ ہے شروع سے لے کر اختتام تک کہانی سیدھی اور صاف ہے۔

منظر نگاری

اس افسانے میں منظر نگاری بہت پر اثر انداز سے کی گئی ہے جامع مسجد کے ساتھ ساتھ کباڑی کی دکان اور دفتر اور شریف حسین کے گھر کی بہت عمدہ طریقے سے منظر نگاری کی گی ہے۔

افسانہ کتبہ میں خود کلامی

تو اس افسانے کے اندر خود کلامی بہت ہی زور و شور سے پائی جاتی ہے غلام عباس نے انسان کی حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ جب انسان زمانے سے اپنوں سے سب سے اداس ہو جاتا ہے۔

تو وہ پھر خود سے باتیں کرتا ہے تو اس میں جو شریف حسین ہے وہ اپنی نوکری سے اور اپنے گھر سے جو ان کا گھر چھوٹا سا ہے اس سے وہ بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔

سبق حاصل کرتا ہے اور بہت بھاگ دوڑ کرتا ہے محنت کرتا ہے لیکن وہ اپنے مقام تک پہنچ نہیں پاتا بلکہ یہ اس کو اس کا حق نہیں ملتا تو اج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے ہی ہو رہا ہے۔

کہ جو جس کا حق ہے اس سے ملتا نہیں اور جس سے نہیں ملنا ہوتا اسے مل جاتا ہے اسی طرح وہ بھی اس اسی زندگی اسی گیم کا حصہ بن جاتا ہے ساری زندگی وہ ایک اول درجے کے کلر کے خواب دیکھتا ہے۔

خود کلامی کرتا ہے کہ میں جب بن گیا تو میں یہ کروں گا وہ کروں گا لیکن وہ اپنی خواہشات کے ساتھ ہی مر جاتا ہے اور اخر میں اس کی قبر پر اس کا نام زینت بن کر چمکتا ہے۔


اج کے دور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے یہ افسانہ غلام عباس نے بہت دیر پہلے لکھا ہے لیکن اج بھی ہمارے معاشرے میں ہمارے طبقے میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔

غریب عوام غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے ان کو ان کا حق نہیں مل رہا لیکن یہاں پر جو امیر لوگ ہیں وہ غریبوں کی بیٹھ پر انہیں کے منہ سے نوالہ تک چھیننے کو اتے ہیں غریب اپنی خواہشات کو لے کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

بالکل شریف حسین کی طرح تو اج بھی یہ افسانہ ہمارے معاشرے کی بہت خوبصورت انداز میں عکاسی کر رہا ہے۔

شریف حسین کا کردار

شریف حسین ایک سیلف میڈ انسان ہے
جیسے عموما مرد ہوتے ہیں
گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال دیتا ہے
اور قبر کے تختے تک پہنچ جاتا ہے۔
شریف حسین ہر اس انسان کی نمائندگی کرتا ہے ,جس کے بچکانہ دل میں کسی بھی وقت کوئی بھی خواہش جنم لے سکتی ہے ۔
اس کے علاوا شریف حسین کے کردار کے ذریعے پورے معاشرے کی غربت اور بے بسی کا رونہ رویا ہے۔

مگر بہت دفعہ ان خواہشات کو آسودگی نصیب نہیں ہوتی اور وہ بے ضرر سی خواہش حسرت میں بدل جاتی ہے۔

افسانہ کتبہ میں مکالمہ نگاری

غلام عباس کے اس افسانے میں مکالمے نہ ہونے کی برابر ہے ۔

افسانہ کتبہ کے حوالے سے طلباء کے تاثرات

افسانہ "کتبہ” اس وقت ہمارے اردو کے نصاب میں شامل تھا جب ہم میٹرک میں پڑھتے تھے۔

اس وقت ہمارے سکول میں پاک فوج کی طرف سے بھی اساتذہ آتے تھے ، تو ان میں سے ایک صوبیدار مسعود صاحب تھے اور ان کا تعلق پنجاب سے تھا اور وہ بہت ہی مؤثر اور خوبصورت انداز میں اردو پڑھاتے تھے ۔

انہوں نے یہ افسانہ اس خوبصورت انداز میں پڑھایا کہ میں آج تک یاد کرتا ہوں یہ 1999 یا 2000 کی بات ہے۔

کتبہ افسانے کا فکری جائزہ

انسانی نفسیات کی عکاسی

جس طرح Edgar Allan Poe کا افسانہ The Tell Tale Heart انسانی نفسیات کے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے اسی طرح غلام عباس کے افسانوں میں بھی انسانی نفسیات کی بھرپور ترجمانی ملتی ہیں اور یہ افسانہ بھی اس حوالے سے مختلف نہیں ہے ۔ لیکن "اوور کوٹ” اس حوالے سے زیادہ بہتر افسانہ ہے ۔

اگر یہاں میں اپنی پسندیدگی بتاؤں تو غلام عباس کا افسانہ ” اوور کوٹ” میرا پسندیدہ ترین افسانہ ہے اس طرح سے غلام عباس میرا پسندیدہ ترین افسانہ نگار ہیں۔

سرکاری ملازمین کی گٹھن

"افسانہ کتبہ” میں ہمیں ان سرکاری ملازمین کی کٹھن زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے جو چھوٹے ملازم کہلاتے ہیں مثلا” کلرک اور ان سے چھوٹا طبقہ ۔

چھوٹے ملازمین کو کام بھی مشقت بھرے کرنے پڑتے ہیں اور تنخواہ اور مراعات بھی بڑے افسروں کی نسبت کم ملتی ہیں۔

انسانی خواہشات

افسانہ کتبہ میں مصنف ہمیں یہ بھی بتا گئے ہیں کہ انسان کی اگر ایک خواہش پوری ہو جو اس کی بڑی خواہش تھی تو بعد میں ایک اور خواہش پھر اسی شدت اس کے دل میں سر اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔

خواہشات جیتے جاگتے انسانوں کی جبلت اور معاشرتی تربیت و ترویج بھی اس کا حصہ ہیں
جو بھی ہے۔

"لوگ کیا کہیں گے” آج بھی قائم و دائم ہے

حقیقت نگاری

اس افسانے میں غریب طبقے کی اس طرح کا سی کی گئی ہے کہ اس کی حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔

کہ وہ کس طرح اپنی زندگی گزارتا ہے اپنی خواہشات کو دبا کر اپنی زندگی لے کر چلتا ہے ۔

خواہشات کو دبا کر شریف حسین اپنے اندر بہت ساری خواہشات کو دبائے ہوئے ہیں اس نے اس سرکاری نوکری سے کچھ حاصل کیا سو کیا لیکن اس نے اپنی خواہشات کو اپنے اندر دفن کرنے کا ہنر ضرور سیکھا

اس نے اپنی خواہشات کو اپنے اندر اس طرح دفن کیا کہ وہ اہستہ اہستہ اس کے ذہن میں تو اتی ہیں لیکن اس کی حقیقی زندگی میں داخل نہیں ہو پاتی پوری نہیں ہو پاتی اس طرح اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ایک گھر ہو جس پر یہ کتبہ لگے اس کے نام کا وہ ہر روز قطبہ دیکھتا اور خوش ہوتا۔

لیکن اس کی زندگی اور اس کی امدنی اس کا ساتھ نہ دے سکی اور وہ کتبہ اس کی قبر کی زینت بن گیا ۔

غریب طبقے کی عکاسی


اس افسانے میں غریب کی ضرورت اس کی خواہش کو بہت ہی پر اثر طریقے سے بیان کیا ہے غلام عباس نے اپنے معاشرے کی حقیقت کو اپنے لفظوں میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے انہوں نے شریف حسین کی خواہشات اور اس کی اپنے اندر دفن کی ہوئی ضروریات جو کہ پوری تو ہو رہی ہیں۔

لیکن اتنے اچھے انداز سے نہیں پوری ہو رہی اس طرح ہونی چاہیے اس کے خواب سب کچھ وہ حاصل نہیں کر سکتا جو وہ اپنے اندر سمائے ہوئے اس طرح اج کا جو ہمارا غریب ہے وہ بھی زندگی تو گزار رہا ہے۔

لیکن جی نہیں رہا بہت ہی وہ پراثر انداز سے اپنی زندگی جی رہا ہے اور اپنی زندگی کی باگ دوڑ لگا ہوا ہے اور اس کا جو ہمارا امیر طبقہ ہے وہ امیر سے امیر ہوتا جا رہا ہے اور جو غریب طبقہ ہے وہ غریب سے غریب ہوتا جا رہا ہے ۔

انسانی خواہشات کی عکاسی

افسانہ کتبہ میں ہمیں یہ دیکھا یا گیا ہے کہ انسان کی امیدیں اور خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتی جب وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں تو اس کی امید تب بھی پوری نہیں ہوتی۔

اس کتبہ میں ہمارہ سارہ سماج کی عکاسی کی گئی ہے۔

افسانہ کتبہ میں حساسیت

چونکہ ادباء کا مشاہدہ بہت تیز ہوتا ہے اور حساسیت تو ان میں ہوتی ہی ہیں ۔ اس افسانے میں حساسیت کی ایک مثال شریف حسین کا اس وقت حجاب محسوس کرنا ہے جب وہ کتبے پر سے اخبار کو کو ہٹا کر اس پر کندھا اپنا نام دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ دوسروں کے سامنے ایسا کرتے ہوئے حجاب محسوس کرتا ہے ۔

اس افسانے میں ایک اور چیز جو نمایاں ہے وہ ہے انسانی خواہشات جن کے زیر اثر انسان خواب دیکھتا ہے مثلا” شریف حسین کو جب تین مہینوں کے لیے اگلے گریڈ میں ترقی اس لیے ملتی ہے۔

کیونکہ اس کا سینئر چھٹی پہ جاتا ہے اب شریف حسین تمنا کرتا ہے کہ وہ سینیئر کلرک اپنی چھٹی کی میعاد بڑھا لے یا بیمار پڑ جائے یا نہ آئے۔

افسانہ کتبہ کا مجموعی تنقیدی جائزہ

افسانہ کتبہ غلام عباس کاوہ شاہ کار ہےجس میں انھوں نےسماج میں رہتےہوئےایک دفترمیں کام کرتےہوئےایک کلرک شریف حسین کی آڑ میں سارےمعاشرتی اور معاشی مسائل کااحاطہ کیاہے۔

جب اس کو ایک کتبہ مل جاتاہےتو شریف حسین اس کتبےسےبہت ساری امیدیں وابستہ کردیتی ہے۔اس پر جلی اورسنہری حروف سےاپنانام کندہ کردیتاہے۔نئی چیزیں لوگ سنبھال اور بہت خیال سےرکھتےہیں۔

اسی طرح سنگ مرمر کایہ کتبہ شریف حسین اخبار میں سلیقےسےلپیٹ کر گھرلےآتی ہے۔بہت نفاست اور سلیقےسےاس کو صندوق میں رکھ دیتی ہے۔

ایک چھوٹےدرجےکی ملازم کیلئےچھوٹی اور عارضی ترقی بھی دنیاو مافیھاسےبہتر ہوتی ہے۔

نہ جانےشریف حسین یہ سوچتےہیں کہ عالی شان گھربناکےیہ تختی اس کےاوپرنصب کردیں گے۔

"شریف حسین ہاؤس”لیکن وہ اس سےبلکل بےخبر تھےکہ یہ سنہری حروف سےکندہ کتبہ اس کےقبرکی پہچان بنیں گے۔

جب اس کےانتقال کےبعد اس کابیٹاگھر کی صفائی کرتےہیں تو یہ کتبہ اس میں سےنکل آتی ہے۔اس کابیٹااس کےقبرپر لگاکر وہ اس کی پہچان بن جاتاہے۔

اور شریف حسین ہاؤس کی بجائے مرحوم شریف حسین بن جاتےہے۔اس کےبارےمیں خود غلام عباس اپنےایک انٹرویو میںکہتےہے۔

"ہمارےاردگردکتنےشریف حسین رہتےہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات لےکردنیاسےکوچ کرجاتےہیں۔کتنےملازمیں پنشن کی خاطر اپنےآپ تک بیچ دیتےہیں۔”

انواراحمداس بارےمیں رقمطراز ہے۔

افسانہ کتبہ ایک کامیاب اور مؤثرافسانہ ہےہماراسماجی نظام اپنےبےحس معمولات میں زندہ آرزؤوں کاگلہ جس طرح گھونٹتاہےاور تمنائیں جس طرح حسرتوں کاروپ دھارتی ہیں اس کی روداد غلام عباس نےاپنےمخصوص دھیمےاندازمیں پیش کی ہے۔جسطرح گھونٹتاہےاور تمنائیں جس طرح حسرتوں کاروپ دھارتی ہیں۔

اس کی روداد غلام عباس نےاپنےمخصوص دھیمےاندازمیں پیش کی ہے۔جس میں فن اور فکر کی نئی نئی دنیائیں آباد کی ہیں”۔

الغرض کتبہ غلام عباس کاآفسانوی دنیامیں وہ اونچےدرجےکی فنکاری ہےجو اردو افسانوی ادب میں ہمیشہ زندہ وتابندہ رہےگی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں