افسانہ انندی کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

افسانہ انندی کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

(تحریر: علی حنظلہ)

غلام عباس کا مختصر تعارف

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے آٹھویں دہائی تک جن قلم کاروں نے اردو افسانہ کے قارائین کو نئے نئے جزیروں اور گزر گاہوں سے روشناس کرایا ان میں غلام عباس کا نام کئی حوالوں سے بہت معتبر خیال کیا جاتا ہے۔

بلا شبہ غلام عباس ترجمہ نگار کالم نگار براڈ کاسٹر اور ایک ایڈیٹر کے روپ میں کثیر الجہات حیثیت کے مالک تھے۔
کیکن ان کا اصل میدان افسانہ نگاری ہی ٹھہرا۔

غلام عباس جنوری 1909 کو بمقام امرتسر مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے والد کا نام میاں عبدالعزیز تھا۔

ابتدائی تعلیم دیال سنگھ ہائی سکول لاہور سے حاصل کی۔مگر باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔پھر 1941 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ادیب عالم کا امتحان پاس کیا۔

1942 میں یہیں سے میٹرک اور پھر 1944 میں ایف اے کیا بی اے کا امتحان دینا چاہتے تھے لیکن حالات نے اجازت نہ دی۔

غلام عباس اور اردو افسانہ

غلام عباس کے تین افسانوی مجموعے ہیں:
آنندی 1948
جاڑے کی چاندنی 1960
کن رس 1969

افسانہ انندی کا خلاصہ

اس افسانے کی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ کسی شہر کے بظاہر ثقہ لوگ بلدیہ کے اجلاس میں ایسی تقریریں کرتے ہیں۔

جن کا اصل موضوع یہ ہے کہ طوائفوں کو اجتماعی طور پر شہر بدر کر دیا جائے۔

چنانچہ بڑی گرم گرم بحث کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے کہ ان زنان بازاری کو شہر سے باہر کوسوں دور ایک ایسی جگہ اباد کیا جائے جو دور دور تک ویران ہے۔
چنانچہ یہ بیچاری عورتیں وہاں جا کر آباد ہوتی ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی کھینچے چلے اتے ہیں۔

دکانیں کھل جاتی ہیں۔شہر کی رونق وہاں بھی ان کے ساتھ آجاتی ہے۔

لیکن اس نئے شہر میں پھر بھی بازار لوگوں کی انکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکھتا ہے۔

چنانچہ اس نئے شہر کی بلدیہ کے اجلاس میں ایک دفعہ پھر یہ مسئلہ پیش ہوتا ہے اور ان کے خلاف دھواں دار تقریریں ہوتی ہیں اور بالاخر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے

کہ زنان بازاری کو کہ جن کی وجہ سے حسن آباد کا نیا شہر آباد ہو گیا تھا 12 کوس دور ایک ویران مقام پر بھیج دیا جائے۔
بس یہاں یہ کہانی ختم ہو جاتی ہے ۔

افسانہ انندی کا تنقیدی جائزہ

آنندی کا موضوع اگرچہ طوائف ہے لیکن اس افسانے میں جنس کا شائبہ تک نہیں۔

انہوں نے اس افسانے کو ایک بڑے انسانی اور معاشرتی مسئلے سے جوڑ دیا ہے۔انندی کے بارے میں خود غلام عباس کہتے ہیں کہ اس افسانے میں:

"میں نے طنز کے پیرائے میں زندگی کا جو فلسفہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ نیکی اور بدی محبت اور نفرت جنگ و صلح ظلم و انصاف کے خواص روز سے اول سے ابن ادم کی سرشت میں داخل کر دیے گئے ہیں۔کسی میں کم کسی میں زیادہ اور فطرت انسانی کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ خواص عبد تک اس میں موجود رہیں۔عصمت فروشی کے خلاف ہر دور میں مہم چلائی گئی لیکن یہ سلسلہ ختم نہ ہو سکا۔”

ڈاکٹر عبادت بریلوی کے بقول:

"غلام عباس نے اس افسانے میں انسان کی مجبوریوں کو بھی واضح کیا ہے۔اس کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔

لیکن کھل کر ان کا ذکر نہیں کیا۔ایک ایک فقرے میں کئی کئی پہلو جھانکتے ہوئے نظر اتے ہیں کہیں طنز ہے’کہیں احساس غم ہے کہیں فطرت کی ستم ظریفی کا ماتم ہے اور کہیں انسانی فطرت کی بے بسی کا اظہار ہے۔

غرض نہ جانے کیا کچھ انہوں نے اس افسانے میں سمویا ہے اور ان تمام پہلوؤں کو پیش کرنے میں شدت ہیجان انگیزی اور انتہا پسندی کے بجائے حد درجہ توازن اور اعتدال اور انتہا درجے کی اہستہ روی اور دھیما پن بلکہ ٹھہراؤ ہے۔

جس سے غلام عباس کا فن پہچانا جاتا ہے”

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں