افکار رومی

موضوع:افکار رومی،کتاب کا نام:علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ(1),کوڈ نمبر ۔۔۔{5613},مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}

افکار رومی

مولانا کے افکار کا مرکز ثقل عشق کا تصور ہے ان کے ہاں اسی تصور کے ذیل میں قوت جذ بہ وجدان حسیت به کلام جو اس کے تمام موضوعات آجاتے ہیں ان کے نزدیک عشق کی قوت سے کائنات کا ذرہ ذرہ فیض یاب ہے اور اس کا ئنات کی بنیاد عشق میں رکھی گئی ہے وہ عشق ہی کے تناظر میں فقہی، کلامی اور علمی مسائل کو حل کرتے ہیں اور باطنی جو اس کے ذریعے ادراک حقائق کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔

خودی کا تصور بھی مولانا کے افکار میں اپنی بنیادی صورت میں ملتا ہے۔ انہوں نے قالب انسانی پر روح و وجدان کو فوقیت دی ہے اور قد ما کے برعکس فنا اور ترک کی تعلیم کا انکار کیا ہے ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے لکھا ہے۔ اقبال کا نظریہ خودی جو اقبال کے کمال کی وجہ سے اس کا اپنا بن گیا ہے اس کے بنیادی تصورات بھی رومی کے ہاں ملتے ہیں ۔

عجمی تصوف کے بعض رائج افکار سے مولانا کو اختلاف ہے۔ عجمی تصوف میں ترک حاجت کو خدا تک پہنچے کا ذریعہ بتایا جاتا تھا مولانا نے اس تصور کی تخلیط کرتے ہوئے قرار دیا کہ خدا نے زمین و آسمان بھی عبث نہیں پیدا کئے کسی حاجت ہی سے پیدا کئے ہیں ۔

تقدیر پر صابر و شاکر ہو کر رہنے کے خیال سے مولا نا شدید اختلاف کرتے ہیں اور اپنی تقدیر خود پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

زندگی اپنی نہاد میں فنا پذیر نہیں ہے موت اس کے ارتقا کی ایک شکل ہے اس لئے مولانا موت کو الم یا تاسف کا باعث نہیں قرار دیتے بلکہ ان کے نزدیک مرنے والا ترقی کا ایک مرحلہ طے کرتا ہے اس لئے موت سے خوف زدہ ہونا بے معنی بات ہے۔ روایت ہے کہ مولانا اپنے عزیز ترین بزرگ صلاح الدین چلسی کے جنازے میں بھی شاداں و فرمان شامل ہوئے تھے۔

مولانا اپنے افکار میں ایک ایسے انسان کے جو یا نظر آتے ہیں جو کامل شخصیت کا حامل ہے یوں
ان کے ہاں ایک انسان کامل کا تصور ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔

مولانا کے نزدیک الفقر فخری زندگی کا منشور بنانے کے لائق ہے اور فقر نارسائی اور درماندگی کا نہیں بلکہ عزت و شان کا مظہر ہے۔

ان موضوعات کے علاوہ مولانا نے معروف کلامی موضوعات کلام الہی کے حادث یا قدیم ہونے ذات و صفات کے الگ ہونے، ناممکن کی تخلیق اور تعد وصفات جیسے مسائل سے بھی اتنا کیا اور ان پر اپنی آرا پیش کی ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں