کتاب کا نام ۔۔۔تاریخ اُردو ادب 2
صفحہ نمبر 14 ۔۔۔7
کوڈ ۔۔۔۔5602
مرتب کردہ۔۔۔۔ الیانا کلیم
عادل شاہی دور میں اردو ادب
علم و ادب کے فروغ اور شاعری کی آبیاری کے لحاظ سے قطب شاہی خاندان کے ساتھ ساتھ عادل شاہی عہد حکومت (1490ء 1686ء) کا بھی خصوصی تذکرہ چاہتا ہے۔ اس خاندان کا بانی یوسف عادل شاہ اور آخری بادشاہ، سکندر عادل شاہ تھا اور ان کے درمیان سات اور بادشاہ گزرے۔ بیجا پور پایہ تخت تھا۔
جہاں تک علم و فضل کی قدر دانی اور شعراء کی سر پرستی کا تعلق ہے تو یوسف عادل شاہ، اسمعیل عادل شاہ اور ابراہیم عادل شاہ ثانی المعروف جگت گردو اور علی عادل ثانی کا عہد حکومت خصوصی شہرت رکھتا ہے۔ یہ چاروں خود بھی شاعر تھے پہلے، دو فارسی گو تھے جبکہ جگت گرو اور علی عادل شاہ ثانی دکنی میں لکھتے تھے۔ علی شاہ ثانی صاحب کلیات تھے۔ جبکہ ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو کے گیتوں کا مجموعہ ” نورس (1005ھ) بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں تک علم پروری سے ایک تہذیبی ماحول پیدا کرنے کا تعلق ہے تو عادل شاہی خاندان کے تمام بادشاہوں نے اس ضمن میں اپنا کردار بطریق احسن ادا کیا۔ حکمران کو جو مسائل درپیش ہوتے ہیں، بعض عادل شاہی بادشاہ ان میں الجھے رہے۔ لیکن حالت امن : ن ہو یا برعکس، ان بادشاہوں نے . ملک میں مدارس مدارس : قائم کئے، دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کو اپنے ہاں مدعو کیا اور علما، فضلاء، شعراء اور اہل فن کی توقیر کی۔ جگت گرد کو موسیقی سے خصوصی شغف تھا چنانچہ اس کے دربار میں موسیقار سرفراز ہوئے ۔ المختصر یہ عہد علم و ادب، شعر اور فنون لطیفہ کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
اس عہد کے جن شعراء کا تذکرہ ادبی تو اریخ میں ملتا ہے ان کے اسماء درج ہیں۔ شاہ برہان الدین جانم ابراہیم عادل شاہ ثانی ، اتش مقیمی ، امیں، شوقی ، صنعتی ، ملک خوشنود، رسمی ، دولت ، عادل شاہی، نصرتی ، ملک، امین الدین علی ، ظہور ہاشمی ، ایاغی، شغلی ، علی ، کریم ، مرتضی، حسینی، مختار، قدرتی ، مومن ، وقار، شاہ من اور معظم – جیسا کہ قطب شاہی عہد کے شعراء کے بارے میں لکھا گیا کہ کئی شعراء کے احوال اور نجی کوائف کے بارے میں لاعلم ہیں، اسی طرح عادل شاہی عہد کے بھی بعض شعراء کے بارے میں معلومات نہ ہونے کےبرابر ہیں۔
عادل شاہی دور کے بعض اہم اور نامور شعراء کے نام درج ذیل ہیں۔ برہان الدین جانم، ابراہیم عادل شاہ فقہی حسن شوقی صنعتی ، کمال خان علی عادل شاہی محمد نصرت نصرتی اور سید میران ہاشمی۔ یہ فہرست قطعی نہیں اس میں نہ صرف یہ کہ کمی بیشی ہو سکتی ہے بلکہ مواد کو الف نو کی دستیابی کے بعد اضافہ بھی ممکن ہے۔ ہم اس یونٹ میں نصرتی اور رستمی کا مطالعہ کریں گے۔
2 نصرتی
عہد قدیم کی شخصیات کے سوانحی کوائف کی عدم دستیابی ان کے مفصل مطالعہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ چنانچہ نصرتی کے مطالعہ کے شمن بھی یہی دشواری ہے۔
مولوی عبدالحق اپنی تالیف نصرتی (نئی دہلی : 1988ء) میں اس کے بارے میں کوئی خاص معلومات مہیا نہ کر سکے حتیٰ کہ اس کے اصل نام کے بارے میں بھی شواہد نا پید ہیں۔ عام طور پر نام محمد نصرت تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر مولوی عبدالحق اس سے متفق نہیں۔ گارساں دتاسی نے اسے برہمن بتایا تھا جس کی مولوی صاحب نے تردید کی ہے۔ نصرتی نے عادل شاہی خاندان کے تین بادشاہوں یعنی محمد عادل شاہ علی عادل شاہ ثانی اور سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا۔ فتوت نے اپنے تذکرہ "ریاض معنی میں لکھا ہے کہ جب شاہ اور نگزیب عالمگیر نے دکن فتح کیا تو وہاں کے شعراء کو حاضر ہونے کا حکم دیا، ان میں نصرتی بھی تھے اور ان کے کلام کو سب سے افضل تسلیم کیا اور خطاب ملک الشعرائے ہند سے سرفراز فرمایا
عبد الحق ، مولوی ، نصرتی ، نئی دہلی : 1988 ء ص : 18)
1674 ء میں دشمنوں نے انہیں قتل کروا دیا پیجا پور میں دفن ہوئے ۔ نصرتی نے اگر چہ غزلوں اور دیگر شعری اصناف میں طبع آزمائی بھی کی مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک عشقیہ مثنوی "گلشن عشق (1657ء) لکھی اس عشقیہ مثنوی میں منوہر اور مہ مالتی کے عشق کے داستان بیان کی گئی ہے جبکہ علی نامہ (1065ء) علی عادل شاہ ثانی کی معرکہ آرائیوں اور جنگی فتوحات کی منظوم تاریخ ہے جس میں تخلیقی چاشنی بھی ہے ۔ بقول مولوی عبدالحق :نصرتی کا بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی واقعات کو صحیح ترتیب بیوی احتیاط اور صحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حسن بیان اور زور کلام کے تمام اسلوب ہوتے ہوئے کہیں تاریخی صحت سے تجاوز نہیں کیا۔ تاریخ سے واقعات کو ملا لیجئے ، کہیں فرق نہ پائے گا بلکہ بعض باتیں شاید اس میں ایسی ملیں گی جن کے بیان سے تاریخ قاصر ہے باوجود اس کے واقعات کی تفصیل مناظر قدرت کی کیفیت رزم و بزم کی داستان اور جنگ کا نقشہ کمال فصاحت و بلاغت اور صناعی سے کھینچتا ہے… یہ رزمیہ مثنوی ہر لحاظ سے ہماری زبان میں بے نظیر ہے "
عبد الحق مولوی نصرتی نئی دہلی 1988ء : 18)
تاریخ اسکندری ” ( 1872ء) تیسری اور نسبتا مختصر مثنوی ہے۔ بقول جمیل جالبی :
اس کا اصل نام فتح نامہ پینلول خاں ہے۔ فتح نامه
( تاریخ ادب اردو (343)
سیواجی کو بہلول خان نے ایک جنگ میں شکست دی تھی یہ مثنوی اس فتح کا منظوم احوال ہے اور خوب ہے۔ جہاں تک نصرتی کی شاعرانہ حیثیت کا تعلق ہے تو دکنی ادبیات پر قلم اٹھانے والے تمام ناقدین اور محققین نے اس کی شاعرانہ اہمیت تسلیم کی اور اس کی عظمت کو سلام کیا۔ دکنی ادبیات کا یہ عہد عہد مثنوی قرار دیا جاسکتا ہے۔ با کمال مثنوی نگاروں کے اسماء پر مشتمل تاہندہ کہکشاں نظر آتی ہے اور نصر تی اس کہکشاں میں ماہ تاباں کی حیثیت رکھتا ہے۔
نصرتی کی مثنویاں اور بقول نصیر الدین ہاشمی قصائد دیکھنے سے اس کی قادر الکلامی کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ گلشن عشق میں انسانی جذبات اور خیالات کی جس عمدگی سے ترجمانی کی گئی ہے اس کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی اس کے کلام کی رنگینی اور تشبیہ اور استعارات کی ندرت واقعی قابل داد ہے ۔
(دکن میں اردو ص : 345)مولوی عبد الحق کے الفاظ میں :
رزمیہ واقعات کے بیان میں نصرتی کو خاص کمال حاصل ہے۔ وہ فوجوں کی آمد اور جنگ کے زور شور اور ہنگامہ خیزی کو اس خوبی سے بیان کرتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے نقشہ کھینچ جاتا ہے۔ مولانا شبلی مرحوم کو اردو زبان میں میر انیس سے قبل کوئی نمونہ رزمیہ نظم کا نہیں ملا۔
مولانا کو اگر نصرتی کا کلام دیکھنے کا اتفاق ہوتا تو اعتراف کرنا پڑتا کہ میر انیس سے قبل بھی ایک ایسا با کمال شاعر گزرا ہے جس نے مسلسل رزمیہ نظمیں لکھی ہیں اور جو معرکہ آرائی نیز دیگر واقعات کے بیان پر پوری قدرت رکھتا ہے "
ڈاکٹر جمیل جالبی ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
زبان کی شیرینی، تخیل کی پرواز اور چند الفاظ میں معنی کا دفتر بیان کرد بنا نصرتی کی شاعری کی وہ خصوصیات ہیں جو ہمیں اس دور کے کسی دوسرے شاعر کے ہاں اس
طور نظر نہیں آتیں۔ قصیدوں میں اس تخلیقی عمل نے ایک ایسا رنگ جمایا ہے کہ نصر تی اردو کا پہلا بڑا قصیدہ نگار بن کر سامنے آتا ہے ” ( تاریخ ادب اردو ص : 345)
نصرتی کی غزلیات کے چند اشعار پیش ہیں۔
اس خام سن میں دیکھو کیا پختگی کا فن ہے
دینے کو وصل کاہل لینے کوں جٹو اوقالی
منجہ نظر میں دن تے لا گے رات خوش
مل رہوں جس دل سوں تیرے ساتھ خوش
میں مست ہوکر بیچ میں بے تاب ہورہی تھی نپٹ
باتاں پرم کی کاز کر منجہ کیوں جگاتا ساد سے
اور آخری بات پھر ڈاکٹر جمیل جالبی کے الفاظ میں جن کے مموجب حیثیت شاعر نصرتی قدیم اردو کے
عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہے "
( تاریخ ادب اردو : 350)3-
رستمی
کمال خان رستمی بھی دکن کے ان شعرا میں سے ہے جن کے احوال اور ذاتی کوائف کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، بس اتنا معلوم ہے کہ محمد عادل شاہ کے عہد میں تھا دربار سے متعلق تھا۔ پیشہ آیا خوش نویسی تھا اور خطاط خاں باد شاہ سے خطاب ملا تھا۔ نصیر الدین ہاشمی کے الفاظ میں :
رستمی اپنے عہد کا ایک با کمال قادر الکلام شاعر تھا۔ قصائد اور غزلیات کے علاوہ ایک ضخیم مثنوی ” قادر نامہ اس کی تصنیف میں شامل ہے۔ افسوس ہے کہ اس کے قصائد اور غزلیات اب تک ہندست نہیں ہوئے اور خاور نامہ کا صرف ایک نسخہ ملا
(دکن میں اردو ص : 201)
رستمی نے محمد عادل شاہ کی بیگم کی فرمائش پر امن حسام کی اسی نام کی فارسی مثنوی کا 1648ء میں ترجمہ کیا اشعار کی تعداد 23735 ہے اور تقریبا اڑھائی برس میں مکمل ہوئی۔ جھول نصیر الدین ہاشمی :
اس میں ایک فرضی داستان نظم کی گئی ہے جس کے ہیرو حضرت علی ہیں۔ داستان امیر
حمزہ کی طرح اس کا افسانہ ہے۔ اس میں کئی ملکوں کے بادشاہوں سے جنگ دیووں پر یوں سے مقابلے ، طلسم کشائی ، عیاری وغیرہ امور کی صراحت ہے مگر اصل مقصد تبلیغ اسلام ہے۔ اگر چہ رستمی نے اس داستان کو فارسی سے ترجمہ کیا ہے مگر اس کو ترجمہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ رستمی نے اس کو اپنا لیا ہے۔ خاور نامہ کی کئی خصوصیات ہیں مثلا اردو کی پہلی ضخیم رزمیہ مثنوی ہے دوسرے یہ کہ ضخیم ہونے کے باوجود تسلسل باقی ہے۔ قصہ مربوط ہے۔ اگر چہ یہ مثنوی فارسی کا ترجمہ ہے مگر اس سے عادل شاہی تمدن اور تہذیب کا ہی پتہ چلتا ہے۔ اسلوب بیان سادہ و صاف اور سلیس ہے“
دکن میں اردو ص : (202)4-
سراج اورنگ آبادی
سید سراج الدین نام مگر سراج اورنگ آبادی کے نام سے دنیائے شعر میں معروف ہوئے۔ کلیات سراج کے مرتب پروفیسر عبد القادر سروری کے مموجب ان کے احوال کے بارے میں کوئی بہت زیادہ مستند کو الف نہیں ملتے۔ اورنگ آباد میں 1715ء کی پیدائش اور 1763ء 4 شوال 1177 ھ وفات کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
یونٹ نمبر 9 اور 10 میں جنوبی ہند میں اردو ادب کے فروغ کا دو مملکتوں کے حوالہ سے مختصر جائزہ لیا گیا۔ قطب شاہی اور عادل شاہی میں اردو شاعری کے فروغ کا بڑا سبب خودان خاندانوں کے بادشاہوں کی سخن پروری تھی۔ جس خاندان کا باد شاہ صاحب کلیات ہو یا جگت گروین کر نورس تصنیف کر رہا ہو تو ایسے عہد میں شعر و شاعری کی ترقی نہ ہونا باعث تعجب ہو سکتا تھا۔
ان مملکتوں کی عمر تقریبا دو سو برس بنتی ہے اور کسی بھی زبان کی ترقی اور ادب کی ترویج کے لئے دو
صدیاں کم نہیں۔
تخلیقی اظہار کے لئے جہاں ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوا وہاں اسلوب کے جمالیاتی اوصاف میں بھی نکھار پیدا ہوا، جس کا اندازہ و جہی ، غواصی این نشاطی کے بعد رستمی اور نصرتی کے شاعرانہ اسلوب کے تجزیاتی مطالعہ سے ہو جاتا ہے اور پھر ان سب کے بعد سراج اورنگ آبادی کی شاعری ہے ، پیش رو شعراء کے مقابلہ میں جس کے اسلوب کا رنگ چوکھا ہوتا نظر آتا ہے۔
دکنی زبان نے دو سو برس کے تخلیقی سفر میں آہستہ آہستہ ہندی پن ترک کیا۔ مقامی بولیوں کے اثرات سے چھٹکار ا حاصل کیا۔ مقامی محاورات اور ضرب الامثال سے صرف نظر کیا اور فارسی کے مناسب الفاظ کے استعمال سے زبان کے حسن اور خوبی میں اضافہ کیا چنانچہ محمد قلی قطب شاہ کے مطالعہ میں نامانوس زبان جس طرح رکاوٹ پیدا کرتی ہے سراج اورنگ آبادی کے مطالعہ میں بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ سراج کہتے ہیں۔
کب تلک طرز جفا ظالم مری فریاد سن
بسمل تیغ جفا کی کان دھر روداد سنیہ مفرس اسلوب اور اضافتیں غالب کی یاد دلاتی ہیں حالانکہ یہ اس سے ڈیڑھ دو صدیاں قبل کا اسلوب ہے۔ دیکھا جائے تو سراج اورنگ آبادی لحاظ شاعرانہ اسلوب جنوبی ہند اور شمالی ہند کے درمیان عبوری دور کے شاعر قرار پاتے ہیں۔ ان کی زبان مفرس ہو رہی تھی مگر اتنی نہیں جتنی دہلی کے شعراء کے ہاتھوں ہوئی، ہندی پن بھی ختم ہو رہا تھا مگر بتدریج سراج کا ایک مذہبی گھرانے سے تعلق تھا والد سید درویش کٹر مذہبی انسان تھے ادھر بارہ تیرہ برس کا بیٹا عالم جذب و مستی میں تن من کی سدھ کھو بیٹھا تھا اور بقول مرتب کلیات
انہیں اپنے لخت جگر کو تادیب کی خاطر پابہ زنجیر کرتے بھی پس و پیش نہ ہو تا تھا
(کلیات سراج مرتبہ عبد القادر سروری نئی دہلی 1998 ء طبع دوم ص : 39)
اس عالم جذب و کیف میں ان کے منہ سے خود خود فارسی میں کلام موزوں خارج ہوتا تھا۔ عالم جذب سات برس تک رہا۔ جب اردو اشعار کہے تو قلیل عرصہ میں دیوان کیا پوری کلیات مرتب ہو گئی۔ 1739ء میں غزلیات دیوان کا مرتب ہو گیا مگر مرشد شاہ عبدالرحمن چشتی نے شعر گوئی سے منع کر دیا۔ بقیہ عمر روحانی کیفیات میں بسر کی۔ اپنی وفات تک ایک نادر صوفی کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔ اشعار کے علاوہ انہوں نے فارسی اساتذہ کے کلام کا انتخاب بھی کیا ” منتخب دیوانها ” ( 1755ء) کے نام سے۔ اس کے دیباچہ میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے اسی لئے اب یہ ان کے احوال کے لئے ایک اہم حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
ان کی کلیات خاصی ضخیم ہے اور اس میں مثنوی غزل رباعی ، قصیدہ، مخمسات تربیج بد مستزاد سب کچھ ملتا ہے۔ عبد القادر سروری کی مرتبہ کلیات (حیدر آباد دکن : 1940ء) ، تقریبا چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ 1982ء میں دہلی سے اس کا نیا ایڈیشن طبع ہوا۔ اگر مرشد کے کہنے پر شعر گوئی ترک نہ کی ہوتی اور عمر اس شغل میں ہر کی ہوتی تو اشعار کی تعداد کے لحاظ سے میر تقی میر کا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن اتنا ہے کہ اردو شاعری کو ایک زندہ شعر دے گئے۔
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ایسا شعر صرف وہی شاعر لکھ سکتا ہے جو ” بے خبری ” کی روحانی واردات کا رمز آشنا ہو یہ بات برائے ہیت نہیں مزید اشعار پیش ہیں
تجھ قبا پر ہے نرگسی بوٹا
گویا نرگس کا پھول ابھی ٹوٹا
گر آرزو ہے تجھ کوں تالاب کا تماشا
کشتی میں چشم کی آ’ دیکھ اب کا تماشا
اس پھول سے چہرے کوں جو کوئی یاد کرے گا
ہر آن میں سو سو چمن ایجاد کرے گا
نہ جنگل میں تسکین دل ہے میسر’ نہ دریا کوں دیکھے خوشی جی کو حاصل
میری آہ سوزاں و اشک روان میں ہے خشکی کا سیر اور ندی کا تماشا
کبھی جو آہ کے مصرعے کوں یاد کرتا ہوں
خیال قد کو ترے مستراد کرتا ہوں