ادب میں خود نوشت سوانح کی اہمیت

ادب میں خود نوشت سوانح کی اہمیت | Adab mein khud nawisht sawaneh ki ahmiyat

نوٹ: یہ تحریر جس مقالے سے کی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Urdu Mein Khud Nawisht 1980 kebad Researcher: Saleeta Ja

ادب میں خود نوشت سوانح کی اہمیت

دور حاضر میں خود نوشت سوانح بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ خود نوشت اظہار ذات کا بہترین وسیلہ ہے اس میں خارج اور داخل دونوں کا بیان ملتا ہے۔

مصنف کی ذات میں منفی اور مثبت دونوں پہلوں کا امتزاج ملتا ہے۔ خود نوشت میں مصنف اپنی خوبیوں کے علاوہ اپنی خامیوں سے بھی پردہ اٹھاتا ہے ان غلطیوں کا اعتراف بھی مصنف کرتا ہے جو اس سے سرزد ہوتی ہیں۔ اس چیز سے مصنف کے دل کو سکون پہنچتا ہے اور ایک بوجھ سا ہلکا ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو میں خود نوشت سوانح نگاری | PDF

ایک بہترین خود نوشت وہی سمجھی جاتی ہے جس میں انسان کے اندرونی زندگی کے تغییرات کا بیان ہو۔ خود نوشت اس نوعیت سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ دوسرے اصناف کے مقابلے میں خود نوشت ایک ایسی تحریر ہے جو مصنف صرف ایک ہی بار لکھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس ناول، افسانے ، غزل اور دیگر اصناف ایک سے زیادہ تعداد میں بھی لکھے جاتے ہیں۔

خود نوشت سوانح حیات تاریخی اعتبار سے بھی کافی اہم ہے۔ جو معلومات ہمیں تاریخ کے بارے میں خود نوشت سے معلوم ہوتی ہے۔ تاریخ کی کسی کتاب میں اس نوعیت سے نہیں ملتی ۔

بلا شبہ ہمیں تاریخ سے کسی حکمران، اس کی سلطنت ، جنگ و جدل، بہادری، مال و حشمت کے بارے میں معلومات فراہم ہو سکتی ہے مگر ایک عام آدمی معاشرے، رسم و رواج ، تہذیب کے بارے میں شاید ہی چیزیں اس اعتبار سے لکھی گئی ہوں ۔

ایک دور ایسا بھی تھا جب شاعر ، ادیب اور مورخ صرف درباروں سے ہی منسلک رہتے تھے ظاہری بات ہے ان کی تحریروں میں ان کی ہی شان و شوکت کے قصیدے لکھے جاتے تھے۔ اس کے برعکس خود نوشت میں مصنف ایک عام آدمی تک کا بھی ذکر کرتا ہے جس سے اس کا واسطہ پڑا ہو۔ وہ بھی بنا کسی مبالغے اور بناوٹ کے۔

یوں تو خود نوشت ایک فرد واحد کی داستان ہوتی ہے۔ جس میں اس کے جذبات ، مشاہدات، تجربات اور نظریات کا بیان ملتا ہے۔ مگر وہ جس سماج اور معاشرے میں سانس لے رہا ہوتا ہے اس کی تصویر بھی ہمیں خود نوشت میں نظر آتی ہے۔ اس کے رہن سہن، عادت و اطوار اور رسم رواج کی ایک واضح تصویر خود نوشت کی بدولت ایک قاری تک پہنچتی ہے۔

اگر ہم تاریخ اور خود نوشتوں کا موازنہ کریں گے تو بہت سی چیزیں ہمیں ایسی ملیں گی جن کا ذکر تاریخ میں نہیں ہوا ہے۔ اس اعتبار سے خود نوشت کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خود نوشت تمنا بے تاب کا تجزیہ

خود نوشت سوانح کی نفسیاتی اہمیت بھی ہے۔ اس میں مصنف کی داخلی زندگی کے تغیرات سے واقفیت ہوتی ہے۔ وہ زندگی میں پیش آئے قابل ذکر لمحات کا ذکر کرتا ہے جس سے اس کے احساسات، جذبات اور خیالات قاری کے سامنے آتے ہیں اور وہ مصنف کی نفسیات کو سمجھ لیتا ہے۔ اس کی بہت سی نفسیاتی کمزوریوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ چونکہ بعض افعال لاشعوری عمل کے تابع ہوتے ہیں لہذا مصنف خود بھی ان سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن پڑھنے والے تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔ ماہر نفسیات فرائیڈ کا ماننا ہے کہ انسان کے لاشعور میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں

جن کا اظہار اس نے کبھی کھل کے نہیں کیا ہوتا ہے۔ قاری کو صرف مصنف کی سطور ہی نہیں بلکہ بین السطور کو بھی پڑھنا چاہیے۔ اس کے لیے قاری میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ خود نوشت میں وہ چیزیں بھی سمجھ پائے جو مصنف نے چھوڑ دی یا جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی ہو ۔

کبھی کبھی مصنف لکھتے لکھتے کچھ ایسی باتیں بھی تحریر کرتا ہے کہ اس کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو کیوں بیان کر رہا ہے لیکن جب قاری خود نوشت کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس چیز کے لکھنے کے پیچھے کیا وجہ ہے یعنی قاری مصنف کی نفسیاتی کیفیت کا صحیح اندازہ کرتا ہے۔

جب ہم مرزا رسوا کے ناول ” امراؤ جان ادا کو پڑھتے ہیں۔ تو اس کا کردار ایک طوائف ہونے کے باوجود بھی پیشہ وارانہ طوائف نہیں دکھائی دیتی۔ اس کے کردار ، آداب واطوار سے قاری اس کی نفسیات کو سمجھ پاتا ہے۔

جس طرح سے وہ محفلوں میں بیٹھتی ہے، اس کے انداز گفتگو سے، اور ایک گھریلو عورت کی عظمت بھی اس میں موجود ہے۔ وہ شاعری کا ذوق بھی رکھتی ہے۔ مختصر اہم یہ کہ سکتے ہیں کہ خود نوشت نگار کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ایک قاری کا نفسیات شناس ہونا ضروری ہے۔

خود نوشت سوانح اخلاقی اعتبار سے بھی اہم ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ خود نوشت لکھنے کا مقصد اخلاقی تعلیم دینا ہے۔ جیسا کہ ادب کے ناقدین کا ماننا ہے، ایسا کرنے سے ادب کی جمالیاتی قدروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ادب میں براہ راست پند و نصیحت نہیں دے سکتے ۔

مصنف اپنے داخلی و خارجی مشاہدات پیش کرتا ہے یعنی وہ ایک طرح سے دوسروں کی رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔ خود نوشت نگار آپ بیتی لکھ کر اپنی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھا اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کرتا ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے کس طرح استفادہ کرتا ہے۔

ایک کامیاب انسان کی روداد دوسروں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پڑھنے والا اس سے اپنی خوبیوں کے علاوہ خامیوں کا بھی مواز نہ کرتا ہے۔ خود نوشت ایک آئینہ ہے جس میں ہر شخص کو کہیں نہ کہیں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ خود نوشت ہمارے دکھوں کا مداوا ہونے کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور خود کا احتساب کرنے کے لیے بہترین صنف ہے۔

خود نوشت سوانح میں مصنف اپنی ذاتی اور حقیقی کمیوں اور غلطیوں کا اعتراف بڑے اچھوتے انداز میں کرتا ہے۔ آج کل خود نوشت نگار تاریخ اور اس سے جڑی دیگر چیزوں کو شامل کرنے کے بجائے اپنی ذات میں الجھا ہے۔ کیوں کہ انسان کی ذات میں اتنی وسعت ہے جتنا بھی غور کیا جائے اتنا کم ہے۔ خود نوشت خود کو جاننے اور پہچاننے کا عمل ہے۔

افسانوی ادب میں کہانی کو تخیل اور تصور کے الفاظ کا لباس پہنا کر سجایا جاتا ہے۔ اور خود نوشت سوانح میں حقیقت کو خوبصورت اور مزین الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک بہترین خود نوشت اپنے اندر تاریخی پہلوؤں کو ہی نہیں بلکہ ادبی کارناموں کا ایک جہاں چھپا کر رکھتا ہے۔ خود نوشت سوانح کی اپنی تاریخی ، سماجی ، اخلاقی اور نفسیاتی اہمیت ہے۔

انسان زمین کے اندر دفن ہوتا ہے مگر اس کے کارہائے نمایاں تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ خود نوشت کا سفر فرد سے فرد کی جانب ہوتا ہے۔ اور کسی عہد کے داخلی جذبوں اور سماجی رویوں کا دستاویزی ثبوت ہوتا ہے۔

پی ڈی ایف سے تحریر: محمد احمد رضا سیالوی

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں