کتاب کا نام : بنیادی اردو،
کوڈ: 9001،
موضوع: گیت ابھی تو میں جوان ہوں کی تشریح و تجزیاتی مطالعہ،
صفحہ: 264 تا 265۔
ابھی تو میں جوان ہوں کی تشریح
گیت میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ زندگی کی رعنائیوں اور جمال آفرینی سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ انسان کے بس میں اگر رنگینی حیات آجائے تو اسے پوری طرح گزارا جانا چاہیے، چوں کہ جوانی ہے ہی رعنائی اور خوبصورت جذبات سے بھری عمر کا نام لہذا اس خوبصورت جذبات بھرے لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ روح کی پاکیزگی اور جسم کی طہارت دونوں زندگی کا زیور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حفیظ جالندھری کی گیت نگاری
شاعر ساقی سے مخاطب ہے۔ گیت مکالمے پرمشتمل ہے جس میں صرف ایک شخص گفتگو کرتا ہے دوسرا خاموش رہتا ہے۔ ساقی سے مراد وہ قوت ہے، جو زندگی اور جمالیات پر دسترس رکھتی ہے۔ یہ قوت خدا کی ذات بھی ہو سکتی ہے۔ شاعر ساقی سے زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کی درخواست کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو گیت نگاری کا تنقیدی جائزہ
عموماً یہ تصور رائج ہے کہ زندگی سے لطف اندوز ہونا اپنے زہد و تقوی سے دور جانا ہے۔ شاعر خیال زہد کو جھٹکتا ہے اور یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ بھر پور حظ اندوزی ہی اصل زندگی ہے۔ ہمیں زندگی کی رعنائیوں سے بھر پور لطف اٹھانا چاہیے۔ خدا تعالیٰ خود انسانوں کو زمین کی سیر کا کہتا ہے۔ خدا کی نشانیاں ہرجگہ موجود ہیں۔ جب ہم فطرت کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں تو لطف انگیزی کے ساتھ ساتھ ہم اپنے رب کے اور زیادہ قریب ہوتے جاتے ہیں۔
حفیظ جالندھری کا یہ گیت غنائیت کی عمدہ مثال ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز سے زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے تحریک دی گئی ہے۔ اس گیت میں حفیظ نے ترنم اور موسیقی کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ لفظوں کو ایک لڑی میں پرویا ہے۔ اس گیت کو اپنی غنائیت کی وجہ سے ہی بہت شہرت ملی ۔
دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں انھوں نے فوجی گیت بھی لکھے جس میں موسیقی کا خاص دخل ہوتا ہے۔ فوجی گیت عموماً ترانوں کے قریب ہوتے ہیں۔ گیت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ نے حفیظ کو عالم گیر شہرت دی۔ اس گیت کو متعدد فن کاروں نے بھی گایا ۔ شاعر گیت میں سوال کرتا ہے کہ قدرت کی اس بے پناہ عنایات کو کیا رد کر دینا چاہیے؟
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
ادھر سےمہربانیاں
ادھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمین
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑدوں یہیں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں