ناول آخری شب کے ہمسفر کا تنقیدی جائزہ | Novel "Aakhri Shab Ke Humsafar” ka Tanqeedi Jaiza
ناول آخری شب کے ہمسفر کا تنقیدی جائزہ
تحریر: بی ایس اسکالر روفین نیاز
موضوعات کی فہرست
آخری شب کے ہمسفر ناول کا تعارف
آخر شب کے ہمسفر قرۃ العین حیدر کا چوتھا ناول ہے ۔جو ١٩٧٩ء میں شائع ہوا ۔اس ناول میں وقت کی بالا دستی اور انسان کے خوابوں کی شکست کو موضوع بنایا ہے آخر شب کے ہمسفر فیض احمد فیض کے اس شعر کے پہلے مصرعےکا ٹکڑا ہے ۔
“آخر شب کے ہمسفر سر فیض نہ جانے کہا ں ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا صبح کدھر نکل گئی ”
ناول کا آغاز ١٩٤٢ءکے Quite Indian Movementکے دور سے کیا گیا ہے ۔جس کا تعلق تاریخی واقعہ سے ہے ۔اس ناول میں اس عہد اور واقعے کو بھی اُبھارا گیا ہے جس کے نتیجے میں بالخصوص بنگال میں مذہبی تبدیلی اور اصلاح معاشرے کے میلان و تحریکات نے زور پکڑا ۔اس کے توسط بنگالی قوم کی ذہنیت کو اُبھارا گیا ہے جس کے ساتھ تہذیبی تناظر خود بخود اُبھر کر سامنے آ گیا ہے ۔اس قصے میں مقامی مرکزیّت ڈھاکہ کو حاصل ہے
یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری
جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں آیا اور پھر ١٩٧١ءمیں پاکستان سے الگ ہو کر ایک آزاد ملک کی صورت میں بنگلہ دیش کے نام سے تاریخ کا حصہ بن گیا ۔
ریحان الدین دیپالی اور اوجا رائے جہاں آراء ،یاسمین اور روزی وغیرہ اس کے اہم کردار ہے۔”
ڈاکٹر سلطانہ بخش کے نزدیک :۔
“اس ناول میں انھوں نے بنگال کی انقلابی تحریکوں کو اپنا موضوع بنایا گیا ہے ۔اس میں تہذیبی طبقوں کے مطالعے کا نیا باب سامنے آتا ہے اگر چہ یہ ناول ان کے دوسرے ناولوں سے مختلف ہے ۔لیکن اس میں بھی تاریخ اوروقت کی جبریت کا احسا س ہوتا ہے قرۃ العین نے ہر کردار کو منفرد اور خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے ”(٢٦)
پروفیسر عبدالغنی :۔
“آخر شب کے ہم سفر قرۃ العین حیدر نے قصے کی نوع بہ نوع جلوؤں سے ایک منظر آراستہ کیا ہے ۔اس لیے جلوے رنگا رنگ ہونے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ”(٢٧)
کردار نگاری کا جائزہ
ریحان الدین احمد
ناول کا ہیرو ریحان الدین احمد ہے اس کا کردار مثالی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقی کردار ہے جس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ۔ریحان الدین ناول کے آغاز میں بنگال چلا جاتا ہے اور ترقی پسند تحریک کے رہنما کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔
وہ انقلاب اور آزادی کی خاطر بہت سے مصائب اور مشکلات برداشت کرتا ہے ۔برسوں تک جنگلوں اور نامعلوم مقامات پر رہتا ہے یہ اس حد تک نظریاتی اور مخلص کردار ہے کہ اپنے مقصد کے لیے سب کچھ چھوڑ دیتا ہے لیکن بعد میں ہندوستان کی آزادی کے بعد حالات سے سمجھوتا کر لیتا ہے اور پیسہ کمانے کی دُھن میں لگ جاتا ہے یہ وہی ریحان ہے جو ایک دہشت گرد بن کر بھی ہمارے سامنے آتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: آخری شب کے ہم سفر میں منعکس مشترکہ تہذیب کا تجزیہ
آزادی کے حصول کے لیے جنگلوں میں بھوکا ،پیاسا مرا پھرتا ہے اور جب آزادی ملتی ہے تو پھر ایک اسٹیبلشمنٹ کا حِصہ بن جاتا ہے ۔مغربی بنگال میں وزیر بھی بنتا ہے اور عوامی لیگ کی سیاست میں حصّہ بھی لیتا ہے۔ریحان الدین دیپالی سے بے حد محبت کرتا ہےاور محبت تو دیپالی بھی ریحان سے بہت کرتی ہے مگر دیپالی کو جب پتہ چلتا ہے کہ یہ جہاں آراء کا منگیتر ہے تو وہ پھر خود کو احساسِ جرم سمجھتے ہوئے ریحان الدین سے دوری اختیار کرتی ہے اور دوبارہ اس سے ملنے نہیں جاتی۔
ڈاکٹر خالد اشرف لکھتے ہیں کہ
“اس طرح کی موقع پرستی اور بے ضمیر ی ریحان الدین احمد سے عین متوقع تھی کیونبکہ قراۃ العین حیدر ی کے سبھی اشتراکی کردار قصّے کے آخر میں اس طرح کے سمجھوتے کرتے ہیں ۔”(٢٨)
دیپالی سرکار کا کردار
ناول کا دوسرا مرکزی کردار دیپالی سرکار ہے یہ ا س ناول کی ہیروئن ہے یہ ایک وفادار ار مخلص کردار ہے بنگال میں ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اس کے والد ڈاکٹر ہیں ۔دیپالی کے چچا انقلابی ہونے کی بناء پر اپنی جان وطن کے لیے قربان کر چُکے ہیں ۔دیپالی نو عمری میں ہی دہشت پسند تحریک کے لیےکام کرنا شروع کر دیتی ہے اس تحریک کی وجہ سے اس کی ملاقات ریحان سے ہوتی ہے ۔
دیپالی اپنے چچا کے نقشے قدم پر چل کر انقلابی تحریک میں شامل ہو جاتی ہے وہ اپنے حالات و واقعات سے مطمئن نہیں ہے وہ اپنے حالات کو بدلنا چاہتی ہے دُنیا میں ایک مقام و مرتبہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
دیپالی ہر حال میں اپنی انقلابی تحریک کو کامیاب کرنا چاہتی ہے وہ ریحان سے بے پناہ محبت کرتی ہے بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جہاں آراء کا منگیتر ہے تو ریحان سے دوری اختیار کر لیتی ہے کیونکہ جہاں آراء دیپالی کی سہیلی ہے گویا اس کا کردارمزاجاً خالص ہندوستانی عورت کی نمائندگی کرتا ہے ۔جو رشتوں کی پائیداری اور ان میں خلوص و محبت وفا و ایثار کی پاسبان ہے ۔
دیپالی اپنوں کے لیے ممتا و ایثار کی عکاسی کا یہ اقتبا س ملاحظہ ہو
“یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک عورت اپنی ممتا ،ایثار اور اپنوں کے لیے فکرو توجہ کے اعتبار سے فطرتاً حال ہوتی ہے دیپالی کہتی ہے کہ میں بارہ سال کی تھی جب میری ماں کا انتقال ہو گیا ان کو کینسر ہو گیا تھا میں سب سے بڑی تھی تینوں بھائی چھو ٹے ہیں ان کی دیکھ بھال کے لیے میں نے اسکول چھوڑ دیا ”(٢٩)
ایک عورت کی حیثیت سے دیپالی سماجی نفسیات کے تحت خوف کا شکار ہے جس کے تحت ایک لڑکی اور عورت کا چہار دیواری سے نکل کر سیاسی و سماجی میدانوں میں اپنی سر گرمیاں انجام دینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور دیپالی نے سماج کی اس سوچ سے بغاوت کی اور ملک و قوم اور معاشرے کی خدمت کو اپنی زندگی کو نسب العین کے طور پر متعین کیا ہے ناول کے آخر میں ارمارائے کی وجہ سے دیپالی کو بورٹ آف سپین جانا پڑتا ہے وہاں اپنے چچا کے کہنے پر ست سین سے شادی کر لیتی ہے ۔
پاکستان بننے کے بعد دیپالی یہاں رہائش پزیر ہو جاتی ہے آخر میں جب اس کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے وہ اس کی راکھ گنگا میں بہانے دوسرے ملک لے جاتی ہے ۔یہاں وہ ایک بار پھر اپنا ماضی ہندی سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگتی ہے ۔
جہاں آراء
جہاں آراء ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور مسلم خاندان کی لڑکی ہے یہ گھریلو قسم کی لڑکی ہے وہ ایک رئیس زادی ہونے کے باوجود بھی انقلابی سر گرمیوں سے بے بہرہ ہے یہ بھی ریحان سے بے پناہ محبت کرتی ہے مگر والدین کے حکم کے سامنے سر جھکاتی ہے ۔
جہاں آراء کے خاندان والے سخت قدامت پرست اور لڑکیوں کی آزادی اور اعلیٰ تعلیم کے خلاف ہے اسی ماحول کا اثر اس کے ذہن پر بھی حاوی ہے اور وہ بھی اپنے خاندان اور والد کے اصول و روایات کی پاسداری کرتی ہے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
“تمہارے تو بھیا مزے ہیں ہم تو انٹر کے بعد گھر بیٹھ جائیں گے ابا نے حکم دے دیا جہاں آراء نے کہا”(٣٠)
جہاں آراء اپنی زندگی سے بے حدخوش اور مطمئن ہے لیکن یہ روایتوں اور بندشوں میں جکڑی ہوئی لڑکی ہے جہاں آراء ایک مکمل مشرقی عورت ہے جو شادی سے پہلے والد کے مزاج و اصولوں کے تحت زندگی گزارتی ہے اور شادی ے بعد اپنے شوہر کی اطاعت گزار اور وفا دار بیوی بن جاتی ہے اور اپنی خواہشات و ارمان کو خاندانی روایات و اقداراور وقار پر قربان کر دیتی ہے۔
بچپن سے اپنی پھوپھی زاد ریحان الدین سے منسوب کر دی جاتی ہے اور اس کے انتظار میں دن گزارتی ہے جو اس سے بے نیاز ہو کر قومی مفاد اور قومی خدمات کے لیے خود کو مصروف و وقف کرنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔برسوں بعد ریحان کی واپسی اور اپنے والد سے اس کی ملاقات سے وہ اس طرح خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔
“کیا دعائیں کامیاب ہو گئیں نمازیں وظیفے اللہ اللہ ”
اگلے ہی لمحے دونوں کی گفتگو سے اُس کو انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ملاقات سیاسی حالات و مسائل سے متعلق ہے اس کے بعد ریحان سے اس کی منگنی ٹوٹ جاتی ہے ۔
جہاں آراء بھی آخر میں اپنے خاندانی و طبقاتی وقار وعظمت کی خاطر والدین کے فیصلے پر راضی ہو کر ایک بار پھر اپنی خوشی و ارمان کو قربان کر دیتی ہے اور ایک عمر رسید زمیندار سے شادی کر لیتی ہے اس طرح جہاں آراء کے کردار سے ایک ہندوستانی قدامت پرست مسلم گھرانے کی عورت کی ایثار و محبت اور ،صبر و تحمل ،اطاعت اور وفا سے معمور جذبات اور رویوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔
یاسمین کا کردار
یاسمین کا کردار یاسمین ناول کا اہم باغی کردار ہے یاسمین ہندوستانی لوگوں کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں اور افراد کے ذہنی رجحانات کے بدل جانے کی عکاسی کرنے والا کردار ہے وہ اپنی خاندانی روایات پر عمل پیرا ہونے کے بجائے وہ رقص کی دلدادہ ہے
وہ رقص کو اپنا مقصد حیات بنا لیتی ہے اس لیے یاسمین اپنے آپ کو متعارف کروانے کی خاطر اور پیسہ دولت کمانے کی خاطر اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلی جاتی ہے اور وہاں جا کر ایک ڈانسر کے طور پر سامنے آتی ہے وہ نام اور دولت دونوں چیزیں کماتی ہے ۔یاسمین قدامت پسند اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اس کے والد مولوی ہیں اس کے باوجود وہ آزاد خیال رکھنے والی لڑکی ہے وہ اپنی مرضی سے زندگی کی ترقی اور مستقبل کی تعمیر کے خواہاں کے یاسمین کا اپنی خواہش و ارادے کا اظہار ہے۔
یہ امی اور ابو بیکار مجھے آگے پڑھانے کی فکر میں ہیں میں تو ڈانسر بنوں گی دیکھ لینا ایک دن میں ڈانسر بن کر ہی دیکھا دوں گی یاسمین اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہے اور شاہی طرز ِ زندگی سے اور شاہانہ عیش و عشرت کی دلدادہ ہے یاسمین کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب وہ ایک انگریز سے شادی کر لیتی ہے اور وہ انگریز اسے چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے آخر میں اس سے حالات بہت بُرے ہو جاتے ہیں اور امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیتی ہے ۔
شاید یہ سب اس کے غرور کا نتیجا ہوتا ہے کیونکہ جب وہ زیادہ مالدار ہو جاتی ہے تو وہ خود کو دیپالی لوگوں سے بڑا سمجھتی ہے اور اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے اور آخر کار زندگی سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتی ہے۔
“ یاسمین کے کردار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عورت کےلیے اس کا اپنے مذہب وتہذیب سے باغی ہو کر دیگر بیرونی عناصر کی طرف مائل ہونا اور انھیں اپنی کامیابی و ترقی کی اساس بنا کر ان پر بھروسہ کرنا محض فریبی اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں اور اس طرح کی عورتیں ہمیشہ پچھتاوے کا شکار ہوتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ایک عورت صرف اپنے فطری جذبات و احساسات کی بدولت ہی تعظیم کے عہدے پر فائز ہوتی ہے۔”(٣١)
اوما رائے کا کردار
اس ناول میں سیاسی سطح کے قومی اور انقلابی سرگرمیاں انجام دینے والی لڑکیوں میں سب سے عمر دراز لڑکی اوما رائے ہے یہ بنگال کے علی زمیندار اور سخت قدامت پرست ہندو برہمن خاندان سے تعلق رکھتی ہے اومارائے ایک رئیس زادی ہے اور بہت دولت ہے اس کے پاس۔
لیکن وہ سیاست کے چکروں میں اُلجھی ہوئی ہے اس کے ماں باپ کے بغیر اگر کوئی اُسےایک لفظ بھی کہتا ہے تو آگ بگو لا ہو جاتی ہے تین برس وہ لندن میں رہی ہے وہاں پر وہ اور ریحان ایک ہی ادارے میں پڑھتے ہیں البتہ اومارائے ریحان سے ایک کلاس سینئر بھی ہے وطن واپسی پر وہ ریحان سے ساتھ انقلابی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہے
وہ دراصل ریحان پر فریفتہ بھی ہے وہ انقلابی تحریک سے ہمدردی رکھتی ہے اس تحریک سے تعلق صرف ذہنی تفریح کی حد تک تھا اس کی دلچسپی تحریک سے زیادہ ریحان سے تھی ۔جب اُسے پتہ چلتا ہے کہ ریحان اور دیپالی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو وہ ان دونوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا کر کے ان کو جدا کر دیتی ہے مگر پھر بھی ریحان کو پانے میں ناکام رہتی ہے ۔
“اومارائے اعلیٰ طبقے کی فرد ہونے کی حیثیت سے کافی مغرور تھی اور ایک مفاد پرست اور مکرانہ ذہنیت کی مالک ”(٣٢)
اومارائے اپنے عروج و کامیابی کے زمانے میں مذہب سے بے نیاز ہو گئی تھی اور لادینی زندگی گزارنے میں ہی خوش و خرم رہتی تھی لیکن اپنی زندگی میں ناکامی و نامرادی اور تنہائی کا دکھ جھیلنے کے بعد وہ مذہب کی پناہ میں چلی گئی آخر کار اومارائے تما م تر مادی کامیابیوں اعلیٰ برتر مالی حیثیت کے باوجود محض ایک مقام پر تنہا و بے بس ہو کر رہ گئی ۔
روزی کا کردار
دیپالی کی طرح روزی بھی باغیانہ تیور کی حامل ہے جو متوسط دیسی عیسائی طبقہ سے تعلق رکھتی ہے یہ وہ دیسی عیسائی طبقہ تھا جو سیاسی ،سماجی ،معاشی مجبوریوں ،وسائل سے مجبور ہو کر محفوظ شناخت اور سہارے کا متلاشی تھا۔انگریزوں کی عیسائی مشتریاں اسے اپنے مذہب میں شامل کر لیتی ہے اور اس طرح یہ دیسی عیسائی طبقہ کمتر اور ادنیٰ حیثیت کے ساتھ وجود میں آیا ۔
روزی کے والدین بھی سماجی اور سیاسی جبر سے نجات کے لیے عیسائی بن گئے روزی چونکہ جدید ہندوستان کا ماڈل تھی اس لیے اسے اپنے والدین کا ماضی یعنی خاندانی پس منظر سے سخت حفت و کوفت محسوس ہوتی تھی اور اسی کے زیرِ اثر اس میں احساسِ کمتری پیدا ہوئی اور اسی لیے وہ جذباتی اُلجھن کا شکار بھی رہی روزی دیپالی کی ہم جماعت ہے یہ بھی دہشت پسند تحریک میں شامل ہوتی ہے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے گھر سے فرار ہو جاتی ہے
اور ایسے ہی ایک مرحلے میں گرفتار کر لی جاتی ہے ایک امیر آدمی بسنت کمار اسے ضمانت پر رہا کرا کے اپنے گھر رکھتا ہے قید کی تکالیف اور اپنے گھر کے افلاس کے مقابلے سے اسے یہ آسائش اچھی لگتی ہے ۔چنانچہ جب بسنت کمار اس سے شادی کی خواہش کرتا ہے تو وہ فوراً اس سے شادی کر لیتی ہے۔
“ روزی کا کردار ایسا ہے جو دوسرے کرداروں کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہے ۔”(٣٣)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں