آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کی تشریح

کتاب کا نام : میر و غالب کا خصوصی مطالعہ

موضوع: آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کی تشریح

صفحہ نمبر :209تا212

مرتب کردہ : ارحم

___💐___

(غزل 4)

شعر نمبر ایک

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

مطلب: مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں شعر کا مطلب بالکل واضح ہو گیا کہ عاشق کی معشوق کے دل میں اثر تو کرتی ہے مگر اس کے لیے ایک مدت دراز درکار ہوتی ہے شاعر کہتا ہے کہ ہمیں یہ توقع نہیں ہے کہ جب تک تیری زلفوں تک ہماری رسائی ہو اس وقت تک ہم زندہ رہیں گے

بنیادی تصور :دشواری وصل محبوب

شعر نمبر دو

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہیں قطرہ پہ قہر ہونے تک

مطلب: مطلب قطرہ تربیت ایک ہی گوہر بن جاتا ہے اور اس میں بے شمار دشواریاں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس نقطہ کو غالب نے اس طرح ادا کیا ہے کہ سمندر کی ہر موج ایک جال ہے اور اس جال کا ہر ہلکا گویا مگرمچھ کا حلق ہے

شعر نمبر تین

عاشقی صدر طلب اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

مطلب: عشق میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے صبر و تحمل لازمی ہے لیکن تمنائے وصال مجھے بے تاب کر رہی ہے جب تک خون جگر ہو کام تمام ہو دل کو کیوں کر سنبھالوں اس کی تسکین کا کیا سامان کروں

بنیادی تصور: دشواری زندگی عشق

شعر نمبر چار

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مطلب ہم نے ما ناکے جب تم کو ہمارے حال کی خبروں کے تو تم تغافل نہیں کرو گے مگر اس کا کیا علاج ہو کہ جب تک تمہیں خبر ہوگی ہمارا کام تمام ہو جائے گا

بنیاد تصور: بیاں حال شعر

نمبر پانچ

یک نظر پیش نہیں فرصت ہستی غافل

گرمی بزم ہے یک رقص شرر ہونے تک

مطلب: فرصت ہستی کو رقص شرف سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں کہ اے غافل فرصت ہستی بہت قلیل اور مختصر ہیں بس یوں سمجھ لے جیسے محفل میں شرف کا رقص ذوق نے اس مفہوم کو یوں ادا کیا ہے

کیا اعتبار ہستی ناپائیدار کا

چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا

شعر نمبر چھ

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

مطلب انسانی زندگی رنج و الم زحمت اذیت اور درد غم کی ایک مسلسل داستان ہے اس دکھ اور مصیبت کا علاج کسی سے نہیں ہو سکتا کیونکہ زندگی نام ہے دکھ کا بلکہ دکھوں کے لیے ایک طویل سلسلے کا یہ سلسلہ تو صرف موت سے ختم ہو سکتا ہے دیکھ لو شمع کی زندگی چلنے کے تسلسل کا نام ہے اس لیے وہ سیر ہونے تک چلتی رہتی ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح شمع خواہ محفل خوباں میں ہوں یا غریباں پر ہر حالت میں جلتی ہے اور جب تک ختم نہیں ہو جاتی اس کے جلنے میں کمی نہیں ہوتی اس طرح انسان خود سرمایہ دار ہو یا مزدور بادشاہ ہو یا گدا جب تک زندہ ہے غم ہستی میں گرفتار ہے ہر وقت کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ہے۔

بنیادی تصور: موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

نوٹ

یہ شعر وہ آئینہ ہے جس میں غالب کی پوری زندگی کا عکس نظر آتا ہے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

نوٹ: اس پوسٹ کے مواد کو گروپ کے ایک ممبر نے تحریری شکل میں منتقل کیا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلطی یا کمی پائی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری لکھنے والے پر ہوگی، پروفیسر آف اردو اس کا ذمہ دار نہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں