ابن انشا کے سفرنامے چلتے ہو تو چین کو چلیے کا ایک مطالعہ
انسان زیادہ لمبے عرصے تک یکسانیت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ تغیر کی خواہش اس کی فطرت میں شامل ہوتی ہے اور وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ وہ زندگی پر چھائے ہوئے جمود کو توڑ سکے۔ اسی لیے انسان کی تلاش جاری رہتی ہے۔ اسی تلاش کا ایک نتیجہ سفر کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ یہی تلاش اسے ملکوں ملکوں پھراتی ہے، اجنبی لوگوں سے ملاتی ہے، ان کی تہذیب و ثقافت سے، تاریخ سے، جغرافیہ سے روشناس کراتی ہے اور مختلف واقعات وحادثات سے دوچار کراتی ہے۔ اس دوران پیش آئے تجربات و مشاہدات سے انسان دوسروں کو بھی متعارف کرانے کی خواہش رکھتا ہے اور اپنی اس خواہش کو قلم کے ذریعے عملی جامہ پہناتا ہے۔ تو اس طرح ایک سفرنامہ وجود میں آتا ہے۔
اردو سفرنامہ نگاروں میں ابن انشا کسی تعارف کے مختاج نہیں۔ وہ اپنے دلکش اور مزاحیہ طرزِ تحریر کی وجہ سے اردو ادب میں اپنا انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف ممالک کا سفر کیا اور اپنے تجربات و مشاہدات کو سفرناموں کے قالب میں ڈھالا۔ پچھلے دنوں میں نے ان کا سفرنامہ "چلتے ہو تو چین کو چلیے” پڑھا اور جتنی جانکاری مجھے چین کے متعلق حاصل ہوئی بس اس کو دائرہ تحریر میں لانے کی کوشش کی۔
۱۶۰ صفحات پر مشتمل یہ مختصر سی کتاب تاریخ اور تہذیب و تمدن کا خوبصورت مرقع ہے۔ یہ سفرنامہ ان ادیبوں کی سیاحت کی داستان ہے جو ۱۹۶۶ء کو چین کے سفر پر گئے تھے۔ ابن انشا نے اپنا انفرادی اسلوب اختیار کرتے ہوئے چین کے حالات و واقعات کو قارئین تک پہنچایا ہے۔ سفرنامہ پڑھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیوں چین اتنےکم عرصہ میں دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا؟ وہ کون سے عادات و اطوار تھے جن کو اختیار کرکے چینی لوگوں نے اپنے ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کیا؟ یہ سب ان کی قربانیوں اور محنت کا ثمر ہے۔ اور ابن انشا نے اس سب کو دائرہ تحریر میں لا کر دریا کو کوزے میں بند کرنے کا کام کیا ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: ابن انشا کی تصانیف کا تنقیدی مطالعہ مقالہ pdf
ابن انشا نے چین کے قدیم اور جدید تاریخ کو قاری کے سامنے رکھا ہے۔ سفرنامہ میں ذکر کردہ جنگوں کی تفصیل پڑھ کر مغربی استعماری طاقتوں کا طرز عمل( جو کل تھا اور آج بھی اختیار کیے ہوئے ہیں) ہمارے سامنے آجاتاہے۔ چاہے وہ جنگ افیم ہو سرنگوں کی لڑائی ہو یا لانگ مارچ کی کہانی۔
چین میں اسلام کی تاریخ بھی ابن انشا نے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ وہاں پر مسلمانوں کے احوال اور شاندار مساجد ذکر بھی اس سفرنامہ میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ چین میں اردو زبان کے طالب علموں کا احوال بھی بیان کیا ہے اور کئ چینی نظموں کے اردو ترجمے جو ابن انشا نے کیے وہ نظمیں بھی اس سفرنامہ میں شامل ہیں۔
چین کے تاریخی عمارات کا ذکر بہت خوبصورت انداز میں ملتا ہے خاص کر وہ دس عظیم الشان عمارتیں جو انقلاب چین کے دسویں سالگرہ سے پہلے دس ماہ کے نہایت قلیل عرصے میں تعمیر ہوئیں(تالار عظیم، سنکیانگ اور تبت کے دیوان، پیکنگ کا ریلوے اسٹیشن وغیرہ)۔ یہ عمارتیں چین کے لوگوں کی محنت کشی اور ذوقِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں۔
چین کے گلیوں، سڑکوں، شاہراہوں اور بازاروں کی صورتحال وہاں کے لوگوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مصنوعات ملاوٹ سے پاک ہیں۔ اینٹیں مکان کی تعمیر میں استعمال ہوتیں ہیں نا کہ چیزوں میں ملاوٹ کے لیے۔ کہیں بھی کوئی نہ تو کچرا پھینک سکتا ہے اور نا پان تھوک سکتا ہے۔ چیزیں گم نہیں ہوتی اور اگر گم ہو جائے تو چوری ہونے کے بجائے آپ کو واپس مل جاتی ہیں ۔ بھیک کوئی نہیں مانگتا۔ جوا کھیلنے پر پابندی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات نہ ہونے کی صورت میں ہیں۔ عورتیں مردوں کی طرح کیتھی باڑی کرتی ہیں اور کارخانوں میں کام کرتی ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر موجود لوگ انگریزی یا مغربی زبان کا ایک لفظ نہیں جانتے اور چینی زبان میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر باہر ملک جانے کے بجائے اپنے ہی ملک کے گلی کوچوں میں مریضوں کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ ابن انشا تو اتنی صفائی دیکھ کر اپنے ملک کی آزادی کو یاد کرتا ہے۔ ایک طرح سے چیین کے مصنوعات اور وہاں کے لوگوں کی عادات کا ذکر کرکے ابن انشا نے چین اور پاکستان کا موازنہ کیا ہے اور اس میں لطیف سا طنز کا احساس بھی ملتا ہے۔
الغرض ابنِ انشا کا مزاحیہ اور شگفتہ اسلوب قاری کی دلچسپی اور تجسّس میں برابر اضافہ کرتا رہتا ہے اور کہیں بھی کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ ابن انشا نے اختصار سے کام لیتے ہوئے نہایت خوبصورتی کے ساتھ قدیم اور جدید چین کا منظرنامہ قارئین کے سامنے رکھا ہے۔
پروفیسر آف اردو : ابن انشاء احوال و آثار pdf
آر۔ ایم۔ سلیم
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں