ناول آگ کا دریا کا تنقیدی مطالعہ

ناول آگ کا دریا کا تنقیدی مطالعہ| A Critical Study of the Novel Aag Ka Darya

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. قرۃ العین حیدر نے آگ کا دریا کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا ہے جس کا نام The River of Fireہے ۔۔۔
  2. شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق آگ کا دریا ٣٠فیصد شاعری ہے۔۔۔
  3. گوتم نیلمبر دراصل اس ناول دیدک کال کے عہد کے ایک طالب علم کی حیثیت سے آتا  ہے۔۔۔
  4. چمپا ہندوستانی عورت کی علامت ہے ۔۔۔
  5. ہری شنکر خود اپنے آپ میں بدھ مذہب کا ایک طالب علم ہے جس کی ملاقات سر جوندی کے کنارے گوتم نیلمبر سے ہوتی ہے۔۔۔
  6. ہری شنکر شری واستو کے کردار کو مصنفہ نے زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے پھر بھی یہ کردار مصنفہ کی قوت مشاہد کی ایک اچھی مثال قرار دیا جا سکتا ہے

ناول آگ کا دریا کا تعارف

“آگ کا دریا ” قرۃ العین حیدر کا ضحیم ناول ہے جو ١٩٥٩ء میں شائع ہواتھا۔ناول آگ کا دریا کا عنوان جگر مراد آبادی کے اس شعر کےایک مصرعے کا ٹکڑا ہے ۔

“یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے ”

ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

قرۃ العین حیدر نے آگ کا دریا کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا ہے جس کا نام The River of Fireہے اس ناول  کو قرۃالعین حیدرکے ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔

اس ناول کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ ہندوستان کی تاریخ و تہزیب کے ڈھائی ہزار سال کواپنے دامن میں سمیٹے ہوا ہے ۔

“شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق آگ کا دریا ٣٠فیصد شاعری ہے اور نثر ہے یہ ناول ١٠١ابواب پر مشتمل ہے مرکزی کردار گوتم ،ہری شنکر ،چمپا اور کمال ہیں ”(٤)

بر صغیر کی تاریخ

قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول “آگ کے دریا ”میں برصغیر کی ڈھائی ہزار سال کی ثقافت پیش کی ہے ۔یہ ناول مہاتما بدھ کے زمانے سے شروع کر بر صغیر کی تقسیم کے بعد ختم ہوتا ہے ۔ہزاروں سال پرانی ثقافت کی تصویریں قلمی مناظر کی طرح دکھائی دیتی  ہیں لیکن مختلف تصویروں میں لپٹے ہوئے اَن گنت واقعات ہیں جنھوں نے مشترکہ تہذیبی روح کے وسیلے سے ناول میں ایک فطری وحدت پیدا کر دی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری

ناول کا موضوع

ناول کا موضوع وقت ہے لیکن اس ناول میں یہ موضوع اپنے پورے پھیلاؤ کے ساتھ موجود ہے انہوں نے وقت کو تین حصوں ،لمبائی ،چوڑائی اور گہرائی کے ساتھ دیکھنے دکھانے کی کوشش کی ہے ۔

ناول کے کردار جا بجا وقت کے متعلق اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ان کےنزدیک وقت ایک ایسی حقیقت ہے جو ازل سے ابد تک کے دونوں سروں کو ملاتی ہے قرۃ العین نے اس ناول میں شعور کی روکی تکنیک کو استعمال بہت مہارات سے کیا ہے جس سے ناول کے خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے ۔

“قرۃ العین نے کرداروں کے ذہنی شعور اور بہاؤ کی جدید تکنیک کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے اس ناول میں چمپا سے لے کر طلعت تک اور ابوالمنصور کمال الدین سے لے کر گوتم تک کی زندگی ایک جیسی معلوم ہوتی ہے “آگ کا دریا ”میں زیادہ تر کرداروں کو وقت کی رفتار اور ماضی میں منہمک پایا جاتا ہے ”(٥)

کردار نگاری

“آگ کا دریا ”میں تو زیادہ کردار ہیں لیکن اہم کرداروں میں گوتم نیلمبر،چمپا،ہری شنکر اور ابوالمنصور کماالدین احمد کے ہیں۔“آگ کا دریا ” میں  مختلف ادوار میں ایک ہی نام  بدل بدل کر کردار اور جاتے ہیں ۔

گوتم نیلمبر

گوتم نیلمبر سب سے نمایاں کردار ہے جو کہ شراوستی کا رہنے والا ہے اور ہندو فلسفہ اور مذہب کی تعلیم کی غرض سے جگہ  جگہ  قیام کرتا رہا ہے۔

گوتم نیلمبر دراصل اس ناول دیدک کال کے عہد کے ایک طالب علم کی حیثیت سے آتا  ہے اور علم کی پیاس بجھانے کے لیے جنگلوں میں گھومتا ہے ۔پھر موریوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاتا ہے غوریوں سے لڑائی کرتا ہےاور اس لڑائی میں اِس کاایک ہاتھ بیکار ہو جاتا ہے اس کے بعد اداکاری کو وہ اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے ۔

اس کے بعد انگریزوں  کے عہد میں گوتم ایسٹ انڈیا کمپنی کے مسلمان میں کلرک بن جاتا ہے اس طرزِ معاشرت سے متاثر ہوتا ہے اور چمپا پائی سے محبت کرنے لگتا ہے ۔لیکن اسے حاصل نہیں کر پاتا کلکتہ سے واپس جا کر وہ کالج میں داخلہ لے لیتا ہے اس کے بعد ملازمت ترک کر دیتا ہے کیونکہ وہ راجہ رام موہن رائے کی تقریریں سُن کر متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے برہمن سماج کا ایک جوشیلا کا رُکن بن جاتا ہے ۔

انگریزی دور میں گوتم ایک ایسے ترقی پسند نوجوان کے روپ میں سامنے آتا ہے جو انقلابی خیالات رکھتا ہے وہ ایک صحافی بن جاتا ہے ۔

جب ملک تقسیم ہو جاتا ہے تو ہندوستانی سفارت بنانے کا ایک رُکن بن جاتا ہے اور باہر کے ممالک یعنی انگلینڈ ،ماسکو اور نیو یارک کے چکر لگاتا ہے وہ ان مصروفیات سے فارغ ہوتے ہی وہ گھر واپس آ جاتا ہے اور ماضی کے نقوش اس کے دل پر اُبھرنے لگتے ہیں۔

“شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اُداس اُداس

دل کو کہیں کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں

ناول کے آخر میں وہ ایک تھکے ہارے تنہا اور شکست خوردہ انسان کی علامت بن جاتا ہے۔”(٦)

چمپا

چمپا ہندوستانی عورت کی علامت ہے پہلے دور میں چمپک نامی خاتون ایک وزیر کی بیٹی ہے چمپا کو گوتم جب سر جوت کے کنارے دیکھتا ہے تو اُسے پسند کرنے لگتا ہے ،مگر غوریوں کے لڑائی کے بعد چمپا احمد ایک فوجہ افسر سے شادی کر لیتی ہے دورِ جدید میں چمپا طوائف بن جاتی ہے جہاں بڑے بڑے حاکم اور نواب اس کے عاشق بن جاتے ہیں اور اودھ کی تباہی کے بعد ایک بھکارن کا رُوپ اختیار کر لیتی ہے ۔اور آخر میں احمد عامر رضا اور گوتم نیلمبر رت کی منظور ِ نظر بنتی ہے لیکن ا سے کوئی نہیں اپناتا ہے ۔

دوسرے دور میں یہی خاتون اپو دھیا کے ایک پنڈت کی بہن کے روپ میں نمودار ہوتی ہے تب تک ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی داغ بیل پڑ چُکی ہے ہماری ابدی ہیروئن یعنی چمپا ایک درباری مسلمان عال سید منصور کمال الدین کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے ۔

تیسرے دور میں یہی عورت اودھ کی ایک ذہین فطین اور تیز طرار طوائف کے طور سامنے آتی ہیں۔جس کی محفل میں انگریز نواب اور مسلم اشرفیہ کے لوگ آ کر بیٹھتے ہیں ۔ان میں منصور کمال الدین نام کا ایک شخص پھر موجود ہے لیکن طوائف کو عشق ہوتا ہے ۔

“گوتم نیلمبروت نامی ایک شخص سے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک وفادار ملازم ہے لیکن اس دور میں بھی خاتون ریلوے سٹیشن انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہے اور گوتم ہے کہ کلکتہ سے لوٹتا ہی نہیں ”(٧)

کمال کا کردار

مسلم تہذیب کا نمائندہ ہے جو ہندوستان کے شروع میں نمودار ہوتا ہے ۔اس کی سر زمین کو اپنا وطن بنا لیتا ہے شروع شروع میں منصور کمال ایک طالع آزما قافلے کے ساتھ نیشاپور سے ہندوستان آتا ہے جون پور کے دربار میں مترجم کے طور پر کام کرنے لگتا ہے اور چمپا ونی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے سکند رلودھی کی فوج جون پور کی ایک اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے جنگ کے ہنگامے میں چمپاوتی اور کمال جُدا ہو جاتے ہیں ۔

کمال چمپاوتی کو ڈھونڈنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتا کٹی پتنگ کی طرح اِدھر اُدھر ڈولتا رہتا ہے ۔آخر میں وہ بنگال جا کر آباد ہو جاتا ہے اور سجاتا دیوی نام کی ایک عورت سے شادی کر کے کسانوں کی سادہ زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے ۔کمال کا بڑا بیٹا مغلوں کے دربار میں ملازم ہو جاتا ہے جس پر کمال کو غدار قرار دیا جات ہےاور شیر شاہ سوری  کے سپاہی اسے موت کے گھات اُتار دیتے ہیں اگلے دور میں منصور کمال دو الگ الگ کرداروں کے سامنے آتے ہیں ۔

“منصور کمال بنگال کا ایک غریب مانجھی ہے یہ کمال اودھ کی طوائف چمپا جان کا مداح ہے چھوتی کہانی کا کمال کیمرج سے واپس لکھنؤ آتا ہے ۔تو وہاں سب کچھ اُجڑ چُکا ہے خاندان کی تمام پراپرٹی کو متروکہ جائیدادقرار دے دیا گیا ہے کمال پاکستان کی راہ لیتا ہے ۔”(٨)

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی تانیثی حیثیت | pdf

ہری شنکر

ہری شنکر خود اپنے آپ میں بدھ مذہب کا ایک طالب علم ہے جس کی ملاقات سر جوندی کے کنارے گوتم نیلمبر سے ہوتی ہے ہری شنکر کے اندر ایک بے چین روح ہے جو خود کو بلندی پر پہنچانے جاتے ہیں اسی غورو فکر کی متلاشی پہ روح جگہ جگہ بھٹکتی ہی رہتی ہے ناول میں ہلکا سا اشارہ  اس امر کی طرف بھی ہے کہ شاید کبھی چمپا ہری شنکر کو چاہتی تھی ،لیکن ہری شنکر ایک طرح سے اس کو بھلانے کیلئے ہے۔

“ ہری شنکر کا کردار دراصل اس تکون کا ایک اہم زاویہ ہے اگر چہ قرۃ العین حیدر نے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے ۔”(٩)

دورِ جدید کے نمایاں کردار

“آگ کا دریا ”اس دور میں کرداروں کا ایک جم ِ غفیر ہے اس دور بہت زیادہ کردار ہے مگر اس کے نمایاں اور اہم کردار نواب ابوالمنصور کمال الدین احمد عرف مکن سر ہاروڈ ایشلے چمپا بائی ،چمپا احمد گوتم نیلمبروت او رہری شنکر شری واستو ہیں لیکن ا س میں نواب کمن کا کردار ،کمال کا کردار چمپا احمد کا کردار ہی خصوصیت کےحامل قرار دیے جاتے ہیں ۔

سر ہاروڈ ایشلے

ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ناول میں جس فضا اور ماحول کا ذکر کیا گیا ہے اور جن سیاسی و معاشی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے اس میں سر ہاروڈ ایشلے کا کردار اہم ہے ۔سر ہاروڈ ایشلے لندن سے بنگال میں نپل کی کاشت کرنے کے لیے آیا ہے ۔اس کا باپ لندن ایک مفلوک الحال پادری تھا سر ہاروڈ ایشلے کو تجارت اچھی لگتی ہے اس میں خاص قسم کی تاجرانہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے

وہ اپنی منافع کے لیے ہر قسم کی تجارت کرتا ہے اور کسی بھی طرح کے ظلم اور بے ایمانی سے نہیں ہچکچاتا ہے ۔ اس لیے وہ بعد میں ہندوستان آ کر تجارت کی غرض سے خوب ترقی حاصل کرتا ہےاور رفتہ رفتہ اس کے یہاں اعلیٰ سوسائٹی کے لوگوں سے قریبی تعلقات قائم ہو جاتے ہیں وہ یہاں کے نوابوں اور رؤسا کی زندگی گزارنے اور اُن کے طور طریقوں بُری متاثر ہوتا ہے اور پوری طرح سے اُن کی نقل میں لگ جاتا ہے۔

“ اس کردار کے ذریعے مصنفہ نےنہایت فنی چابک دستی کے انگریز قوم کی ذہنیت کی عمومی صورتِ حال کو بیان کیا ہے جو سراسر ناانصافی اور استحصال پر مبنی ہے ۔”(١٠)

نواب کماالدین احمد عرف کمن

اس کردار کو پیش کرتے ہوئے مصنفہ نے دراصل وقت کی بے رحم کروٹوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور خاص طور پر اودھ کے نوابین کے زوال اور زوال آمیز معاشرے کا بیان کیا ہے یہ کردار ایک قسم کی داخلی تنہائی میں گُم ہے اور گُزرے ہوئے زوال آمیز معاشرے پر ماتم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

“ مصنفہ نے بڑی باریک بینی کے ساتھ اس کردار کو کچھ اس  طرح پیش کیا ہے کہ قاری کو بے اختیار سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے نواب کمن کا کردار قرۃ العین حید ر کی کردار نگاری کو ایک کامیاب مثال کہا جاتا ہے۔”(١١)

چمپا احمد کا کردار

چمپا احمد ایک توانا کردار بن کر سامنے آتا ہے ۔چمپا احمد ایک تعلیم یافتہ عورت ہے اس نےبنارس اور لکھنؤ سے فرانس اور کیمرج میں جا کر تعلیم حاصل کرتی ہے چمپا احمد ایک الگ ملک کی خواہش مند ہوتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے ۔وہ چمپا جس کی زندگی میں کئی مرد آتے ہیں چاہے عامر رضا صاحب یعنی بھیا صاحب چاہے گوتم نیلمبر ہو چاہے

چمپا ناول کے اختتام میں ہمیں یوپی کے ایک چھوٹے سے شہر مراد اباد کے محلے سر پر چادر لپیٹی بیٹھی ہوئی نظر آتی ہے ۔وہ کمال جو پاکستان بننے کا شدید مخالف تھا اسے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جانا پڑتا ہے۔

“ چمپا احمد ہندوستان میں رہنے ک شدید مخالف تھی اور پاکستان جانا چاہتی تھی مگر وہ ہندوستان میں ہی رہ جاتی ہے چمپا احمد بھی کمال کی طرح اپنے پیچیدہ مقدور کا شکار ہے اس کے کردار نے اتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اتنا کچھ سہا ہے کہ اب اس کا روح لگا تار تکلیف دہ مراحل سے گزرتی ہوئی ایک مایوس کن پختہ روح میں تبدیل ہو چکی ہے۔”(١٢)

ہری شنکر شری واستو

ہری شنکر شری واستو دراصل انگریز ریزیڈینس کے یہاں ایک منشی ہے لفظ شری واستو کا استعمال کائسٹ قوم کی طرف سے بڑا وضح اُشارہ ہے۔کائسٹ زمانہ قدیم سے ایک نسل تھی جو ہندوستان ،ایران اور مصر وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہے جس نے اٹھارہویں صدی کی شروعات سے ہی زیادہ تر منشی لکھنے پڑھنے کا کام سنبھال رکھا تھا ۔

یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری

“ہری شنکر شری واستو کے کردار کو مصنفہ نے زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے پھر بھی یہ کردار مصنفہ کی قوت مشاہد کی ایکاچھی مثال قرار دیا جا سکتا ہے ۔”(١٣)

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں