ناول ٹیڑی لکیر کا تنقیدی جائزہ

ناول ٹیڑی لکیر کا تنقیدی جائزہ | A Critical Analysis of the Novel Tehri Lakeer

تحریر پروفیسر برکت علی

ضدی کے بعد عصمت کا اہم ناول ” ٹیڑھی لکیر ( ۱۹۴۵ء) شائع ہوا ۔ آج بھی یہ ناول جدید اردو ناول نگاری میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

جس میں ایک کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے کردار محض پر چھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ تمام کردار اس ایک کردار کے ارد گرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اور مرکزی کردار شمشاد (شمن) کا ہے ۔ اُردو میں اس طرح کے کئی ناول لکھے گئے ہیں مثلاً امر او جان ادا وغیرہ مگر اس ناول میں ایک کردار کا جس طرح نفسیاتی ارتقاء پیش کیا گیا ہے کسی اور ناول میں نہیں ملتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی شخصیت اور فن pdf مقالہ

” ٹیڑھی لکیر شمن کے نفسیاتی تجربوں کی داستان ہے۔ بچپن سے لے کر ماں بننے تک اس کی شخصیت میں جو نفسیاتی عمل اور رد عمل وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کی عصمت چغتائی نے بڑی چابک دستی سے فن کارانہ عکاسی کی ہے۔

اس فنی پیش کش میں عصمت نے اپنی فکر ، وسیع مطالعے اور عمیق مشاہدے کو بروئے کار لایا ہے۔

اگر چہ یہ ایک کرداری ناول ہے لیکن اس میں شمن کے کردار کے ساتھ ساتھ عصمت چغتائی نے مختلف سماجی عوامل اور بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں اور اخلاقی قدروں کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے ۔

ٹیڑھی لکیر کی ادبی اہمیت کا اعتراف تقریباً اُردو کے ہر نقاد نے کیا ۔ انور خواجہ ٹیڑھی لکیر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اس ناول میں عصمت نے لکھنو اور یوپی کے شہری مسلمانوں کے متوسط طبقے کی ذہنیت، انداز فکر اور مخصوص بود و باش کو نہایت سلیقے نفاست، خلوص اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔

اس کے مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی ، کرداروں پر اس کی قدرت اور اس کے ایک صاف اور واضح سماجی نظریے نے اس ناول کو اردو ناول کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت عطا کر دی ہے ۔ ” (۱۷)

خلیل الرحمن اعظمی ٹیڑھی لکیر کی اہمیت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :

"یہ ناول صحیح معنوں میں نفسیاتی ناول ہے اور زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور جذبات کے ذریعہ جس طرح عصمت نے ان نفسیاتی گرہوں کو کھولا ہے۔

وہ ایک معجزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ عصمت نے افسانوں میں جستہ جستہ جن حقیقتوں کی ادوری عکاسی کی تھی وہ اس ناول میں ایک مکمل تصویر بن کر سامنے آگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری

اور غالبا ” ٹیڑھی لکیر عصمت کی وہ افسانوی تخلیق ہے جہاں انھوں نے اپنے نوجوانی کے تجربات کو ایک ایک کر کے استعمال کر لیا ہے اور اب اس سرمائے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ۔” (۱۸)

وقار عظیم نے ٹیڑھی لکیر کی اہمیت کی وضاحت یوں کی ہے:

"ٹیڑھی لکیر کی بنیاد اس نفسیاتی حقیقت پر ہے کہ انسان کا ماحول اس کی سیرت اور شخصیت کی تشکیل میں سب سے بڑا حصہ لیتا ہے۔

اور سیرت کی تشکیل و تغیر اس کے ظاہر و باطن کے امتزاج کا دوسرا نام ہے۔ انسان کا باطن ، اس کا ذہن ، اس کی نفسیاتی کیفیتیں اور پھر ان سب کے ساتھ تحت الشعور کا غیر مرئی عمل انسان کے ظاہری فعل کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔

انسانی ذہن ماحول کی الجھنوں سے نادانستہ طرح طرح کی گرہوں اور کھلیوں کا مجموعہ بن جاتا ہے اور یہ گرہیں خارجی عوامل میں بھی عجیب و غریب قسم کی گر ہیں ڈال دیتی ہیں۔

ان چیزوں کے علاوہ سماجی بندھنوں اور آزاد فطرت کے تقاضوں سے پیدا ہونے والے تصادم بھی انسانی زندگی کا ایک مستقل عذاب ہے۔

عصمت نے اپنے ناول میں ان حقائق کو خاصے سوچ بچار کے بعد فن کارانہ حسن کے ساتھ پیش کیا ہے۔” (۱۹)

مندرجہ بالا ناقدین کی آرا سے ٹیڑھی لکیر کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ناول اردو ناول نگاری میں ایک قابل قدر اور خوب صورت اضافہ ہے۔

جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے کہ یہ ناول ایک کردار کا ناول ہے اور یہ کردار شمن کا ہے۔ اس میں شمن کی تمام تر زندگی کا اس کی نفسیاتی پے چیدگیوں اور جنسی تقاضوں کے ساتھ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔

لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عصمت چغتائی نے اپنی تمام تر توجہ صرف شمن کے کردار پر صرف کی ۔

انھوں نے اس ماحول کی بڑی جاندار اور عمدہ فنی عکاسی کی ہے جس میں شمن اور اس جیسی دوسری لڑکیاں رہتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے بدلتی ہوئی معاشرت اور سماجی عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔

شمن کے علاوہ جو دوسرے کردار ہیں ان کے اعمال و افکار ، رفتار و گفتار کا بھی وسیع مطالعہ کیا گیا ہے۔

ان کی الگ الگ انفرادی خصوصیات کو فنی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب کردار جاندار اور پر کشش ہیں اور اپنے اپنے ماحول کی عکاسی بڑی خوبی کے ساتھ کرتے ہیں ۔

ڈاکٹر احسن فاروقی ٹیڑھی لکیر کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں:

"مس شمشاد اور ان سے متعلق تمام اوسط طبقہ کی زندگی ایک جادوگرانہ تیور کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

یہ تیور ناول کے اختتام میں مضمر ہے اور اس کے انتساب میں شمن ایسی لڑکی کی زندگی کا، جو ماں باپ رکھتے ہوئے بھی یتیم کہلائے ۔

ٹیڑھا پن ظاہر ہے۔ ایک عام مسلم اوسط طبقہ کا گھر جہاں گھر والی کا پھوہڑ پن گھر والے کی شہوت پرستی ہر چیز کو گندا اور گنجلک بنائے ہوئے ہے اور اولاد کی کثرت کے سوا اور کسی چیز پر نظر ہی نہیں جاتی ، ہمارے سامنے آجاتا ہے۔

اس گھر میں کوئی خاص بات نہیں۔ مگر مصنف کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس ٹیڑھے پن کو اس زور واثر کے ساتھ واضح کیا ہے کہ دل پھڑک اٹھتا ہے۔

جو دنیا ہمارے سامنے آرہی ہے وہ ہماری ہی معمولی دنیا ہے مصنف نے ہمارے شعور پر ایک ایسا برقی اثر طاری کر دیا ہے کہ ہم اس دنیا کو اس کی نظر سے ہی دیکھنے پر مجبور ہیں۔” (۲۰)

شمن کا کردار:

ٹیڑھی لکیر میں شمن مرکزی کردار ہے ۔ دوسرے تمام کردار اس کے گرد گھومتے ہیں۔ شمن متوسط مسلم گھرانے کی لڑکی ہے۔

اس گھرانے میں اولادوں کی کثرت ہے۔ یہاں اولاد پیدا تو کی جاتی ہے لیکن ان کی صحیح نشو ونما اور تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

پیدا ہوتے ہی شمن کو ٹیڑھا میڑھا معاشرہ ملتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات اور شخصیت ٹیڑھی ہو جاتی ہے عصمت چغتائی نے اس کی پیدائش کے لمحے سے ہی اس کو نا پسندیدہ ذات بنا دیا ہے۔

نو بچوں کے بعد شمن دسویں اولاد ہے۔ اس کی پیدائش پر عصمت چغتائی لکھتی ہیں:

"حد ہو گئی ! بہن بھائی اور پھر بہن بھائی۔ بس معلوم ہوتا تھا کہ بھک منگوں نے گھر دیکھ لیا ہے۔

انڈے چلے آ رہے ہیں۔ ویسے ہی کیا کم موجود تھے جو اور پے در پے آرہے تھے۔ کتے بلیوں کی طرح ازل کے مر جھکے۔”(۲۱)

شمن کی بڑی بہن اس کی پیدائش پر جل کر کہتی ہے :

"خدا غارت کرے اس منی کی بہن کو۔ اماں کی کوکھ بند کیوں نہیں ہو جاتی ہے ۔” (۲۲)

لیکن منی ہی بہن کو خدا نے غارت نہیں کیا بلکہ ماں کی ممتا بھری گود سے دور وہ انا کی گود میں پلنے لگتی ہے۔

وہ انا کے جواں اور نرم گوم جسم میں ماں کی ممتا پانے کی کوشش میں رہتی ہیں لیکن انا کی گرم آغوش بھی اس سے چھن جاتی ہے۔

کیونکہ اس گھر سے انا کو نکال دیا جاتا ہے۔ انا کے جانے کے بعد:

"اسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ یتیم ہوگئی۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر وہ کئی دن اور کئی رات روتی رہی ۔ سارا گھر اس کے چاروں طرف جمع ہو گیا مگر اسے چین نہ پڑا۔

وہ انا جس کے سینے سے چمٹ کر بالکل ماں کے پیٹ میں سونے کا مزہ آتا تھا بھلا وہ اب کہاں مل سکتی تھی۔

اسے وہ بوتل دیکھ کر ہی صدمے کا دورہ پڑ جاتا تھا جس سے اسے دودھ پلانے کی کوشش کی گئی۔

بھلا کہاں وہ سانولی سلونی گدگدی انا اور کہاں شیشے کی ذلیل بوتل ۔ مگر پیٹ کی آگ نے اسے سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور کر دیا۔

منجھو نے جب اسے گود میں لے بوتل پلائی اور چند قطرے بھولے سے اس کے حلق میں چلے گئے تو وہ خاموش ہو گئی۔

پھر بھی ایک دم سے وہ بوتل چھوڑ کر جلدی سے مجھ سے چمٹ جاتی اور پہلے کی طرح اس کے کپڑوں میں اپنی انا کو ڈھونڈنے لگتی تجربے نے اسے بہت کچھ سکھا دیا۔

اور بالکل جیسے گائے بیل چارہ کھاتے ہیں دودھ زہر مار کر پی لیتی ۔ مگر اس کے ہاتھ بھٹکتے ہی رہتے ۔

بوتل کی چکنی چکنی سطح پر وہ پیار سے اپنی ہتھیلیاں چپکا کر اسے کلیجے سے بھینچ لیتی ، شروع شروع میں تو دودھ پیتے پیتے ایک دم اسے انا کی آنکھیں ، اس کی ناک ننھی سی بالی اور کان کی لونگیں یاد آجاتیں ،

اس کا دل بھر آتا اور تھوڑی دیر کو چینی چھوڑ کر درد ناک آواز میں رونے لگتی مگر پیٹ کی پکارا سے چوکنا کرتی اور وہ خاموش ہو جاتی ۔” (۲۳)

شمن بچپن سے ہی محرومیوں کا شکار ہے ۔ وہ بچپن سے ہی محبت کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہے۔

ماں کی محبت کو اس نے انا میں ڈھونڈ لیا لیکن جب انا چھن جاتی ہے تو وہ پھر بھٹک جاتی ہے۔

انا کے جانے کے بعد اس کی بہن منجھو نے اس کی طرف توجہ دینا شروع کی۔ کہاں شیشے کی بوتل اور کہاں انا کی نرم گرم آغوش۔

شمن ابتدا میں ہی ایک چھوٹی سے شخصیت کا احساس رکھتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کے احساس میں لطافت اور جذبات میں گرمی پیدا ہوتی ہے۔

شمن کا المیہ ہے کہ کوئی اس کو سمجھ نہیں پاتا ہے۔ منجو اس کی طرف پورا دھیان دیتی ہے۔ منجھو سے اسے ماں کا پیار تو نہیں مل پاتا لیکن اس کی محبت بھری توجہ شمن کو کچھ سہارا تو دیتی ہے۔

لیکن یہ سہارا بھی عارضی ثابت ہوتا ہے ۔ منجھو شادی کے بعد سسرال جاتی ہے تو شمن پھر بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے ۔

محرومی اور تنہائی کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ اس کے اندر تخریبی عناصر سر ابھارنے لگتے ہیں۔

اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ ہر چیز کوتوڑے پھوڑے۔ کسی کو خوب مارے اور یہی احساس کبھی خواب میں اسے منجو کو نہلواتا، کپڑے پاہوا تا اور پھر اسے خوب مار مار کر گالیاں دیواتا۔

کبھی وہ اپنی گڑیا کو مارتی رہتی اور اس کے پرزے پرزے کر دیتی ہے۔ کبھی پڑھنے کے قاعدے کو کاٹ ڈالتی ہے ۔

وہ دن رات منجھو کے دولھے کے مرنے کی دعائیں مانگتی رہتی ہے لیکن منجھو کا دولھا نہیں مرتا ہے۔

البتہ بڑی آپا بیوہ ہو کر اپنی بیٹی نوری کے ساتھ میکے واپس آجاتی ہے۔

منجھو کے جانے کے بعد بڑی آپا شمن کی نگراں بن جاتی ہے لیکن وہ شمن سے ایسا سلوک روا رکھتی ہے کہ شمن کی محرومیوں میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

وہ اپنی بیٹی نوری کی تربیت کے لیے شمن کو استعمال کرتی ہے۔ ہر بری بات جس سے وہ نوری کو دور رکھنا چاہتی ہے شمن کے حوالے سے سمجھاتی ہے۔

شمن کو بد مزاج، بد تمیز ، پھوہڑ کہا جاتا ہے جبکہ نوری کو ہنس مکھ، شرمیلی ، ذہین اور با تمیز جیسے خطابات سے نوازا جاتا ۔

بڑی آپا شمن کو نوری کے لیے عبرت ناک سبق دینے کا بہترین وسیلہ بناتی ہے:

"کہنا نہیں مانو گی تو شمن کی طرح
پھٹکاریں گے سب
نہاوگی نہیں تو شمن کی طرح جوئیں پڑ جائیں گی۔

پڑھ لو نہیں تو شمن کی طرح جاہل رہ جاؤ گی۔

پھر تم نے شمن کی طرح ضد کی ۔”

شمن کی طرح جھوٹ بولنا خوب آتا ہے ۔

اور بی شمن ہی تمہیں بگاڑتی ہے۔

خبر دار جو اس کے ساتھ کھیلیں۔” (۲۴)

نوری تو سنور جاتی ہے لیکن شمن کی شخصیت بری طرح بگڑ جاتی ہے۔

شمن کے جذبات کو شدید ٹھسیں پہنچتی ہے۔ وہ اپنی ہتک بری طرح محسوس کرتی ہے۔

اسے بڑی آپا نوری اور پورے گھرانے سے شدید ترین نفرت کا احساس ہوتا ہے ۔ جب منجھو سرال سے واپس میکے آجاتی ہے تو شمن کے احساس پر جیسے کاری ضرب پڑتی ہے۔

شمن کو اس وقت اور زیادہ توہین محسوس ہوتی جب منجھو آتے ہی پاگلوں کی طرح سب کے گلے لگ جاتی ہے اور اسے نظر انداز کرتی ہے۔

بڑی دیر کے بعد جانے کیسے اسے ثمن یاد آتی ہے۔ وہ اس کے بارے میں پوچھتی ہے کہ وہ کہاں ہے تو :

"اس (شمن) کے دل کو بری طرح ٹھیسں لگی ۔ اوہ تو اب منجھو اسے پہچانے گی بھی نہیں ۔

یہ گھنٹہ بھر سے دروازے سے لگا کون ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔

کسی نے کئی بار اس کا ریشمی دو پٹہ چھو کر متوجہ کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ اور یہ کون صبر کیسے دیوار سے خاموش لگا کھڑا ہے۔

شمن نہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے۔ مگر اسے ماں بہنوں کے گلے لگنے سے فرصت ملے تو کسی اور کا بھی دہڑکتا ہوا دل ذرا سکون پائے ۔

آپا کی لڑکی نوری کو تو آتے ہی کلیجے سے لگا لیا۔ اور شمن جیسے پچھلی پیری چڑیل تھی کہ لوگوں کو نظر بھی نہ آئی”(۲۵)

یہ سب چیزیں مل کر شمن کی شخصیت کو بگاڑنے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہیں۔

یہ تمام احساسات اس میں خودداری کے ساتھ ضد اور بغاوت کو جنم دیتے ہیں۔

جس طرح لوگ اسے نھیں پہنچاتے ہیں ۔ وہ بھی ان کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ اس میں خود ہی اس کا نقصان ہوجاتا ہے ۔ وہ خود سے ہی انتقام لیتی ہے۔ وہ میلی کچیلی دن بھر سارے گھر میں پھرا کرتی ہے۔

نہ نہاتی ہے ۔ نہ کنگھی کرتی ہے ۔ صاف ستھرا رہنے سے جیسے اسے چڑھ آجاتی ہے ۔

نہ ہی گھر کا کوئی فرد اس کی صفائی کی طرف دھیان دیتا ہے۔ لیکن جب م جھو میلی کچیلی شمن کو دیکھتی ہے تو وہ پہلا کام یہی کرتی ہے کہ شمن کو نہلاتی ہے۔

شمن کے جذبات کی عکاسی بہت خوبی کے ساتھ کی گئی ہے:

"شمن ! اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ شمن کو بڑی بہادری سے کام لینا پڑا۔ ورنہ اس کے جسم کا رواں رواں کھینچ کر منجھو میں جذب ہو
جانے کے لیئے تڑپ اُٹھا۔

چل ادھر کم بخت ، کیا گت بنالی ہے۔ ذرا سے دنوں میں منجھو نے کس کس دو گھونسے جمائے ۔

شمن پھوٹ پڑی دُکھ سے نہیں ، ان توجہ بھرے گھونسوں کی لذت سے۔

اس کا جی دکھ اُٹھا۔ گھسیٹتی ہوئی اسے غسل خانے میں لے گئی۔

شمن کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ آنسو بے تاب ہو کر نکلے۔ گھٹے ہوئے بخار امڈ پڑے۔

منجھو کے گھونسے کی شیرینی جس کے لیے وہ ترس گئی تھی اس کی رگ رگ میں تیر گئی۔

اور پھر گھونسوں تھپیٹروں اور چانٹوں نے نہ صرف اس کے جسم پر سے بلکہ روح پر سے بھی میل کا غلاف اتار دیا اور اس لاش کو دوبارہ جگا دیا جو بالکل اس کے اندر سر گل چکی تھی۔
خون سرعت سے دوڑ نے لگا۔
مچھلیاں پھڑ کنے لگیں اور ذرا سی دیر میں وہ پرانی شمن کی طرح واویلا مچانے گئی ۔” (۲۶)

منجھو کی توجہ سے شمن ایک بار پھر جی اٹھتی ہے اور جب واپس سسرال جاتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے لیکن وہاں بھی وہ چین سے نہیں بیٹھتی ہے .

بلکہ منجھو کے دیور کے لڑ کے کد سے ہر وقت لڑتی رہتی ہے۔ اسے کدن سے اس لیے نفرت ہوگئی کہ بڑا ہو کر وہ شمن سے پٹ جاتا تھا۔

منجھو کی ساس سے بھی وہ جاتی ہے اور منجھو کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ اس کو دادی نہ کہ سکی بلکہ منجھو کی ساس کے نام سے ہی پکارتی تھی۔

جب منجھو کے بچہ پیدا ہوا تو اس کا دل پھر منجھو کے گھر میں نہ لگا اور وہ منجھو کی یاد کو ہمیشہ کے لیے دفنا کے واپس گھر چلی آتی ہے۔

وہ اب سمجھ لیتی ہے کہ دوسروں پر بھروسا اور اعتماد کرنا بے وقوفی ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔

دوسروں کے بجائے وہ خود پر یقین اور بھروسا کرنا سیکھ جاتی ہے۔ وہ انجام سے بے خبر اپنی مرضی کے مطابق ہر کام کرتی ہے۔

شمن ذرا بڑی ہو جاتی ہے تو گھر والوں کو اس کی تعلیم کا خیال آجاتا ہے۔ مولوی صاحب سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شمن کو ایک مسلم گرلز اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروایا جاتا ہے :

"شمن نے جب اسکول میں قدم رکھا تو پہلے اس نے چاروں طرف سے اطمینان کر لیا کہ کدھر کدھر سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہے۔

سب سے پہلے تو اس نے میٹرن کو سمجھا دیا کہ مہربانی کر کے نہ تو اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے جائیں اور نہ اسے گھر کی یاد نہ آنے کے لیے پیار کرنے کی کوشش کی جائے ۔

وہ اس قسم کے دکھاوے سے بخوبی واقف تھی اور منجھو کو پر رکھ چکنے کے بعد اسے یقین ہو گیا تھا کہ کسی سے محبت کرنا یا کروانا حد سے زیادہ مکاری ہے ۔

پیار سے وہ ایسی بھڑکتی جیسے نئی چڑیا بھٹکتی ہے۔ وہ ان باتوں کی عادی ہی نہ رہی تھی۔ نہ جانے کتنے دن سے نرم اور اخلاص بھرے الفاظ اس کے کانوں کے پاس بھی نہیں پھٹکے تھے،

ہر بات کے جواب میں گھر کی سننے کی عادت پڑ چکی تھی۔ لہذا وہ کوئی کام شاباش سننے کے لیے کرنا ہی نہ جانتی تھی بلکہ جب تک ہر قدم پر اسے ڈانٹ نہ ملتی وہ کچھ نا امیدی ہو جاتی۔” (۲۷)

چھوٹی ہی عمر میں شمن بے حد حساس ہو جاتی ہے ۔ گھر کے نامساعد حالات اس کی نفسیات میں شروع سے ٹیڑھا پن پیدا کرتے ہیں۔

اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ ٹیڑھا پن بڑھتا ہی جاتا ہے۔ خودسری ، ضد اور بغاوت اس کی ذات کی خاص خصوصیات بن جاتی ہیں ۔

سکول پہنچ کروہ اور بھی زیادہ بد زبان ، خود سر اور ڈھیٹ بن جاتی ہے۔ وہ انتہائی گستاخانہ رویہ اختیار کرتی ہے۔

اب وہ چھوٹی چھوٹی چوریاں بھی کرتی ہے اور نہایت ہی غلیظ باتیں بھی سیکھ جاتی ہے۔ اس اثنا میں اسکول میں ایک نئی ٹیچر مس چون آتی ہے ۔

ابتدا میں شمن مس چون کو بھی اپنی نت نئی شرارتوں سے ستانا شروع کر دیتی ہے لیکن مس چون کوئی توجہ نہیں دیتی ہے ۔

وہ شمن کو سزا دینے کے بجائے اسے کلاس کی پوری ذمہ داریاں سونپ دیتی ہے۔

شمن مس چون کے حسن سلوک سے کافی متاثر ہوتی ہے۔منجھو کے بعد وہ مس چؤن کے بہت قریب آتی ہے۔

اس کی زبان پر ہر وقت مس چون کا نام رہتا ہے ۔ لڑکیاں اس کو مس چون کے نام سے چھڑتی ہیں۔

لڑکیوں کی یہ چھیڑا سے مس چون سے دور کرنے کے بجائے اور زیادہ قریب کرتی ہے۔

مس چون کے التفات آمیز رونے کی بنا پر ہی شمن ان کو اپنے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہوا محسوس کرتی ہے۔

پہلے اس نے انا کی گود میں محبت ڈھونڈ نی چاہی۔ پھر منجھو میں اور اب مس چون میں کھوئے ہوئے پیار کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔

مس چون سے گہری جذباتی وابستگی اور دلچسپی اس محرومی کا ہی نتیجہ ہے جو گھر والوں سے محبت نہ ملنے کی صورت میں اس کے اندر جنم لیتا ہے ۔

شاید محبت و مروت اس کی تقدیر ہی میں نہیں ہے کیونکہ مس چون کو لڑکیوں کا اخلاق بگاڑنے کے الزام میں سکول سے نکال دیا جاتا ہے۔

یہاں بھی محرومی اس کا مقد رہتی ہے مس چون کی جدائی سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ چکنا چور ہو کے بکھرنے کو ہے۔

شمن کا سخت دل ہونا قدرتی بات ہے کیونکہ اس کے احساس پر یکے بعد دیگرے کئی چوٹیں پڑتی ہیں اور وہ کہتی ہے۔ شمن کا دل اب پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا ہے۔ اسلیے وہ فیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اسے مشن اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے لیکن جب وہ یسوع مسیح کی تعریفی نظمیں پڑھتی ہے تو اس کے عیسائی بن جانے کے خدشے کی بنا پر اس کو پھر پرانے مسلم گرلز اسکول میں بھیجا جاتا ہے ۔

اس اسکول کا ماحول اب پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکا تھا اور اس بگڑے ہوئے ماحول میں شمن کو رسول فاطمہ ایک بھوت کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

رسول فاطمہ انتہائی کر یہ صورت اور دبلی لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جنسی کے مرض کا شکار ہے ۔

شمن اور وہ چونکہ ایک ہی کمرے میں رہتی ہیں اس لیے وہ اپنی غلیظ حرکات سے شمن کی زندگی کا جنوں کی حد تک قافیہ تنگ کرتی ہے۔

اسے رسول فاطمہ سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ اسے رسول فاطمہ سے اللہ واسطے کا بیر ہو جایا ہے۔

وہ جتنا رسول فاطمہ سے دور رہنا چاہتی ہے اس قدر رسول فاطمہ اس کے نزدیک آنا چاہتی ہے۔

شمن اس کے رونے سے اتنا عاجز آتی ہے کہ ایک بار خود کو زبر دستی بیمار بنا کر مریضوں والے کمرے میں چلی جاتی ہے اور پھر میٹرن کی خوشامد کر کے اپنا کمرہ تبدیل کرواتی ہے۔

اسے اپنی دوست سعادت کے کمرے میں رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شمن کو بے انتہا خوشی ہوتی ہے لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے آنے سے سعادت خوش نہیں ہے.

سعادت اسے کہتی تو کچھ نہیں ہے لیکن شمن کو بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ سعادت اس سے نفرت کرتی ہے۔

یہ نفرت اس وجہ سے ہے کہ خود سعادت اور اس کی دوست میں ہم جنسی کا رجحان ہوتا ہے۔

نجمہ چونکہ بے حد خوب صورت اور تندرست لڑکی ہے اس لیے ثمن خود بھی اس میں دلچسپی لیتی ہے اور اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے۔

نجمہ سے اس کی چاہت جنوں کی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ رسول فاطمہ کے درد اور کو محسوس کرتی ہے۔

اسے رسول فاطمہ بری طرح یاد آتی ہے۔ وہ خود کو اس کا قاتل بجھتی ہے ۔ اس کا ضمیر اس کو کچھو کے دیتا ہے او وہ خود اپنے ضمیر کی مار کو سہتی ہے:

"رسول فاطمہ اس کی سوکھی کلائیاں اور چوہے کی شکل کے ہاتھ خراب صحت اور بد وضع جسم ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے آگے۔

اوہ، وہ اس کی قاتل تھی۔ وہ اس کی آخری التجا بھری سانسیں وہ کھٹی ہوئی آہیں شمن کو معلوم ہوا جیسے مکڑیوں کی طرح اس کے جسم پر رینگ رہی ہیں۔

مگر وہ تو مری نہیں تھی میرن نے کہا تھا وہ پہاڑ پر چلی جائے تو اچھی ہو جائے گی کاش کاش وہ پہاڑ پر چلی جائے شمن دعائیں مانگنے لگی۔” (۲۸)

نجمہ کو دیکھ کر خود شمن کے اندر ہم جنسی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ وہ نجمہ کے سامنے خود کو بے بس پاتی ہے اور اس طرح شمن کا کردار ایک اور نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہو کر کجروی کی طرف تیزی سے دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی شمن کے کردار کے اس میلان پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:

"جنس ہمارے سماج کا سب سے پیچیدہ مسئلہ یا سب سے ٹیڑھی لکیر ہے۔

ہندوستانی معاشرت میں اخلاقی پابندیوں اور جنسی شعور کے مناسب نشو و نما پانے کی وجہ سے متوسط طبقے کی ایک ذہین اور ہونہار لڑکی جس طرح نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتی ہے۔

اور اس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر جس جس نوعیت سے پڑتا ہے اس کی جتنی کامیاب عکاسی عصمت نے کی ہے اس کی مثال مشکل سے مل سکتی ہے۔’ (۲۹)

نفیسات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جنس کا جذبہ عورت کی زندگی کو مرد کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرتا ہے اور پھر جب ماحول اور معاشرے کی رکاوٹیں بھی ہوں تو عورت میں جنسی کشمکش اور تصادم زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔

اور اس طرح کا کردار زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ شمن کے کردار میں اس نفسیاتی حقیقت کو سامنے رکھنا ہوگا۔

چھٹیوں کے بعد جب نجمہ کی یاد دل میں سمائے دوبارہ اسکول آ جاتی ہے تو اسکول کی ساری فضا بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔

اس کی تمام واقف کار لڑکیاں مختلف جگہوں پر بکھر جاتی ہیں۔ یہ بدلی ہوئی صورت حال شمن کے اندر بھی بہت ساری تبدیلیاں لاتا ہے ۔

اس کی ملاقات اسکول کی پرنسپل کی چھوٹی بہن سے ہو جاتی ہے جو اس کو یہ سمجھاتی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکیوں پر نہیں لڑکوں پر مرنا چاہیے۔

کیوں کہ ان سے شادی کر کے ہمیشہ ان کے ساتھ بھی رہا جا سکتا ہے۔

یہ بات شمن کی سمجھ میں بھی آجاتی ہے۔ اسکول کی لڑکیاں اپنے معاشقوں کی کہانیاں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کو سناتی ہیں۔

لڑکیاں شمن سے بھی اس کے عاشق کے بارے میں سننا چاہتی ہے لیکن شمن کا کوئی عاشق ہی نہ تھا جو وہ سناتی۔ لڑکیاں اس کو چھیڑتیں :

"تم بھی اپنی باتیں بتاو کہ بلقیس کہتی ۔ واہ۔ ہماری کوئی بھی بات نہیں ۔چپ کیسی ہو تم تمہیں کوئی نہیں چاہتا،

بہمن کا دل بجھ جا تا شرم اور احساس کمتری سے اس کے گال تمتما جاتے۔” (۳۰)

اور یہی احساس کمتری شمن کے دل میں کسی کو چاہنا اور کسی سے چاہے جانے کی تمنا کو جنم دیتی ہے۔

یہ خواہش اسے نجمہ کو بھول کر بلقیس کے بھائی رشید میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتی ہے۔

بلقیس پہلی بارشمن کو رشید سے ملواتی ہے۔ بعد میں یہ ملاقاتیں بڑھنے لگتی ہیں ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگتے ہیں۔

وہ رشید کے ساتھ گھومنے جاتی ہے۔ سینما دیکھنے جاتی ہے۔ اس کے گھر جا کر اس سے کیں کھاتی ہے۔

اس دوران ہوسٹل میں دو امیر لڑکیاں نسیمہ اور اس کی چھوٹی بہن کوکو آجاتی ہیں۔

اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ پرنسپل بھی ان سے متاثر ہو جاتی ہے۔ بلقیس اور رشید شمن کو بھول کر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

رشید نسیمہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ نوری اور جلیں بھی ان دو بہنوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور شمن ایک بار پھر خود کو تنہا محسوس کرتی ہے۔

اس تنہائی اور محروی پر شمن جھنجلا جاتی ہے ۔ ان احساسات کی شدت سے وہ باغی بن جاتی ہے۔ اس کے دل میں ہر چیز کے لیے بغاوت پیدا ہو جاتی ہے۔

شمن نسیمہ کو اپنا شمن سمجھنے لگتی ہے۔ نسیمہ انگریزی میں بہت تیز ہے لیکن اُردو میں نہایت کمزور۔ انگریزی اچھی ہونے کی وجہ سے وہ کلاس میں سب کو متاثر کرتی ہے۔

اور شمن کو نسیمہ سے اور بھی چڑ ہو جاتی ہے۔ وہ نسیمہ کو کسی بھی طرح اپنے سے کمتر ثابت کرنا چاہتی ہے ۔

وہ نسیمہ کو شکست دینے کی ضد پکڑ لیتی نسیمہ واپس گھر چلی جاتی ہے تو رشید پھر شمن کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

وہ بھی سب کچھ بھول کر رشید کی طرف ملتفت ہو جاتی ہے لیکن گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جب وہ دوبارہ اسکول آجاتی ہے تو رشید کے انگلیڈ جانے کی خبر اس پر بجلی بن کے گرتی ہے:

"شمن کو ایسا معلوم ہوا جیسے فلم کی ریل چلتے چلتے بیچ میں سے ٹوٹ گئی۔

اور ہال کی بجلیاں پھٹ سے روشن ہو گئیں۔ ان کی کرخت روشنی کی نوکیلی شعاعوں سے اس کی آنکھیں چند ہیا کر جھپک گئیں۔

خاموش اور خوف زدہ وہ سانس روک کر سمٹ گئی۔ بچہ شرارت کرنے میں انگلی کاٹ لیتا ہے تو جھٹ اسے کرتے میں چھپاتے سہا ہوا کونے میں دہک جاتا ہے ۔

شمن کے احساسات بھی دُکھ اور شرم سے خوف زدہ ہو کر نہ جانے دل کے کسی سنسان کونے میں اوندھے جاگرے ہمیشہ کے لیے۔” (۳۱)

رشید کی بے وفائی سے وہ دل برداشتہ ہو جاتی ہے ۔ اس اثنا میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نسبت بچپن میں ہی اس کے خالہ زاد بھائی اعجاز سے ٹھہری ہے۔

تو وہ اعجاز سے اپنی شدید نفرت کو محسوس کرتی ہے۔ اسے اعجاز (اجو) کی بے ہنگام شکل وصورت ، اس کے عجیب و غریب عادات اور اس کی بے وقوفانہ حرکات سے چڑ ہو جاتی ہے:

"جب ثمن ابو کو دیکھتی ہے تو وہ اسے موٹی سی گستاخ گالی نظر آتا۔ اس کے جذبات کھول کر بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ۔

اور اس کا جی چاہتا کہ اس کی بوٹیاں دانتوں سے چبا کر تھوک دے۔” (۳۲)

دن میں بظاہر سیدھا سادہ بےوقوف سا اجو بے ضرر دکھائی دیتا لیکن رات ہوتے ہی وہ ایک ڈراونے بھوت کی صورت میں شمن کو نظر آتا ۔

وہ اجو کی آنکھوں میں عجیب طرح کی بھوک کو محسوس کرتی ۔ اس کی نفرت میں خوف بھی شامل ہو جاتا ہے۔

وہ دن رات اجو کے مرنے کی دعائیں مانگا کرتی لیکن اجو مرتا نہیں البتہ زبردست بیمار پڑجاتا ہے شمن کی بے نیازی اور بے رخی اعجاز کو لے ڈولتی ہے۔

جب شمن کی خوشنودی حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ اس گھر سے چلا جاتا ہے اور شمن سکھ کی سانس لیتی ہے۔

لیکن پانچ سال کے بعد یہی اعجاز بالکل ایک نئے اعجاز کے روپ میں واپس آ جاتا ہے۔ وہ مریل سا لاغر جسم والا اعجاز انتہائی وجیہہ ہو کر آتا ہے۔

اس کی ذات میں جو چھچھورا پن تھا اس کو اعجاز چھوڑ کے آیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا اعجاز شمن کو اب بھی بات بات پر چھیڑتا ہے۔

اگرچہ شمن اس کی بدلی ہوئی شخصیت سے متاثر ہوتی ہے لیکن وہ اب بھی اعجاز سے لاپرواہ رہتی ہے لیکن اعجاز کی مسلسل چھیڑ چھاڑ اور اس کی شخصیت کے رنگوں کے سامنے وہ بے بس ہو جاتی ہے۔

وہ لاشعوری طور پر اعجاز سے دلچسپی محسوس کرتی ہے لیکن اس حقیقت سے وہ انکار کرنا چاہتی ہے۔

اعجاز سے اپنی چاہت کو پرانی نفرت ہی سمجھتی ہے کئی دن سے شمن محسوس کرتی ہے کہ اعجاز اس سے باتیں کرنے کا خواہش مند ہے لیکن شمن اس کو کوئی موقع نہیں دیتی ہے۔

اعجاز کی پریشانی سے شمن کو انتہائی طمانیت کا احساس ہوتا ہے لیکن ایک رات سب کے سونے کے بعد اعجاز اس سے بات کہنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے جس کے لیے وہ پریشان رہتا ہے:

” شمن ! اس نے آہستہ سے پکارا کیا ہے؟۔
یہاں بیٹھ جاوں ، مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی جواب دے اعجاز پلنگ کے کونے پر بیٹھ گیا۔

شمن ! ایک بات کہوں؟ … کئی دن سے ….. اس کی آواز اٹک گئی شمن کے ہاتھ پیر سن ہونے لگے۔
جملہ جو اس نقطے پر جمع ہو کر بھنچنے لگے، اس نے سانس روک لی۔

تم جانتی ہو دو سال کی ٹرینینگ اور ہے اور پھر کسی اچھی جگہ پوسٹ ہو جاؤں گا ۔

چچا میاں کی جائداد بھی کافی ہے مگر میں سوچتا ہوں شملہ پر ایک کوٹھی خرید لی جائے تو”۔

کوٹھی اور باغ نارنگی کی کلیاں شمن کی انگلیاں اینٹھنے لگیں ۔

میرے خیال میں میری حیثیت کا انسان ایک تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے ناموزوں تو نہیں ٹھیک ہے نا۔

اعجاز: اس نے سانس کو پھیپھڑوں میں گھونٹا ہاں شمن ….. یہ لوگ تو جاہل ہیں . کچھ نہیں سمجھتے۔ احساس کمتری ہے اور کچھ نہیں۔

تو بس اب تمھارے ہاتھ میں ہے سب کچھ ۔ میرے میرے ہاتھوں میں شمن نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں تا کہ وہ نا معلوم کی دولت کہیں رینگ نہ جائے ۔

وہ تمہاری دوست ہے نا …
ابی ؟ شمن نے مضبوطی سے ٹیوب میں ہوا روک دی۔

ہاں بلقیس تمہاری پرانی دوست ہے ….. تم چاہو تو شادی کروا سکتی ہو۔” (۳۳)

شمن ٹوٹ جاتی ہے۔ اعجاز اسے زبردست شکست دیتا ہے لیکن وہ یہ شکست واپس اعجاز کے منہ پر مار دیتی ہے۔ وہ اسے پوری طرح باور کراتی ہے کہ بلقیس کا ٹیسٹ اعجاز سے کہیں زیادہ اونچا ہے۔

اس لیے بلقیس کبھی بھی اعجاز کے ساتھ شادی کرنے پر راضی نہیں ہوگی ۔ اعجاز دل برداشتہ ہوجاتا ہے، جانے سے پہلے اعجاز اور شمن کی بات پھر چھڑ جاتی ہے لیکن شمن یہ کہ مر انکار کرتی ہے کہ اعجاز کے علاوہ ہر جانور سے وہ شادی کر سکتی ہے۔

وہ انتہائی بے دردی کے ساتھ شادی کی تجویز کوٹھکرا کر اعجاز سے انتقام لیتی ہے:

"زور لگا کر اس نے ہر گرفت سے پھسلنا شروع کیا۔ بغاوت! اس کی رگ رگ سے غرور پھڑک اٹھی۔

اسے خود اپنی طاقتوں پر حیرت ہونے لگی اس نے سب کے منہ پر طمانچہ مار دیا۔

دل توڑ دیے۔ امیدیں خاک میں ملا دیں ، اوہ کتنی ظالم تھی وہ ؟ -” (۳۴)

اس کے بعد شمن کا چچا زاد بھائی عباس ان کے گھر میں رہنے لگتا ہے ۔ چونکہ وہ انجیر ہے اس لیے خاندان کی سب لڑکیاں اس پر مرنے لگتی ہیں۔

اور شمن بھی عباس کو پسند کرنے لگتی ہے لیکن یہاں بھی شمن دھوکا کھا جاتی ہے۔ عباس شادی شدہ تھا اور یہ خبر چھپا کر خاندان کی ہر لڑکی سے محبت کرنے کا دم بھرتا تھا اور ان کو بے وقوف بنا کر عیش کرتا تھا۔

اس کے شادی شدہ ہونے کی خبر سے شمن ایک بار پھر دھوکے کا شکار ہو جاتی ہے۔

شمن غم اور ستم سہنے کی عادی ہو جاتی ہے۔ اعجاز اور رشید اور اب عباس سب اس کو ٹھیس پہنچاتے ہیں لیکن شمن ہمت ہارتی نہیں ہے ۔ زندگی سے تھک نہیں جاتی ہے۔

وہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک امریکن مشنری کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیتی ہے۔

اسکول کی محدود دنیا سے نکل کر جب وہ کالج کی وسیع دنیا میں آجاتی ہے تو اس کو زندگی بھی بہت وسیع اور وقیع معلوم ہونے لگتی ہے۔

کالج کی دنیا اس کو انتہائی خوب صورت دنیا محسوس ہو جاتی ہے ۔ کالج کی ہنگامہ خیز دنیا ہی میں پریما سے اسکی ملاقات ہو جاتی ہے۔

بے ماں کی پریما سے اس کی پکی دوستی ہو جاتی ہے ۔ وہ پریما کے گھر آتی جاتی ہے۔ اس کے والد رائے صاحب اور بھائی نرنیدر سے وہ بہت جلد بے تکلف ہو جاتی ہے ربے ہے۔

وہ راے صاحب کو انتہائی وجیہہ ہنس مکھ اور ملنسار انسان پاتی ہے۔ چونکہ راے صاحب اپنے بچوں سے بے حد تکلف ہیں اس لیے وہ ان کے دوستوں سے بھی ایک بے تکلف دوست کی طرح ملتے ہیں۔

وہ پریما کی طرح شمن سے بھی بے حد پیار کرتے ہیں۔ محبت کی بھو کی شمن ارئے صاحب کی محبت اور توجہ پاکر ان سے بہت متاثر ہوتی ہے۔

لیکن وہ رائے صاحب کی بے تکلفی کو کچھ اور ہی سمجھ بیٹھتی ہے اور ایک دن نہایت بے وقوفانہ اور بھونڈے طریقے سے راے صاحب سے اظہار عشق کرتی ہے۔

لیکن اظہار عشق کرنے کے بعد وہ انتہائی ندامت اور خوف محسوس کرتی ہے۔

"شمن کا جی چاہتا ہے کہ کاش پلنگ سمیت ۔ وہ زمین میں ساتی چلی جائے، نیچے۔ نیچے اتنے نیچے کہ بالکل زمین کے کلیجے میں جا چھے۔”

مارے بہیت اور شرم کے وہ آنکھیں بند کیے اس طرح شام تک پڑی رہی ۔ کوئی ایسی ترکیب ہوتی جو وہ بنا کچھ کہے سنے اپنے منہ ڈھانکے وہاں سے بھاگ نکلتی ۔

اس کے کمرے میں کوئی نہ آیا مگر اسے صاف معلوم ہو گیا کہ نریندر اور پریما دوسرے کمرے میں ڈرے ڈرے کیا باتیں کرتے رہے۔ یہ اس نے کیا کر دیا ؟ ۔ اب کیا ہوگا۔” (۳۵)

شمن کا راے صاحب سے اظہار عشق کرنا غیر فطری تو معلوم ہوتا لیکن تعجب خیر ضرور محسوس ہوتا ہے۔ دراصل ٹیڑھی لکیر شمن کے ایسے ہی مختلف اور متضاد واقعات اور کیفیات سے وجود میں آنے والا ایک ایسا منفرد و ممتاز ناول ہے جس سے اُردو ناول میں جنسی اور نفسیاتی حقیقت نگاری کے نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔

بشکریہ مقالہ بعنوان اردو ناول میں خواتین کا حصہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں