قدرت اللہ شہاب کی کتاب یا خدا کا تنقیدی جائزہ
قدرت اللہ شہاب کی تحریر یا خدا کو ناقدین مختلف نظر سے دیکھتے ہیں، کوئی افسانہ کہتا ہے تو کوئی طویل افسانہ کسی نے ناولٹ کا نام دیا اور کسی نے ناول کا۔
اب یہ ساری اصناف فکشن سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان کو فن اور تکنیک کے اعتبار سے بھی ایک سا سمجھیں ۔
بعض ناقدین نے ان اصناف میں فرق محض صفحات کی بنا پر کیا ہے۔ ادب کا عام مطالعہ کرنے والا شخص مختصر تحریر کو دیکھ کر افسانہ اور ضخیم کو ناول قرار دے گا اور درمیان کی تحریر کوناولٹ کہے گا۔
یہ تو کسی بھی صنف کو سمجھنے اور پر کھنے کا معیار نہیں۔ اگر محض صفحات صنف کا تعین کرتے ہیں تو ”یا خدا کے ۶۳ صفحات ہیں ۔ اب اگر ہم اسے افسانہ کہیں تو عام قاری ۱۵، ۲۰ صفحات کی تحریر کو افسانہ کہے گا۔
طویل افسانہ سمجھیں تو کرشن چندر کا پہلا طویل مختصر افسانہ زندگی کے موڑ پر ۶۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ یوں یا خدا طویل افسا نہ ہوا لیکن کرشن چندر کا دوسرا طویل افسانہ گر جن کی ایک شام ۳۲ صفحات اور حیات اللہ انصاری کا ”آخری کوشش ۳۸ صفحات کا طویل افسانہ ہے۔
”گر جن کی ایک شام اور آخری کوشش کے صفحات قریب قریب ایک جتنے ہیں لیکن یا خدا کے ۶۳ صفحات کو اگر ناقدین افسانے کا نام دیں تو حیات اللہ انصاری کا افسانہ ڈھائی سیر آنا ۲۰ صفحات پر محیط ہے ۔
اگر ناولٹ کہا جائے تو راجندرسنگھ بیدی کا ایک چادر میلی سی ۱۲۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ بلونت سنگھ کا ناولٹ ” رات چور اور چاند ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ ۴۰۰ صفحات کو دیکھتے ہوئے قاری اسے ناول کا نام دے گا۔
اگر ۴۰۰ صفحات ناول کا تعین کرتے ہیں تو یا خدا ۶۳ صفحات پر محیط ہے۔ علی پور کا ایلی (دو جلدیں) اور لہو کے پھول ( پانچ جلدیں) رکھتے ہیں تو کون سی صنف قرار پائیں گے، کیا ہم انھیں طویل ناول کہیں گے؟
سرسری اور اوسط درجے کا مطالعہ کرنے والا ان اصناف کو صفحات سے پر کھے اور سمجھے گا لیکن ادب کا غیر معمولی مزاج رکھنے والا فن اور تکنیک کے مطابق ان اصناف کو مختلف نام دے گا۔ یا خدا کی فنی اور تکنیکی اور جدت کا مشاہدہ کرنے کے لیے ہم نے یہاں گر جن کی ایک شام، آخری کوشش، ڈھائی سیر آنا اور ایک چادر میلی سی کا انتخاب کیا ہے۔
ان کے ذریعے ہم یا خدا کا تجزیہ کریں گے ۔ کرشن چندر کا طویل افسانہ گر جن کی ایک شام فن اور تکنیک کے اعتبار سے طویل افسانہ ہے ۔ ورنہ ۳۲ صفحات پر افسانہ بھی لکھا جا سکتا ہے ۔ اصل مسئلہ فن اور تکنیک کا ہے۔ ان تمام اصناف کے اجزائے ترکیبی تقریباً ملتے جلتے ہیں لیکن فنی اور تکنیکی خوبیاں جدا ہیں ۔
اب ہم یا خدا کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ فکشن کی کس صنف میں شامل ہے ۔ بعض ناقدین ادب نے اسے افسانہ، بعض نے طویل افسانہ اور بعض نے ناولٹ کا نام دیا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اسے ناول قرار دیا ۔ ممتاز شیریں جنھوں نے ”یا خدا کا دیباچہ لکھا، یا خدا کو طویل افسانہ گردانتی ہیں ۔
ممتاز شیریں ” یا خدا کے حوالے سے لکھتی ہیں:”فسادات کے افسانے یا تو براہِ راست فسادات، یعنی کشت و خون اور ہنگامے سے تعلق رکھتے ہیں یا مابعد فسادات ان کے تباہ کن اثرات سے جنھوں نے ہماری زندگی میں ایک گہرا گھاؤ چھوڑا ہے۔
"یا خدا” موخر الذکر نوع سے متعلق ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس طویل مختصر افسانے میں ایک مظلوم، اغواشدہ لڑکی کی بپتا سنائی ہے۔ اس کہانی کا اصل المیہ تو یہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں ظلم سہہ سہہ کر جب دلشاد اپنے "روحانی وطن” مغرب میں پناہ لینے آتی ہے تو اپنے بھی اس سے بیگانوں کا سا سلوک کرتے ہیں۔
اپنوں اور بیگانوں سے اس نے وہ صدمے اٹھائے ہیں، اس کی عصمت یوں لٹی ہے کہ اب اس کا ضمیر مر چکا ہے، اسکی روح مسخ ہو چکی ہے اور وہ جسم فروشی کو ذریعہ معاش بنا لیتی ہے ۔ (1)
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ” یا خدا کو طویل افسانہ خیال کرتے ہیں اور اس وقت کے لکھے جانے والے افسانوں میں اسے طویل مختصر افسانہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی یا خدا کی فنی و موضوعاتی خوبیوں کو سراہتے ہوئے ” آج کا اردو ادب میں یوں رقم طراز ہیں:
"تقسیم ملک اور ہجرت سے متاثر ہو کر لکھے جانے والے افسانوں میں قدرت اللہ شہاب کا طویل مختصر افسانہ اس دور کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔
اس میں انسان درندے کا روپ اختیار کر لیتے ہیں اور جو ظلم وستم انگریزوں کے دور غلامی میں بھی نہ دیکھا نہ سنا گیا تھا۔ اس سے بڑھ کر آزادی کے پہلے تحفہ کی صورت میں ملتا ہے۔ ایسے افسانوں میں جذباتیت کا ایک نمایاں عنصر ہونا تعجب کی بات نہیں، اس میں اس دور کے ایک المناک منظر کو سلیقے سے افسانے کی صورت دی گئی ہے۔“ (۲)
ممتاز شیریں اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی طرح ڈاکٹر شفیق انجم بھی ” یا خدا کو طویل افسانوں میں شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ” اردو افسانہ (بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں اور رجحانات کے تناظر میں )“ میں ” یا خدا کی کہانی بیان کرتے ہوئے اسے طویل افسانہ قرار دیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طویل افسانے میں قدرت اللہ شہاب نے تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان کی فضاؤں میں گونجنے والی کرب ناک صورت حال کی جھلک دکھائی ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں:
"قدرت اللہ شہاب نے فسادات کے حوالے سے یا خدا لکھا۔ اس طویل افسانے میں بہ ظاہر ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے خالصوں نے فسادات کے موقع پر مسجد کے حجرے میں بند رکھا تھا اور وہاں اس کی عصمت دری کر کے اپنی دانست میں ساڑھے تیرہ سو سال کی اذانوں اور نمازوں کا بدلہ چکاتے تھے لیکن اس افسانے کا اصل جوہر پاکستان سے متعلق خوابوں کی شکست وریخت ہے۔
یا خدا کی کرب نا کی وہاں آکر اور بڑھ جاتی ہے جب پاکستان آنے کے بعد دلشاد اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھ لٹتی ہے۔ پاکستان میں امریک سنگھ اور تر لوچن سنگھ کی بجائے انور، رشید اور دوسرے مسلمانوں کی ہوس ناکی اس کو نوچ کھاتی ہے ۔ مولوی ، خدام خلق ، قوم کے لیڈر اور سیاست دان غرض ہر چہرہ داغ دار ہے۔
یہ داغ پھیلتے پھیلتے اس پورے تسلسل کو گھیر لیتے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کی تعمیر ہوئی۔ شہاب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر حقائق کی عکاسی کی ہے اور طنزیہ، زہر خند اور بے باک لہجے میں ان نعروں کا پول کھلا ہے جو تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان کی فضاؤں میں کو نجتے رہے ۔ (۳)
ڈاکٹر فردوس انور قاضی نے اردو افسانہ نگاری کے رجحانات میں یا خدا کو طویل افسانہ تصور کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:” یا خدا ان کا طویل افسانہ ہے۔ یہ افسانہ پاکستان بننے کے بعد جو حالات اور انسان سوز واقعات پیش آئے ان میں سے ایک واقعہ ہے ۔ (۴)
بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ خود قدرت اللہ شہاب نے بھی اسے طویل افسانہ ٹھہرایا ہے ۔
جب مصنف خود اس تحریر کو طویل افسانہ قرار دے دے تو پھر کسی شک و شائبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ صد افسوس کہ شککی گنجائش باقی ہے ۔ اس ضمن میں پہلے ہم قدرت اللہ شہاب کا بیان ملاحظہ کرتے ہیں پھر اس پر بحث کریں گے:”یہ طویل افسانہ سب سے پہلے نیا دور کے فسادات نمبر میں شائع ہوا تھا ۔ اس کے بعد
احباب کا اصرار ہوا کہ ناولٹ کے طور پر اسے کتابی صورت میں بھی ضرور چھاپنا چاہیے۔ محترمه ممتاز شیریں مرحومہ نے ایک دیباچہ تحریر فرما دیا اور یا خدا کا پہلا ایڈیشن کراچی سے جون ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا ۔
عام قاری کو یہ اتنا پسند آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چھے ایڈیشن نکل گئے ۔ لاہور کے ایک پبلشر نے اس ناولٹ کا نام یا خدا کی جگہ ” "آزادی کے بعد” رکھ کر بھی کچھ کاروبار کیا ! (۵)
قدرت اللہ شہاب کے مذکورہ بالا اقتباس سے دو بیانات سامنے آتے ہیں۔ پہلے بیان کے مطابق ” یا خدا طویل افسانہ ہے اور دوسرے کے حساب سے ناولٹ، اب جب مصنف خود ہی ایسے بیانات دے تو پھر اس تحریر پر بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک یا خدا کو کبھی افسانہ، کبھی طویل افسانہ اور کبھی ناولٹ کہا ۔
جاتا ہے ۔ اب ہم ان تنقید نگاروں کی رائے پیش کرتے ہیں جنھوں نے یا خدا کو طویل افسانہ کہا نہ ناولٹ ۔ ان کے خیال میں یا خدا افسانہ ہے محض افسانہ ۔ ڈاکٹر آغا سہیل اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"قدرت اللہ شہاب اپنی افسانہ نگاری کے حوالے سے ممتاز افسانہ نگار تھے۔ جب تک کہ
اردو افسانہ نگاری کی تاریخ زندہ ہے یا خدا” اور "ماں جی جیسے افسانے بھلائے نہیں جا
سکتے ۔(۶)
ڈاکٹر فوزیہ اسلم نے فسادات کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں فسادات میں پیش آنے والی دردناک
صورت حال کا ذکر کیا ہے وہاں ” یا خدا کو طویل افسانہ کہا ہے ۔ آگے چل کر جب انھوں نے ”یا خدا کا فکری و موضوعاتی
جائزہ لیا ہے تو ”یا خدا کو افسانہ خیال کیا ہے بل کہ ”یا خدا کو مکمل پاکستانی افسانہ بھی قرار دیا ہے ۔ لککھتی ہیں:
"شہاب نے اس افسانے میں صرف عورت کی ٹریجڈی نہیں دکھائی بل کہ بکھرتے ہوئے خواب بھی دکھائے ہیں۔ جس طرح شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی” کو پہلا پاکستانی ناول قرار دیا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح یا خدا کو مکمل پاکستانی افسانہ کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس میں نہ صرف پاکستان کا کرب ناک ماضی اور حال دکھایا گیا ہے بل کہ اسمیں مستقبل کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔“ (۷)
ابو الفضل صدیقی یا خدا کو افسانہ شمار کرتے ہوئے یا خدا کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
” یا خدا فسادات پر لکھے ہوئے افسانوں کا بادشاہ ہے۔
اس کے اندر وہ بے پناہ حقیقت نگاری اور ایسی شدید روح ملتی ہے کہ بعض مصلحت اندیش لکھنے والے اس پر ارتداد و کفر کا فتوی صادر کر بیٹھے ۔ اپنی عمر میں جن معدودے چند چیزوں سے قاری انتہائی متاثر۔
آخری کوشش اور ڈھائی سیر آنا کا تنقیدی جائزہ
کرشن چندر کی تحریک گرجن کی ایک شام کا تنقیدی جائزہ
ایک چادر میلی سی کا تنقیدی جائزہ
ماخذ تحریر: قدرت اللہ شہاب سوانح و ادبی خدمات مقالہ | pdf
مزید یہ بھی پڑھیں: یاخُدا از قدرت اللہ شہاب pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں