ہندوستان میں مسلم و غیر مسلم اقوام کی آمد اور ان کے اثرات

کتاب کا نام۔۔۔۔۔۔تاریخ ادب اردو صفحہ۔۔۔۔۔۔۔۔14تا 18 کوڈ۔۔۔۔۔ 5601 موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ہندوستان میں مسلم و غیر مسلم اقوام کی آمد اور ان کے اثرات۔ مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوثر بیگم فخر عالم مشائخ

ہندوستان میں مسلم و غیر مسلم اقوام کی آمد اور ان کے اثرات

عہد قبل تاریخ یا بعد میں ہندوستان میں آنے والی اقوام اور مسلمانوں کی آمد میں خاصا فرق ہے اس لحاظ سے کہ دیگر اقوام بت پرست تھیں۔ اور ان کی مخصوص اساطیر تھیں جبکہ مسلمان توحید پرست تھے، ان کا مذہب ہی جدا گانہ نہ تھا بلکہ، زبان ، لباس ، رسوم و رواجات اور ثقافت بھی منفرد تھی۔ مسلمانوں میں بھی دو زبانیں بولنے والے شامل تھے۔ عربی اور فارسی ۔ عربی کیونکہ مذہبی زبان بھی تھی اس لئے فارسی کو عربی سے نابلد نہ ہوئے تھے۔ مغلوں کی آمد سے ترکی کا بھی اضافہ ہو گیا۔

ادھر ہندوستان میں متعدد مقامی بولیاں اور زبانیں رائج تھیں، ادھر مسلمان بھی مزید زبا نہیں لے آئے۔ ایسی زبانیں جو انفرادی حیثیت میں غیر اہم ہتھیں بلکہ یہ بڑی زبانوں میں شمار ہوتی تھیں ، یوں ان تمام زبانوں کے تال میل نے زبان کی وہ حلیم تیار کردی جس نے اردو نام پایا۔

اگر چہ مغلوں سے پہلے مسلمان دہلی بلکہ دکن اور بنگال تک فتح کر چکے تھے لیکن متعدد خاندانوں سے متعلق بادشاه انفرادی شان و شوکت کے باوجود مغلوں جیسی وسیع اور دیر پا سلطنت کی بنیاد نہ رکھ سکے۔ چنانچہ جنگوں، شورشوں ، خانہ جنگیوں وغیرہ کے باعث مغل حکمران اس خطہ پر گہرے ثقافتی لا ثانی اثرات نہ چھوڑ سکے۔ یہ مغل تھے جن کی وسیع و عریض سلطنت کی اساس مستحکم تھی ۔ جن کے عہد میں نسبتاً امن و سکون رہا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مغلوں نے ہندو مسلم اتحاد کو فعل سیاست اور سلطنت کے لئے لازم جانا۔

شہنشاہ بابر نے اپنے فرزند ہمایوں کو جو وصیت کی اس میں بھی ہندو مسلم اتحاد کی تلقین کی گئی تھی۔ متعلقہ

سطر میں نقل کی جاتی ہیں۔

فرزند من ! ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور یہ اللہ تعالی کی بڑی عنایت ہے کہ اس نے تمہیں اس ملک کا بادشاہ بنایا ہے اپنی بادشاہی میں تمہیں،

ذیل کی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ (1) تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال
رکھتے ہوئے اورعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔

(۲) گاؤ کشی سے بالخصوص پر ہیز کرو تا کہ اس سے تمہیں لوگوں کے دل میں جگہ مل جائے اور اس طرح وہ احسان و شکریہ کی زنجیر سے تمہارے مطیع ہو جائیں ۔

(۳) تمہیں کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنی چاہیئے ۔

(حوالہ ” رود کوثر از شیخ محمد اکرام اص (23)

دادا کی اسی وصیت پر اگر صحیح معنوں میں کسی نے عمل کیا تو وہ پوتا اکبر بادشاہ تھا ۔ جس کے عہد میں ہندو مسلم شادیاں عام ہوئیں اور مغل و ہندو تمدن کی آمیزش نے بزم ثقافت کو جنم دیا۔ جہانگیر اورشاہ جہاں کے عہد میں بھی یہی پالیسی رہی تا ہم اس ضمن میں یہ امر بھی معنی خیز ہے کہ ہم زیست ہونے کے باوجود مسلمانوں اور ہندوؤں نے اساسی عقائد اور مذہبی امور میں سمجھوتہ نہ کیا نہ مسلمانوں نے توحید چھوڑی اور نہ ہی ہندوؤں نے اپنے اصنام ، اس طرح حلال اور حرام کی حدود بھی برقرار ہیں تا ہم مغل حکمرانوں کی رواداری کی بناء پر تمام غیر مسلم اقوام اپنے اپنے شعائر کے مطابق زندگی بسر کرتی رہیں۔

1-4 مسلم ثقافت اور اردو زبان

اسلام تبلیغی مذہب ہے۔ مسلمانوں نے دنیا کے ہر خطہ میں دین اسلام پھیلایا تو وہ تلوار کے برعکس میٹھی زبان سے تھا ہندوستان میں کثیر تعداد میں صوفیاء کرام آئے۔ شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک وہ تمام ہندوستان میں پھیل گئے۔ ان کی ارفع شخصیت ، ذاتی صفات ، اعلیٰ کرداری اوصاف اور پاک اطوار نے ہزاروں افراد کو دائرہ اسلام میں شامل کیا۔ بدلے ہوئے سیاسی حالات کے باوجود آج بھی ہندوستان کے ہر حصے میں صوفیاء کرام کے مزارات مرجع خلائق ہیں، مسلم اور غیر مسلم بھی آتے اور من کی مرادیں پاتے ہیں۔ صوفیاء کرام کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ اردو زبان کی ابتدائی نشوونما میں ان کے اساسی کردار کو لسانیات کے محققین نےبھی تسلیم کیا ہے اس ضمن میں مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کیجئے مولوی عبدالحق کی تالیف اردو کی ابتدائی نشود نما
میں صوفیاء کرام کا کام (کراچی (1953)

تمام مغل سلطنت میں مغل بادشاہوں کے غیر متعصبانہ رویہ کی بنا پر امن و سکون کے عمومی ماحول میں ہندوستان کے مختلف مخطوں سے متعلق افراد کے اپنی جدا گانہ پولیوں زبانوں اور ثقافت کے ساتھ باہمی روابط کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ایک کام چلاؤ قسم کی ایسی بولی معرض وجود میں آگئی جو مختلف زبانوں طرح طرح کی بولیوں، متنوع الفاظ اور رنگ رنگ کے لہجوں پر مشتمل تھی۔

میرا من اگر چہ ماہر لسانیات نہ تھے نہ ہی اردو زبان سے وابستہ نظریہ سازی کی تاریخ میں ان کا کوئی اہم مقام ہے مگر باغ و بہار کے دیباچہ میں انہوں نے اردو زبان کے آغاز کے بارے میں جو کچھ لکھا اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

بقول میرا من :-

حقیقت اردو کی بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک ہو چکی ہے۔ انہیں کے راجا پر جا قدیم سے وہاں رہتے تھے اور اپنی بھا شا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود آیا ۔ پھر غوری اور اودھی بادشاہ ہوئے ۔ اس آمد ورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے ( جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا نام چلا جاتا ہے ) ہندوستان کو لیا۔ اس کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ولایت گئے آخر وہاں سے آن کر پس ماندہ پٹھانوں کو گو شمالی دی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا که فتنہ و فساد بر پا کرے۔ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب سے قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر حضور میں آکرجمع ہوئی لیکن ہر کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین سودا سلف سوال و جواب کرتے کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہاں صاحب قرآن نے قلعہ مبارک اور جامعہ مسجد اور شہر پناہ تعمیر فرمایا اور تخت طاؤس میں جواہر جڑایا اور دل بادل ساخیمہ چوہوں پر استادہ کر طنابوں سے کچھوایا اور نواب علی مردان خان شہر کو لے کر آیا تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دار الخلافت بنایا۔ تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا۔ اگر چہ دلی جدید ہے وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلیٰ خطاب دیا "

جیسا کہ لکھا گیا کہ میرا من نظریہ ساز ماہر لسانیات نہ تھے لیکن انہوں نے اردو کے آغاز کے ضمن میں جو کچھ لکھا اسے اہمیت دی جاتی رہی ہے اقتباس کا آغاز اس معنی خیز فقرہ سے ہوتا ہے ۔ حقیقت اردو کی بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ ۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ میر امن کے زمانہ میں یہ تصور عام ہو گا کہ مغل لشکر میں مختلف قوموں کے باہمی میل ملاپ کے نتیجہ میں ایک ایسی پولی نے جنم لے لیا جس میں ہر زبان کے الفاظ کی آمیزش اور لہجوں کا امتزاج تھا۔ یوں دیکھیں تو اردو زبان خود رو پودے سے مشابہ قرار دی جاسکتی ہے کسی کی شعوری کاوش کے بغیر عوام کے ذریعہ سے عوامی طور پر اس نے وجود پایا اور اس سے اردو کے عوامی مزاج کا تعین بھی ہوتا ہے۔ اردو ایسی زبان ہے جو عوامی ضروریات کے لئے اور عوامی تقاضوں کی تکمیل کے لئے عوام نے واضع کی۔

ترکی زبان میں لشکر کے لئے اردو استعمال ہوتا ہے۔ شہنشاہ اکبر کے عہد میں زبان کی ساخت کے جس عمل کا آغاز ہوا شاہ جہاں کے عہد تک وہ واضح صورت اختیار کر جاتا ہے ۔ کہ گلی محلہ کے ساتھ ساتھ اردو شاہی دربار اور محلات تک بھی جا پہنچی ورنہ شاہ جہاں اسے "اردوئے معلیٰ ” نہ کرتا۔

مختصر ترین الفاظ میں یہ ہے کہ وہ لسانی تناظر جس میں اردو زبان کے محققین کی مساعی کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ بعض ماہرین نے اس تصور سے اختلاف کر کے اردو کے آغاز کی داستان کی کڑیاں صدیوں پیچھے جا کر تلاشکیں جبکہ ایسے محققین بھی ملتے ہیں جنہوں نے مخصوص علاقہ سے اردو زبان کا آغاز ثابت کیا۔ اس ضمن میں تین اہم نظریات ملتے ہیں۔

پنجاب میں اردو ” (حافظ محمود شیرانی) دکن میں اردو ” ( نصیر الدین ہاشمی ) اور سندھ میں اردو ( سید سلیمان ندوی : نقوش سلیمانی) آئندہ چند یونٹوں میں ہم اہم لسانی نظریات کا مختصر جائزہ پیش کریں گے ۔ یہ ایسے نظریات ہیں جو بوجوہ اردو لسانیات میں خصوصی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ لسانیات میں نظریہ سازی کے سلسلہ میں یہ امر بھی لحاظ رہے کہ بیشتر نظریات متنازعہ ہیں اور محققین اور ماہرین نے ایک دوسرے پر تاریخی اور لسانی نوعیت کے اعتراضات بھی کئے ہیں مگر ہم ان نزاعی امور سے بچ کر صرف نظریات کی وضاحت کریں گے۔ تدریسی ضروریات کے نقطہ نظر سے نظریات کو صحیح یا غلط ثابت کرنا ہمارے دائرے کار سے خارج ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں