ہاجرہ مسرور کی افسانہ نگاری اور سوانح
ہاجرہ مسرور ۷ا جنوری ۱۹۲۹ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں ۔ اُن کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان اتر پردیش کے مختلف قصبات میں متعین رہے ۔
اسی لیے ہاجرہ مسرور ان قصبات کے مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم رہیں۔ والد کے اچانک انتقال کی وجہ سے با قاعدہ سلسلہ تعلیم منقطع کرنا پڑا لیکن نجی طور پر علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہاجرہ مسرور نے کم عمری سے افسانہ نگاری شروع کر دی تھی ۔ انھوں نے مسلم لیگ کے خواتین گروپ کی تنظیم کی ۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں ۔
احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر نقوش کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے ۔ احمد علی خان کے ساتھ شادی ہوئی ۔ ہاجرہ مسرور کو مجلس فروغ اُردو قطر کی جانب سے عالمی اردو ایوارڈ ۲۰۰۵ء سے نوازا گیا ۔افسانوی مجموعے:☆ سب افسانے میرے ۔ لاہور : مقبول اکیڈمی ، ۱۹۹۱ء
ہاجرہ مسرور کی ابتدائی دور کی تخلیقات میں اکثر جگہوں پر بصیرت اور ژرف نگاہی کا ثبوت ملتا ہے۔
خدیجہ مستور کی نسبت ان کے ہاں نو مشقی کے اس دور میں وفور جذبات سے مغلوب ہو کر محبت کی ناکامیوں ، رومان انگیزی اور کچی عمر کے جذبات کی عکاسی کم ہے۔ ان کے ہاں ترقی پسند تحریک سے نظریاتی اور عملی تعلق کی بنیاد پر سماجی حقیقت نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔
وہ زندگی کے مختلف الم ناک پہلو، نا تمام حسرتیں، معاشی ناہمواری، معاشرتی جبر کی مختلف النوع صورتیں پیش کرتی ہیں۔ ہاجرہ مسرور کی افسانہ نگاری کے اس دور میں جنسی جذبات و خواہشات کی عدم تکمیل، جنسی گھٹن کے نتائج دکھانے کے ساتھ انسان کی شعوری اور لاشعوری کیفیات کے محرکات دکھائے گئے ہیں ۔ ہاجرہ مسرور کا انداز نگارش کچھ مواقع پر جذباتیت سے لبریز ہے۔
روزمرہ زندگی کے مسائل پیش کرتے ہوئے رقت آمیز لب ولہجہ نظر آتا ہے۔ ہاجرہ مسرور نے جس دور میں افسانہ نگاری شروع کی اُس دور میں ادب کے میدان میں خواتین کا محدود گر وہ نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے بعد خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔ عصمت چغتائی کے افسانوں میں جنس کا موضوع اہم رہا ہے ۔ ان کے لب و لہجے میں نڈر پن، بے باکی اور جرات ہے۔ ہاجرہ مسرور کے ابتدائی دور کے افسانوں میں انداز بیاں اور موضوعات پر عصمت چغتائی اور ترقی پسند تحریک کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
خصوصاً "چراغ کی لو” پر پریم چند کے کفن کے اثرات نظر آتے ہیں۔”غریبوں کو امیروں کی برابری کرنے کا بس ایک ہی تو موقع ملتا ہے۔ دنیا میں اور وہ مرنے کے بعد امیروں کی برابری کرلیں”ہاجرہ مسرور معاشرے کے سنگین المیوں اور اپنے دور کے معروضی حقائق کو پیش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں نچلے طبقے کی ذہنی
پسماندگی ، افلاس، ناداری اور بھوک کے مرقعے نظر آتے ہیں۔ غربت کے ہاتھوں مرد اپنی بیوی کو اشیائے صرف کی طرح
دوسروں کو استعمال کرنے کی اجازت دینے پر مجبور ہے۔
"لیکن بھوک کا نشہ صاحب کی پی ہوئی شراب کے نشے سے کہیں زیادہ مدہوش گن تھا نتھو بہک بہک کر سوچ رہا تھا کہ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ اگر اپنے جسم کا کپڑا ذرا دیر کو کسی دوسرے نے بھی پہن لیا۔ معاوضے میں اپنے دام بھی کھرے ہو گئے اور کپڑا تو پھر اپنا ہی ہے۔ ” ۱۳۷
ہاجرہ مسرور کے ہاں سماجی زندگی سے تعلق رکھنے والے دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں ۔ بے جوڑ شادیوں کا مسئلہ اس دور میں بہت اہم تھا۔ بے جوڑ شادی کے نتیجے میں دینی اور عملی مشکلات ان کا موضوع ہیں ۔ لوگ اپنی بیٹیاں بدصورت اور پختہ عمر مردوں کے ساتھ بیاہ دیتے تھے ۔ اس پر مستزاد وہ معاشرہ جو ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا شکار تھا ۔
اس میں غلط رسوم و رواج کو فروغ دینے اور عورت کی زندگی کو اندھیر نگری میں بدلنے والے ذمہ داروں کی فہرست لمبی ہے۔ لیکن سرفہرست مذہب کو سمجھنے اور سمجھانے کا دعوے کرنے والے نام نہاد مذہبی لوگ ہیں ۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں تھپڑ نیلم،
اور اندھیرے میں۔ ملائیت کے پردے میں عورت کا استحصال کرنے والے بے حس لوگوں پر طنز و تنقید کی گئی ہے ۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں جنس کا موضوع اہم رہا ہے۔ مرد و زن کی جنسی و جبلی ضرورتیں اور ان سے انحراف پیش کیا گیا ہے ۔ خاص طور پر ان کا موضوع عورت کی جنسی نفسیات ، گھٹن اور فطری ضرورتوں کا پورا نہ ہونا ہے ۔
عورت کا جسمانی استحصال اور ہم جنسیت کا رجحان "کمینی”، "تل اوٹ پہاڑ” اور ” بندر کا گھاؤ میں نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی ہاجرہ مسرور کے افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
"ان کے افسانوں کے کردار بالعموم گھٹیا، پست اور بعض معنوں میں لایعنی ہیں۔ جنسی پس منظر میں ہاجرہ کسی قسم کے مسائل سامنے لاتی ہیں اور نہ ان مسائل کا حل ان کے افسانوں کے ذریعے اُبھرتا ہے۔
جن مسائل کا تذکرہ ان کے افسانوں میں موجود ہے وہ بالعموم اخباری خبروں ، جنسی اسکینڈل اور سنسنی خیز قسم کی جنسی خبروں کو بنیاد بنا کر افسانہ لکھتی ہیں ۔ اس قسم کے افسانوں میں زندگی کا گہرا شعور یا کسی قسم کے جذبہ کی سچائی بالعموم مفقود ہوتی ہے۔” ۱۳۸
ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں بچوں کی نفسیات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان کے ہاں دور بلوغت سے قبل، بزرگوں کی مہم اور اشاروں کنایوں پر مبنی گفتگو اور پُر اسرار حرکتوں کے مشاہدے کے نتیجے میں وقت سے پہلے جنسی بیداری اور ذہنی پختگی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
”ہائے اللہ” کی نھنی اس کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ "دلدل“ کی ننھی کے معصوم ذہن میں بچوں کی پیدائش اور ابا اور اماں کی حرکات و سکنات سے متعلق سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ "معصوم محبت” کی "منیر” صلو بھیا میں غیر
یہ بھی پڑھیں: ہاجرہ مسرور افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ مقالہ pdf
معمولی دلچسپی دکھاتی ہے۔
ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں زیادہ تر نسوانی کردار نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں مسلم معاشرے میں بسنے والی عورت کی کرب ناک زندگی کے مختلف زاویوں کی عکاسی تواتر سے کی گئی ہے۔ سماجی تضادات، عورت کی دل آزاری، حق تلفی اور احساس محرومی کا باعث بنتے ہیں۔
عورت ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرتی اور مغلظات سنتی ہے۔ اس کا کردار داغ دار کیا جاتا ہے۔ مشرقی معاشرے نے مرد کی عورت کے مقابلے میں جسمانی اعتبار سے فضیلت کو ہر حوالے سے برتری میں تبدیل
کر دیا ہے۔
"۔۔۔تم عقل کو ساتھ لے جاؤ عقیل بچہ ہی سہی لیکن ہے تو لڑکا ۔ بس یہی ان کی بات تو مجھے زہر معلوم ہوتی ہے جانے وہ لڑکیوں کو کیا سمجھتی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں کیا کوئی لڈو پیڑا ہوں جو کوئی
کھالے گا اور عقیل کو دیکھ کر ڈر کے مارے اُگل دے گا” ۱۳۹
ازدواجی زندگی میں عورت رفاقت کے احساس سے محروم ہے۔ عورت کے حقوق سے روگردانی مردانگی کی علامت ہے اسی لیے ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا نسوانی کردار کہتا ہے:
"مرد اور ظالم لازم و ملزوم ہے ۔” ۱۳۰
تعصبات کے امیر معاشرے میں عورت کی حیثیت گوشت پوست کے جیتے جاگتے ایسے ذی روح کی طرح ہے جو احساسات
و جذبات، عقل و فہم اور قوت فیصلہ سے عاری ہے۔ عورت صرف افزائش نسل اور جنسی تلذذ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کی زندگی فرائض اور یکسانیت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود وہ وفا شعاری کی قوت سے مالا مال ہے۔
"اری بہن رہنے بھی دے۔ جب تک بچہ رہے باپ بھائیوں کی مار کھائی ۔ ہوش سنبھالا، ہنڈیا چوتھے، سینے پرونے میں جوت دیے گئے اور جب جوان ہوئے تو کسی مرد کی خدمت میں لونڈی کی طرح سونپ دیے گئے ٹہل خدمت کی تو صبح شام پیٹ بھرا در جن آدھ درجن بچے جنے اور پھر ایک دن مر کر چلے
گئے ۔ “
"عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب چل ہونے لگتی ہے تو ڈور کے جھٹکوں سے یہ کچھ پتکی نچائی جاتی ہے ۔
لیکن اگر اس کٹھ پتلی میں جان پڑ جائے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرنے لگے تو سماج کا لوتھ پڑا ہوا سرانڈ جسم کسی سے دلچسپی لے۔۔۔۔”
ہاجرہ مسرور کا اسلوب، تشبیہات و استعارات اور محاوروں سے مزین ہے۔ ان کے ہاں دہلوی زبان کا چارہ ملتا ہے۔ انھیں عورتوں کی زبان لکھنے پر قدرت حاصل ہے۔ ہاجرہ مسرور کے ہاں کہیں کہیں رومانوی اسلوب بھی نظر آتا ہے۔
” میں عرصے سے اپنی روح پر پیچ بستہ چٹانوں کا ساجمود محسوس کر رہی ہوں اور اب جیسے میری ساکت و منجمد اسی کا ذرہ ذرہ کسی چلتے ہوئے آغوش محبت میں سما کر پگھل جانا چاہتا ہو۔ مجھے محبت چاہیے غیر فانی اور گرم جوش محبت "۱۲۳
ہاجرہ مسرور حسب موقع موزوں تشبیہات کی مد د سے کرداروں کے طرز عمل اور ذہنی کیفیت کو ابھارنے میں مدد لیتی ہیں۔”
"سامنے کے بیچوں پر کتنے ہی مرد بیٹھے ان دنوں کو گھور رہے تھے ۔ بالکل اسی طرح جیسے حلوائی کی دکان کے سامنے بازاری کتوں کے گروہ” ۱۴۴
……
ہاجرہ مسرور کے زیادہ تر افسانے بیانیہ کی تکنیک میں لکھے گئے ہیں فلیش بیک کی تکنیک "نیلم” واحد متکلم کی تکنیک "دلدل”
اور قارئین سے براہ راست مخاطب ہونے کا انداز "بندر کا گھاؤ” میں ملتا ہے ۔
ماخذ: اردو افسانے کی روایت اور پاکستانی خواتین افسانہ نگار مقالہ | pdf، ص 122
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں