منٹو کے افسانے ‘گورمکھ سنگھ کی وصیت’ کا تنقیدی جائزہ | A critical analysis of Manto’s short story "Gurmukh Singh ki Wasiyat”

گورمکھ سنگھ کی وصیت کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ

منٹو کا یہ افسانہ گورمکھ سنگھ کی وصیت 1947ء کے فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اس سانحہ عظیم پر اردو کے بے شمار افسانہ نگاروں نے افسانہ نگاری کی ہے۔ اس دور کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں ہندو مسلم ادیبوں کے افسانوں اور ان ادیبوں کے رویوں کے بارے میں ممتاز شیریں بھٹی لکھتی ہیں:

” اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ افسانے اس وقت لکھنے کی جلدی میں لکھے گئے تھے۔ فسادات اس وقت ذہن میں رچ بس کر ذہنی تجربے کی حد میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ادیبوں نے محتاط ہو کر ایک تنگ راستے کو اختیار کیا، پہلے انہوں نے یہ طے کر لیا کہ فسادات اور ان کی وجوہات کا ترقی پسند تجزیہ کیا ہوسکتا ہے؟ادیوں کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ اور کس قسم کے افسانے لکھے جانے چاہئیں؟ اور کچھ اس قسم کا فارمولا بنالیا:

انگریزوں کی سامراجی حکومت سے نفرت و نفاق کا بیج بویا۔

تقسیم اور پاکستان کا بننا فساد کی جڑ ہے۔

ان فسادات میں ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کا تصور برابر بنایا جائے اور سب برابر کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں۔

افسانوں میں انتہائی غیر جانب داری بنانے کی کوشش کی جائے۔

آخر میں اس موہوم کی امید پر الاپ کیا کہ یہ نفرت مٹ جائے گی لوگ محسوس کریں گے وہ صرف انسان ہیں اور پھر ایک نیا انسان جنم لے گا۔

اس فارمولے کی بنیاد پر فسادات پر لکھے گئے افسانوں کے پلاٹ تعمیر کئے اور ان کو مذکورہ بالا ڈھانچے میں فٹ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے یہ گھڑے گھڑائے پلاٹ ، حد سے زیادہ احتیاط اور شعوری کوشش نے ان افسانوں کو بےروح اور بے اثر بنا دیا ۔

مگر منٹو کی بات کچھ اور ہی ہے اس نے اس فارمولے کو نظر انداز کر کے انسان کے انفرادی المیے کو ابھارا ہے اور منفرد اور انوکھے کردار لئے ہیں اور ان کا تیز اور گہری نظر سے مطالعہ بھی کیا ہے۔ منٹو ان فسادات سے کس طرح اور کتنا متاثر ہوا ہے ملاحظہ ہو :

"وہ کس کا لہو ہے، جو ہر روز اتنی بے دردی سے بہایا جا رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔وہ ہڈیاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی۔ جن پر سے مذہب کا گوشت پوست چیلیں اور گدھ نوچ نوچ کر کھا گئے ہیں؟“

ان فسادات کے بارے میں مختلف ادیبوں کا رویہ اور منٹو کے نقطہ نظر کے علاوہ سیاسی لیڈروں خصوصاً سکھوں کے لیڈر تارا سنگھ کا رویہ فسادات کی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف تھا، اس نے پنجاب اسمبلی لاہور کی سیڑھیوں پر تلوار لہرا کر مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ پنجاب فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگیا، صدیوں سے بھائیوں کی طرح رہنے والے ہندا مسلم اور سکھ ایک دوسرے کے پیاسے ہو گئے ۔ وہ سابقہ دوستیاں ، مروتیں اور احسانات تک کو بھول گئے ۔

میاں عبد الحی ایک ریٹائرڈ سب جج ہیں جو ہندوؤں کے اکثریتی محلے میں رہتے ہیں۔ وہ نہایت نیک اور دیانت دار انسان ہیں۔ اس گھر میں حج صاحب کے علاوہ ان کی بیٹی صغرا، ایک بیٹا بشارت اور ستر سالہ بوڑھا ملازم ہے۔ سردار گورمکھ سنگھ ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ ہو کر میاں عبد الحئی کی عدالت میں پیش ہوتا ہے اور میاں صاحب نے اسے اس جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی۔ اس وقت سے اظہار تشکر کے طور پر سردار گورمکھ سنگھ ہر چھوٹی عید سے ایک دن پہلے رومالی سویوں کا ایک تھیلہ ان کے گھر لے کر آیا کرتا تھا۔ گورکھ سنگھ کی وفات کے بعد ، باپ کی وصیت کی تعمیل میں اس کا بیٹا سنتوکھ سنگھ یہی فریضہ با قاعدگی سے ادا کر رہا تھا اور وہ باپ کے ساتھ کیا ہوا یہ و چن نبھا رہا تھا ۔

امرتسر فسادات کی زد میں آچکا ہے۔ ہر طرف خون اور آگ کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ میاں صاحب کے محلے کے تمام مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے دوسرے مسلمان محلوں میں جا چکے ہیں، مگر میاں صاحب کو اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے یہ یقین ہے کہ بلوائی اسے کچھ نہیں کہیں گے ۔ دوسرے یہ فسادات عارضی ہیں اور شر پسندوں کا جلد ہی قلع قمع ہو جائے گا۔ البتہ جج صاحب نے جو فالج کا شکار ہو چکے ہیں، نے احتیاطاً گھر میں کافی راشن جمع کر لیا ہے اور وہ مطمئن ہیں۔ مگر حالات روز بروز خراب ہو رہے ہیں اور ان میں بہتری یا اصلاح کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی ہے۔ بچے اس صورت سے کافی پریشان ہیں ۔ جج صاحب ان کو دلاسہ دیتے ہیں۔ وہ امرتسر میں اس سے پہلے پھوٹنے کے فسادات کے حوالے سے پر یقین ہیں کہ یہ فسادات عارضی ہیں اور جلد ہی ختم ہو جا ئیں گے، مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس بار فسادات کی نوعیت مختلف ہے۔ حالات کی سنگینی اور شدت کے پیش نظر بچے اور نوکر میاں کو گھر چھوڑ کر کسی دوسری محفوظ جگہ پر پناہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر فالج زدہ میاں صاحب اپنا مکان چھوڑ نے پر کسی طرح بھی تیار نہیں ہوتے ۔ بشارت کسی ضرورت کے تحت بازار جاتا ہے تو بلوائیوں کا ہلا گلا اور قتل و غارت کا تماشاد دیکھ کر فوراً واپس آجاتا ہے۔ صغری اپنے بھائی کو گلے سے لگا لیتی ہے۔ باپ کی بیماری سے صغری سخت پریشان ہے۔ وہ ان حالات میں سخت اذیت سے میں بتا ہے اور نہیں سمجھ پارہی کہ کیا کرے۔ کبھی وہ اپنے بھائی کو دیکھتی ہے اور کبھی اپنے باپ کو۔ ان حالات میں وہ بوڑھے ملازم کو جا طعنہ زنی سے باہر جا کر کچھ بیل کرنے کا کہتی ہے، جانثار ملازم گھر سے ایسا جاتا ہے کہ پھر کبھی بھی واپس نہیں آتا ۔ صغری اس کی واپسی کی بہت دعائیں مانگتی ہے۔ عید کا دن آجاتا ہے اور سنتوکھ سکھ اپنے باپ کی وصیت کی تعمیل کے لئے رومالی سویوں کا تھیلہ لے کر آیا۔ فسارات اپنے شباب پر تھے۔ ہر جگہ قتل و غارت اور لوٹ مار ہو رہی تھی ۔ کچھ سکھ بلوائیوں نے جو مسلح اور آتش گیر مادہ اُٹھائے ہوئے تھے، نے سنتو کو سنکھ کو گھیر لیا۔ سنتوکھ سنگھ بلوائیوں کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وصیت پوری کرنے جا رہا ہے۔ جب وہ ایسا کرلے تو پھر ان کی جو مرضی ہو، وہ کریں ۔ سکھ اس کی بات مان لیتے ہیں۔ صغری ہسنتوکھ سنگھ کو بتاتی ہے کہ جج صاحب بیمار ہیں تو سنتو مکھ سنگھ کہتا ہے:

"اوہ سردار جی زندہ ہوتے تو انہیں یہ سن کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ مرتے دم تک انہیں جج صاحب کا احسان یاد تھا اور کہتے تھے کہ وہ انسان نہیں دیوتا ہے اللہ میاں انہیں زندہ رکھے انہیں میرا اسلام "

اور پیشتر اس کے کہ صغری اس سے کہے کہ جج صاحب کے لئے کسی ڈاکٹر کا انتظام کر دے، وہ مکان سے باہر نکلا اور وہاں ڈھاٹا باندھے ہوئے چار آدمی اس کے پاس آئے ۔ دو کے پاس جلتی ہوئی مشعلیں تھیں اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں، ایک نے سنتوکھ سنگھ سے پوچھا: کیوں سردار جی اپنا کام کر آئے ؟“

سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا ۔ ہاں کر آیا ۔ اس آدمی نے ڈھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا ۔ تو کر دیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا ۔ ہاں جیسی تمہاری مرضی” یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنگھ کا لڑ کا چل دیا۔

منٹو کے افسانے کا یہ اختتام ہر چند قاری کے لئے غیر متوقع ہے لیکن اس میں تصنع نہیں ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں