مثنوی گلزار نسیم کا تنقیدی جائزہ اور خلاصہ

گلزار نسیم کا تنقیدی جائزہ اور خلاصہ

گلزار نسیم کا تنقیدی جائزہ

(1254ھ مطابق 1839ء)

مثنوی گلزار نسیم پنڈت دیا شنکر نسیم کی لکھی ہوئی ایک عشقیہ مثنوی ہے جو لکھنوی تہذیب کی آئینہ دار ہے۔

مثنوی گلزار نسیم کی کہانی ” قصہ گل بکاولی کے نام سے مشہور ہے۔ مثنوی گلزار نسیم میں گل بکاولی کی مشہور داستان عشق بیان ہوئی ہے۔

اصل قصہ عزت اللہ بنگالی نے 1134ھ مطابق 1722 ء میں قصہ بکاؤلی کے نام سے لکھا جو فارسی نثر میں ہے۔

منشی نہال چند لاہوری نے 1803ء میں گل کرسٹ کی فرمائش پر مذہب عشق کے نام سے اسے اردو میں منتقل کیا۔

پنڈت دیا شنکر نسیم نے 1254ھ مطابق 1839-1838ء میں اردو نظم کا لباس پہنا کر اردو نظم کا لباس پہنا کر مثنوی گلزار نسیم کے روپ میں پیش کیا۔

مثنوی گلزار نسیم پہلی بار 1844 میں شائع ہوئی تھی۔

پنڈت دیا شنکر نسیم نے 28 سال کی عمر میں یہ مثنوی مکمل کی ۔

نسیم نے جب یہ مثنوی پہلی بار لکھی تو بہت طویل تھی۔ استاد یعنی آتش کے کہنے پر اس میں سے بے جا طوالت کم کی ۔

مثنوی گلزار نسیم کو رشید حسن خاں نے مرتب کیا ہے ۔

مثنوی گلزار نسیم میں زبان و بیان کا وہی رنگ پایا جاتا ہے جو فسانہ عجائب میں موجود ہے یعنی صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات، مشکل و ثقیل بندش اور رعایتوں کا استعمال ۔

مثنوی گلزار نسیم میں آورد کا انداز پایا جاتا ہے۔مثنوی گلزار نسیم میں رعایت لفظی کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔

مثنوی گلزار نسیم کی بڑی خصوصیت اس کا اختصار ہے۔

مثنوی گلزار نسیم بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض مقصور یا محذوف میں ہے یعنی مفعولن مفاعلن فعولن ۔

1905ء میں مثنوی گلزار نیم کو چکبست نے ایک مقدمے کے ساتھ شائع کیا تھا جو ایڈیشن معرکہ
چکیست و شرر کی بنیاد بنا۔

مثنوی گلزار نسیم میں دیگر مثنویوں کے مقابلے میں مافوق الفطرت عناصر کی کثرت ہے۔

پوری مثنوی میں پریاں اڑتی ہیں اور دیو اپنی کرامات دکھاتے ہیں۔

مثنوی گلزار نسیم کا مقابلہ اکثر میرحسن کی مثنوی سحر البیان سے کیا جاتا ہے۔

رشید احمد صدیقی نے اس مثنوی کے بارے میں لکھا ہے کہ:

” شعر و شاعری کے جن پہلوؤں کے اعتبار سے لکھنو بد نام ہے۔ گلزار نسیم نے انہی پہلوؤں سے لکھنو کا نام اونچا کیا ہے۔ زبان کو شاعری اور شاعری کو زبان بنا دینا کوئی آسان کام نہیں ۔”

پروفیسر احتشام حسین نے مثنوی گلزار نیم کو شاعرانہ اور فنکارانہ تخلیق کا معجزہ کہا ہے ۔

زین الملوک پورب کا بادشاہ تھا۔

تاج الملوک جو کہ شہزادہ ہے زین الملوک کا سب سے چھوٹا اور پانچواں بیٹا تھا۔

بکاؤلی جو کہ ہیروئن ہے اور پری ہے وہ شہزادے سے محبت کرتی ہے اور بکاولی ہی زین
الملوک اور تاج الملوک سے ملاقات کے وقت فرخ نام سے وزیر بنتی ہے۔

جمیلہ پری بکاؤلی کی ماں ہے۔

فیروز بکاؤلی کا باپ ہے۔

سیمن پیری بکاؤلی کی سہیلی ہے۔

بہرام جو کہ تاج الملوک کا وزیر زادہ ہے وہ روح افزا پری پر عاشق ہے۔

روح افزہ جس پر بہرام عاشق ہے اور جو بکاولی کی سہیلی ہے۔

حسن آرا روح افزا پری کی ماں ہے۔

محمودہ حمالہ دیونی کی منہ بولی بیٹی ہے۔

راجا اندر جس کی بددعا سے بکاؤلی نصف پتھر بن گئی تھی اور جس کے دربار کی رقاصہ بکاؤلی ہے۔

حمالہ دیونی جس کے بنائے ہوئے سرنگ کی مدد سے شہزادہ تاج الملوک گلزار ارم پہنچاتا ہے۔

دیگر کردار رانی چیٹر اوٹ، چیٹرسین، دلبر بیسوا وغیرہ

مثنوی گلزار نسیم کا خلاصہ

پورب کا بادشاہ سلطان زین الملوک کے پانچواں بیٹا ہونے پر نجومیوں نے پیشین گوئی کی کہ اگر سلطان کی نظر اس پر پڑے گی تو اندھا ہو جائے گا۔

چند برس بعد ایک دن اتفاقاً باپ بیٹے کا سامنا ہو گیا۔ باپ کی آنکھیں جاتی رہیں۔ ایک معالج نے بتایا کہ گلزار ارم میں بکاؤلی کا پھول ہے، وہ اگر آنکھوں کو لگایا جائے تو بینائی عود کر آئے گی۔

چاروں شہزادے گل بکاولی کی تلاش کو نکلے اور پہلی ہی منزل پر دلبر بیسوا سے چوسر کا کھیل ہار گئے اور اس نے انھیں قید میں ڈال دیا۔

پانچویں بیٹے یعنی تاج الملوک نے دلبر بیسوا کو مات دی اور دوسری منزل پر ایک دیو سے مقابلہ کر کے اسے بھی رام کیا۔ دیو کی بہن حماله دیونی مددگار ثابت ہوئی ۔ اس کی بنائی ہوئی سرنگ کے ذریعے تاج الملوک گلزار ارم میں پہنچا اور گل بکاولی توڑ لانے میں کامیاب ہو گیا۔

وطن کو لوٹتے ہوئے تاج الملوک کی بڑے بھائیوں سے مٹھ بھیڑ ہوئی تو انھوں نے دھوکے اور فریب سے بکاؤلی کا پھول تاج الملوک سے چھین لیا۔

پھول سلطان کی آنکھوں کو لگایا گیا، جس سے اس کی کھوئی ہوئی بینائی واپس آگئی ۔

ادھر جب بکاؤلی نے گلزار ارم سے اپنے پھول کو غائب پایا تو بہت سٹ پٹائی۔ چور کی تلاش میں وہ سراغ لگاتے لگاتے سلطان کے دربار تک پہنچی اور مرد کی صورت اختیار کر کے اس کی وزیر بن گئی۔

پھول ہاتھ سے نکل جانے کے بعد تاج الملوک شہر کے قریب جادو کے زور سے گلشن نگاریں بنا کے رہنے لگا لیکن یہ راز زیادہ مدت تک پوشیدہ نہ رہا۔

بکاولی کو بھی پتا چل گیا کہ اصل چور تاج الملوک ہے۔ وہ اس کی شجاعت، دلیری اور مردانگی کی قائل تو تھی ہی پہلی ملاقات میں دل ہار گئی۔

عشق کی ابتدا ہوئی اور وہ دونوں ساتھ ساتھ گلزار ارم میں داد عیش دینے گے۔

بکاؤلی کی ماں جمیلہ پری کو یہ احوال معلوم ہوا تو اس نے بکاؤلی کو قید کر دیا اور تاج الملوک کو طلسم کے جنگل میں پھنکوادیا۔

تاج الملوک نے تمام آفات کا نہایت ہمت اور جرات سے مقابلہ کیا اور طلسم سے رہائی حاصل کی۔ آخر بکاؤلی سے اس کا بیاہ ہوا اور دونوں گلشن نگار میں میں آکر مزے میں زندگی بسر کرنے لگے۔ در حقیقت بکاؤلی اندر لوک کی پری تھی ۔

وہ ہر رات اڑ کر اندر لوک پہنچتی اور صبح تاج الموک کی آنکھ کھلنے سے پہلے واپس آجاتی ۔

ایک رات تاج الملوک تاڑ گیا اور پکھاوجی بن کے بکاؤلی کے ہمراہ اندر لوک پہنچا۔ بکاؤلی نے اس رات اتنا عمدہ رقص کیا کہ راجا اندر نے بے اختیار اس کی منھ مانگی مراد پوری کرنے کا وعدہ کر لیا۔

بکاؤلی نے تاج الملوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی اجازت چاہی، مگر اسے سنتے ہی راجا کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی اور بکاولی کو نصف پتھر کی بنا کر ایک مٹھ میں قید کر دیا۔ کچھ مدت بعد راجہ چترسین کی بیٹی چتراوت بھی تاج الملوک پر عاشق ہو گئی۔

اسے تاج الملوک کا روز روز مٹھ جانا اور بکاؤلی سے باتیں کرنا شاق گزرا۔ اس نے وہ مٹھ ہی کھدوا ڈالا۔

مٹھ کے انہدام کے بعد اس زمین میں سرسوں پیدا ہوئی جس کے تیل سے ایک دہقان کی بیوی کے حمل رہ گیا اور بکاؤلی نے نیا جنم پایا۔

دہقان کے گھر جوان ہو کر بکا مولی پھر تاج الملوک سے ملی اور دونوں کے دلوں کی مراد پوری ہوئی ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: مثنوی گلزار نسیم کا جائزہ pdf

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں