کلکرز کی واپسی: ایک نئی نسل کی بے سکونی

کلکرز کی واپسی: ایک نئی نسل کی بے سکونی

وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور کئی بار ہم وہی چیزیں دوبارہ دیکھنے کو مجبور ہوتے ہیں جنہیں کبھی ماضی کا حصہ سمجھ کر بھلا دیا گیا تھا۔ آج کل پاکستانی بچوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا نظر آ رہا ہے جسے ہم کلکرز کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ وہی کلکرز ہے جو 1970 کی دہائی میں امریکہ اور یورپ میں ایک مختصر عرصے کے لیے مشہور ہوا اور پھر اپنے خطرناک پہلوؤں کی بنا پر بھلا دیا گیا۔
یہ کھلونا جو دو سخت گیندوں پر مشتمل ہوتا ہے بظاہر ایک سادہ تفریح ہے لیکن حقیقت میں یہ بے سکونی اور بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔ گیندوں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والا شور اور مسلسل کھیلنے سے بچوں میں چڑچڑا پن اور توجہ کی کمی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور بے شمار تعلیمی سرگرمیوں کے دور میں ہماری قوم کے بچے ایسے بے فائدہ اور نقصان دہ کھلونوں میں مصروف ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ آخر ہماری قوم اور بچے کیوں ایسے کھلونوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں جو نہ تو تعلیمی فوائد رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے یا والدین کی عدم توجہی؟ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں جہاں جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق بچوں کی تربیت کی ضرورت ہے وہاں پرانے بے فائدہ اور نقصان دہ کھلونوں کی مقبولیت لمحۂ فکریہ ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کلکرز جیسے کھلونے صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری ترقی کی رفتار میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ جب دنیا جدید ٹیکنالوجی سائنس اور تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ دے رہی ہے ہمارے بچے ایک ایسے کھلونے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جو نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینا اور بچوں کو ایسے کھلونوں سے دور رکھنا جو ان کے لیے نقصان دہ ہوں ہماری اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما میں معاون ثابت ہوں۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں انہیں ایسی سرگرمیوں سے بچانا ہوگا جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
کلکرز جیسے کھلونوں کی واپسی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کے مطابق بچوں کی تربیت ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ایک روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے وقت اور توانائی کو ایسی سرگرمیوں میں صرف کرنے کی ترغیب دینی ہوگی جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور انہیں معاشرتی ترقی کا حصہ بنائیں نہ کہ ایسی سرگرمیوں میں جو انہیں پیچھے کی طرف لے جائیں۔
✒️از قلم محمد وقاص رانا طیبی

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں