کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے پاکستان کی آزادی کی داستان اور موجودہ حالات
14 اگست 1947 کو برصغیر کے مسلمانوں نے وہ خواب حقیقت میں تبدیل ہوتا دیکھا جو برسوں سے ان کی آنکھوں میں بسا ہوا تھا۔ یہ سرزمین اس لیے حاصل کی گئی تھی کہ یہاں اسلام کا نظام نافذ ہو، ایک ایسا نظام جہاں ہر شخص کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر فضا میں لہرایا گیا، اور کلمۂ توحید کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کا دستور، "ریاست محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” کا تصور، ہر دل میں بسا ہوا تھا۔
آزادی کی تحریک میں شہداء کی قربانیاں ایسی تھیں جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمارے لیے ایک آزاد ملک کی بنیاد رکھی، تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل دے سکیں۔ ان کی عظیم قربانیوں کا احترام اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن آج، جب ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو دل میں ایک سوال اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
بدقسمتی سے، موجودہ حالات میں پاکستان کی وہ تصویر نظر نہیں آتی جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ آج ہم ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ ہمارا دارومدار امریکہ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی طاقتوں پر ہے، اور ہم ان کی شرائط کے تحت اپنی معیشت اور سیاست چلا رہے ہیں۔ ہماری سیاست اس حد تک انحصار پذیر ہو چکی ہے کہ قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کی جنگ میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
آزادی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس ایک الگ ملک ہے، بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکیں، اپنی معیشت اور سیاست کو اپنے اصولوں کے مطابق چلا سکیں، اور اپنی قومی خودمختاری کو مضبوط کر سکیں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری معیشت پر بیرونی قوتوں کا تسلط ہے، ہمارے فیصلے ان کے زیر اثر ہوتے ہیں، اور ہم اپنی مرضی سے کاروبار کرنے کی آزادی سے محروم ہیں۔
اس ناامیدی کے عالم میں، یہ سوال اٹھانا بجا ہے کہ ہم اپنے آپ کو آزاد ہونے کا حق دار کیسے سمجھیں؟ جب تک ہم اپنی معیشت کو خود مختار نہیں بنائیں گے، اپنے فیصلوں کو خود نہیں کریں گے، اور اپنی سیاست کو قومی مفادات کے تابع نہیں کریں گے، تب تک ہم حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر جذبۂ ایمانی کو پھر سے زندہ کریں، شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور اس ملک کو وہی حیثیت دیں جس کے لیے یہ حاصل کیا گیا تھا۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آزادی کو حقیقی معنوں میں حاصل کریں گے، تاکہ ہم ایک خود مختار، مضبوط، اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کر سکیں۔
از قلم محمد وقاص رانا طیبی