کرشن چندرکرشن چندر پر اگر ان کی رومانیت اور ان کے افسانوں کی بے حد دل کش اور تخلیقی فضا کا خیال رکھیں تو موپساں کا اثر ہے اگر ان کی سماجی حقیقت نگاری کو پیش نظر رکھا جائے تو وہ چیخوف سے متاثر ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان پر مختلف لوگوں کا اثر ہے۔
بقول ممتاز شیریں:
کرشن چندر نے کسی ایک مغربی ادب یا کسی خاص طرز تحریر کا اثر یوں تو قبول نہیں کیا کہ وہ ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر گئی ہو بلکہ انہوں نے وقتی طور پر مختلف طرز تحریر اور مختلف مغربی رجحانات سے دلچسپی لی۔”
کرشن چند ر اردو کے واحد افسانہ نگار ہیں جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے اور ہر طرح کے رجحانات و میلانات اور نئی تکنیکوں پر سب سے پہلے طبع آزمائی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی تکنیکیں ان کے لئے کھیل سی بن گئی تھیں کرشن چندر کی اس خوبی اور مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے فکشن کی معروف و مشہور نقاد یوں رقمطراز ہیں :
کرشن چندر کے پاس ذہانت تھی کسی چیز کا فوری اثر قبول کر لینے والا مزاج ، ایک زود نویس، تیز رفتار قلم ، چلتی ہوئی رنگین زبان ، جس سے انہیں اظہار میں کوئی مشکل نہ ہوتی تھی۔”
آگے شیریں ان کے ابتدائی افسانوں اور مغربی افسانوں سے مشابہ تجربوں کے بارے میں اس کی اہم تخلیقات کے حوالے سے لکھتی ہیں :
یوں تو کرشن چندر کا ” حسن و حیوان” بھی چیخوف کے The Stappe کی طرز پر لکھا گیا ہے اور کافی کامیاب کوشش ہے اس زمانے میں جب کرشن چندر نے پہلے پہل لکھنا شروع کیا تھا اور جو ہمارے نئے ادب کا اور اردو کی افسانہ کا ابتدائی زمانہ تھا کرشن چندر نے مغربی افسانہ سے متاثر ہو کر کئی ایک نئے تجربے کئے بلکہ ان کا ہر افسانہ ایک نیا تجربہ ہوتا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں کرشن چندر نے بعض بہت اچھے افسانے لکھے۔”
کرشن چندر نے علامتی اور تمثیلی کہانیاں بھی تحریر کی ہیں لیکن ان کی علامتی و تمثیلی کہانیاں سریندر پرکاش اور رشید امجد جیسی نہیں ہیں اس لئے ان کے یہاں کوئی مکمل علامتی افسانہ نہیں ملتا۔یعنی کسی بھی افسانے کا پورا انتظام علامتی نہیں ہے بلکہ کسی موضوع، کردار، منظر نامے یا فضا آفرینی کے تقاضے کے تحت وہ علامتوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن یہ علامتی عنصر کہانی کے دوسرے اجزا پر حاوی نہیں ہونے پات۔
بلکہ ان سے دبا دبا سا رہتا ہے جیسے فطرت خصوصاً کشمیر کے مناظر فطرت کی مصوری کرتے وقت جنگل برف پوش پہاڑیاں، سبزہ زار، پھولوں سے بھری وادیاں اور جھیلیں وغیرہ زمانہ قدیم کی معصوم ، سادہ لوح اور پاکیزہ زندگی کی علامت بن جاتے ہیں۔
زندگی کے دیگر حقائق بھی علامتوں کے ذریعہ پیش کئے گئے ہیں علامتی و تمثیلی افسانوں کے ضمن میں "غالیچہ” "پانی کا درخت” "دو فرلانگ” لمبی سڑک” ٹوٹے ہوئے تارے، اور کالا سورج ” وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ افسانوں پر کافکا کے اثرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ان افسانوں کے علاوہ حسن و حیوان،نغمہ کی موت ، اور زندگی کے موڑ پر وغیرہ میں بھی کافکا کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں لیکن کافکا کی طرح مذکورہ افسانوں کا پورا نظام علامتی نہیں ہے بلکہ یہ ایسے فنکار ہیں۔
جن کا دل انسانی دوستی سے بھرا ہونے کی وجہ سے اپنے گردو پیش کی زندگی میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور افسانے میں ایک علامتی فضا کی تشکیل کر لیتے ہیں جو ان کی زندگی کی معنویت اور فرد کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔جیسا کہ ان کے افسانے "غالیچہ “ اور پانی کا درخت میں علامتی فضا میں اور تکنیک ان کو کافکا کے قریب کر کے زندگی کی معنویت کی تشریح کرتی ہیں. اس طرح دو فرلانگ لمبی سڑک میں سڑک اپنے اوپر سے گزرتے ہوئے ہر شخص کی انفرادیت کو دیکھتی ہے کیونکہ سڑک کے اوپر سے غریب ، امیر، مزدور عورتیں اور مرد بھی گذرتے ہیں۔
اور سماج کے ظلم کا شکار بنتے ہیں زندگی میں ایسی بے حسی چھائی ہوتی ہے کہ نوجوان امید بھری نظروں سے اس بے جان سڑک کو دیکھتے ہیں چنانچہ کرشن چندر کے یہاں یہ سڑک انسانی بے حسی ، معاشرے و زمانے کے استحصال اور انسانی ضمیر کی علامت بن جاتی ہے۔
کرشن چندر نے مغربی افسانوں سے متاثر ہو کر اردو میں ایک زود نویسں اور تیز رفتار افسانہ نگاروں کی طرح افسانے تخلیق کئے ہیں جیسا کہ ممتاز شیریں "عالیہ” کے حوالے سے ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں:انہوں نے عالیہ میں پر اسراری رمزیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں کچھ تو ایڈگر الین پو پراسرار افسانوں مثلا the Pendulum Pit andکی کی زہنی اذیت کی پیش کش تھی اور کچھ کافکا کے انداز کو اپنانے کی کوشش۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں