ڈپٹی نذیراحمد سوانح و شخصیت

ڈپٹی نذیراحمد سوانح و شخصیت

پس منظر

کہانی انسان کی سرشت میں شامل ہے کیوں کہ یہ تجسس وتحیر،جذبات واحساسات، انقلابات،لطافت و کثافت،تازگی دل و دماغ سےعبارت ہے۔اوریہ تمام خصوصیات انسانی زندگی کی لوازمات ہیں۔اسی بناپر کہانی کا عنصر یا کہانی ہماری حیات کا جزولاینفک بن گئی ہے۔یہی کہانی زندگی کےارتقا میں مختلف اشکال،رو پ میں(مختلف اوقات میں)اپنی حیثیت متعین کرتی ہےیا اپنا مقام متعین کرتی ہوئی نظرآتی ہے۔یہ کہانی ہی ہےجو اقتضا کےمطابق وقت اور حالات کی مناسبت سےارتقاکی مختلف منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔یہ کہانی کبھی داستان کا رو پ دھار لیتی ہے تو کبھی ناول کا،کبھی افسانے کاتو کبھی افسانچے و ناولٹ کااورکبھی مختصرکہانی بن کر انسانی زندگی کے ساتھ چلتی ہوئی نظرآتی ہے۔ انسان ذہنی آسودگی،آرام وسکون اورحظ ومسرت کےلیے جن اشیا کا متقاضی ہےیا وہ اپنی بقا اور تکمیل کےلیے جن چیزوں کا سہارالیتا ہےان میں سے ایک کہانی یا قصہ ہے۔جس سےاسے ذہنی آسودگی بھی میسرآتی ہے اورساتھ ساتھ زندگی بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔اگر یہ اشیا ذہنوں سے مفقود ہوجائے یا غائب ہوجائے تو انسان تنزلی اورقلبی پژمردگی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔انسانی طبیعت کی تروتازگی،سرسبزی و شادابی اور سکون و آرام کا ایک ذریعہ کہانی،داستان،ناول یا افسانہ ہے۔انسانی زندگی اور کہانی کا ناطہ ازل سے جڑا ہوا ہےاور اس کا اعتراف ہمیں ہر کسی کے ہاں ملتا ہے۔اس حوالے سے سید وقارعظیم رقم طراز ہیں:’’کہانی سے انسان کی دلچسپی اور اس مشغلے سے اس کا لگاؤ ،اس کی اجتماعی زندگی کی ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ کی سنجیدگی اور اس کی فکر منطق نے بھی پورے وثوق کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔‘‘(۱) انسانی پیدائش کےساتھ انسان سےجڑنے والی شے قصہ یا کہانی ہے۔آدمؑ کی تخلیق اورجنت میں حواؑکے ساتھ ۱۔وقارعظیم،سید،داستان سےافسانےتک،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،۲۰۰۹ء،ص ۷۰رہائش اور پھر ابلیس کے ذریعےانھیں پھلِ ممنوعہ کی طرف رغب کرنا اور اس کےبعد آدم ؑ کو خلیفہ بنایا گیا وغیرہ یہ کہانی نہیں تو اور کیاہے۔ کہانی اورناول کے حوالے سے یہ بحث دراصل تمہید ہے،نذیرحمدکی حیات ،شخصیت،ناول نگاری وغیرہ کےلیے، کیوں کہ نذیراحمد وہ شخصیت ہیں جن کا براہ راست کہانی اور اس کی قسم ناول سے تعلق ہیں۔انھیں اردوناول نگاری میں اولیت حاصل ہےاور ان کےناول ’’مراۃالعروس((۱۸۶۹ء)‘‘کو اردوکا پہلا ناول گردانا جاتا ہے۔اردوناول کا ذکر ہو اور نذیر کا نہ ہو یہ ناممکن ہے۔اس باب میں نذیراحمد کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک کےحالات کا تجزیاتی اورتحقیقی مطالعہ کیا جائےگا۔ اردوزبان وادب میں بہت ہی لاجواب اور باکمال شخصیتیں عالم وجود میں آئیں جنھوں نے اپنے قابل ستائش اور قابل قدر کارناموں اور خدمات سے اردوزبان وادب کو نہ صرف وسعت دی اور اس کےدامن کو وسیع کیا بل کہ انھوں نے اسے بام عروج تک پہنچانے کی بھرپورکوشش بھی کی۔

انہی لاجواب شخصیتوں میں ایک شخصیت ڈپٹی نذیراحمدکی ہےجنھیں شمس العما کاخطاب دیا گیا۔وہ بنیادی لحاظ سے اردوناول کے مؤجد ہیں۔انھوں نے نہ صرف اردوناول نگاری اور اس کے فن کو عروج تک پہنچایا بل کہ اسے انگریزی ناول کےہم پلہ لاکھڑاکیا۔ان کا خاص ہدف اصلاح معاشرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریر و تقریرسے اپنی قوم کوخوابِ خرگوش سے بیدار کیا۔اوراپنی قوم کو منزل مقصودتک پہنچانے کی تگ و دو کی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر اعجازلکھتےہیں:’’عام طور اردو کی ناول نویسی کا بانی سرشار کو خیال کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں نذیراحمد اردوکے سب سے پہلے ناول نویس ہیں اس لئے کہ ان کی تصانیف بنات النعش(۱۸۷۳ء)، مراۃالعروس (۱۸۶۹ء)اور توبۃ النصوح (۱۸۷۷ء)سرشار سے بہت قبل شائع ہوچکی ہیں۔‘‘(۱)اس ضمن میں ڈاکٹرمسیح الزماں کا خیال ہے کہ:۱۔سیداعجازحسین،ڈاکٹر،مختصرتاریخ ادب اردو،۲۰۰،ص ۲۳۶’’غدر کے بعد معاشرت اور ادب میں اصلاح پسندوں کا دور دورہ ہوا ان میں نذیراحمد بھی تھے۔

انھوں نے سحر اور جادو سے بھرے ہوئے ایسے قصوں کو جن میں محبت کا ایک عجیب تصور تھا مخرب اخلاق سمجھ کر ایسے اصلاحی افسانے لکھنے کی کوشش کی جو زندگی سے قریب ہوں اور زندگی کو سنوارنے میں بھی مدد دیں۔‘‘(۱)یہ روایت عام ہے کہ کسی شخصیت پر مقالہ لکھنے سےقبل اس کی خاندانی زندگی کے پس منطراور پیش منظر کو مد نظررکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔

لہٰذا زیرنظرمقالہ میں بھی نذیراحمدکے خاندانی حالات کے ساتھ ان کا سوانحی اجمالی خاکہ پیش کرنا مقصود ہے۔پیدائش: نذیراحمد کے والد جناب مولوی سعادت علی کو قاضی غلام علی شاہ(نذیراحمدکےنانا)نے خانہ داماد بنایا تھا۔وہ موضع ریہڑ، پرگنہ افضل گڈھ،تحصیل نگینہ، ضلع بجنور کے رہائشی تھے۔اسی گھر میں ۶ دسمبر ۱۸۳۶ء بروز شنبہ نذیراحمد کی ولادت ہوئی۔

ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے دو نظریے پائے جاتےہیں۔اس حوالے سے ایک سید افتخار بلگرامی (مصنف : حیات النذیر) ہیں۔

انھوں نے بڑی چھان بین اور تلاش و جستجو کے بعد ان کی پیدائش ۶ دسمبر ۱۸۳۶ء لکھی ہے۔مونوگراف ’’نذیراحمد‘‘کےمصنف نورالحسن نقوی نے اسی خیال کی تائید کی ہے۔دوسرا نظریہ افتخارصدیقی کا ہے جس کے مطابق نذیراحمد ۱۸۳۱ء کو پیدا ہوئے

۔اس ضمن میں ڈاکٹراشفاق احمداعظمی اپنی کتاب’’نذیراحمدشخصیت اور کارنامے‘‘کے حاشیے میں لکھتےہیں:’’فسانٔہ مبتلا؛ مجلس ترقی اردو لاہور کے مقدمے میں افتخاراحمدصدیقی نےنذیراحمد کی

۱۔مسیح الزماں،ڈاکٹر،معیارومیزان،ص ۱۳۲زندگی کے ابتدائی مرحلے کے جائزے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان کا سال پیدائش ۱۸۳۱ء زیادہ قرین قیاس ہے۔

اس کے علاوہ صاحب حیات النذیرکےخیال کےمطابق اگر ۱۸۳۶ء کو ان کا صحیح سال پیدائش مان لیا جائےتو دہلی کالج میں داخلے کا سال کسی صورت میں ۱۸۴۵ء نہیں ہوسکتا۔

جس پر نذیراحمد کے سبھی سوانح نگار متفق نظرآتےہیں۔افتخاراحمدصدیقی کے علاوہ اور بھی کئی مصنفوں نے نذیراحمد کا سال پیدائش ۱۸۳۱ء ہی دیاہے۔نذیراحمد کی وفات کے موقع پر ملک کے متعدد جریدوں میں ان کےحالات زندگی شائع کیے گئے افتخارعالم نے’’حیات النذیر‘‘میں،ان میں سے زیادہ ترمضامین کوبطورضمیمہ شامل کرلیاہے۔ان مضامین میں بھی جابجا یہی سال پیدائش ہے۔‘‘(۱)

اس کے علاوہ حامدحسین قادری اپنی کتاب ’’داستان تاریخ ادب اردو‘‘میں ڈپٹی نذیراحمدکی پیدائش کے حوالےسے لکھتے ہیں:’’نذیراحمد۶ دسمبر ۱۸۳۶ءمطابق ۲۳ جمادی الاولیٰ ۱۲۵۲ھ کو بمقام موضع ریہڑ،پرگنہ افضل گڈھ،تحصیل نگینہ،ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔‘‘(۲)

لیکن یہ واضح ہے کہ نذیراحمد کی پیدائش کےحوالے سے مصنیفین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض اسے ۱۸۳۶ء قرار دیتے ہیں تو بعض ۱۸۳۱ء۔ڈاکٹرافتخارصدیقی نے اپنے مقالے’’مولوی نذاحمددہلی۔

احوال وآثار‘‘میں مذکورہ سن پیدائش(۱۸۳۶ء)کی تردید کی ہے اور ان کی سن پیدائش ۱۸۳۱ء بتائی ہے۔اس کے علاوہ بعض اور مصنف بھی ہیں جو نذیراحمدکی سن پیدائش ۱۸۳۱ء بتاتے ہیں۔یہ بات قابل توجہ ہےکہ خود نذیراحمد نے اپنی پیدائش کا سال کیا بتایا ہے؟انھوں نے ترجمہ ’’تعزیرات ہند‘‘کے صلے میں ڈپٹی کلکٹری کےلیے جو کوائف مہیا کیے ہیں تو اس میں ان کی سن پیدائش ۲۱ ستمبر ۱۸۳۳ء درج ہے۔

مالک رام نے توبۃ النصوح کا تعارف لکھا ہے یہ تعارف لکھتے ہوئے انھوں نے

۱۔اشفاق احمداعظمی،ڈاکٹر،نذیراحمدشخصیت اورکارنامے،نظامی پریس لکھنؤ،۱۹۷۴ء،ص ۱۲،۱۱۲۔حامدحسن قادری،داستان تاریخ ادب اردو،ص ۵۸۶ ۱۸۳۳ء کو ہی تاریخ پیدائش مانا ہے۔

اب اگرنذیراحمد کی بتائی ہوئی تاریخ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر مسٔلہ یہ بنتا ہے کہ جب انھوں نے دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی عمر ۱۲ سال تھی۔اسی طرح ۱۸۳۱ء کے لحاظ سے پھر ۱۴ سال بنتے ہیں یہ عمر پھر بھی قرین قیاس ہے۔لہٰذا ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۱ء ہی درست اورزیادہ قرین ق

یاس معلوم ہوتی ہے۔ان کے نام ونسب کےحوالے سے یہ بات قابل توجہ ہےکہ ان کا نام ان کے والد نے رکھا تھا۔وہ اپنےاصلی نام کے علاوہ کسی اورنام سے نہ مشہور تھے اور نہ ہی ان کی کوئی عرفیت تھی۔

خاندانی پس منظر

نذیراحمد کے والد مولوی سعادت علی کا سلسلۂ نسب حضرت شاہ عبدالقادرقدوسی گنگوہی کےنامور خلفا میں سے ایک بزرگ شاہ عبدالغفور اعظم پوری سے ملتا ہے جو بجنور میں سکونت پذیرتھے۔

اس سے واضح ہوجاتا ہےکہ نذیراحمد نے ایک مذہبی اور دینی گھرانےمیں جنم لیا اورانھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا اس لیے انھوں نے اپنےآپ پرفخرمحسوس کیا اوراس کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:’’مجھ کو اس بات کا فخر حاصل ہےکہ اباعن موروثی مسلمان ہوں اوراپنے نسب نامے میں انقراض سلطنت دہلی تک کے بلافضل مشائخ و مفتی اور علماء کے نام پاتا ہوں۔‘‘(۱)

نذیراحمد کے جداعلیٰ شاہ عبدالغفوراعظم پوری کا شمار اپنے عہد کی برگزیدہ اور متبرک ہستیوں میں ہوتا تھا۔ان کامسکن ضلع بجنور کاتحصیل چاندپور کااعظم پور تھا۔نذیراحمد اوران کےسلسلۂ نسب کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوجاتا ہےکہ ان میں سے زیادہ تر علماومشائخ اور حاملین دین سے متعلق شخصیات تھیں۔نذیراحمد کا سلسلۂ نسب شاہ عبدالغفوراعظم پوری سے کچھ یوں ملتا ہے ؛نذیراحمدبن سعادت علی بن پیرجی نجابت علی بن پیرجی فیض الدین،مفتی نصرالدین شیخ ۱۔

اشفاق محمدخاں،ڈاکٹر،نذیراحمدکےناول(تنقیدی مطالعہ)،ص ۱۶ابوالفضل(مفتی نصرالدین ہی وہ شخصیت ہیں جن سے خاندان میں پیری مریدی کا سلسلہ شروع ہوا،موصوف پیرفضل کے لقب سے مشہور ہوئے)بن شاہ حاتم بن مبارک بن شاہ ابوالاسحاق بن شاہ عبدالغفور۔ سلسلۂ مشائخ صوفیہ کی بناپر نذیراحمد کے خاندان کو کچھ جاگیریں مغل دربار کی طرف سے عطا ہوئی تھیں۔

ان کے جدامجد ابوالفضل کو عہداکبری میں مغل دربار کی جانب سے ’’شیخی شیخ ابوالفضل‘‘کے لقب سے نوازا گیا۔

جس طرح نذیراحمد کا ددھیال میں شاہ صاحب اپنے وقت کے مشاہیراولیاءاللہ میں شمار کیے جاتےتھے اسی طرح ڈپٹی نذیراحمدکا ننھیال بھی علما کےخاندان میں تھاجنھیں شاہی زمانے میں قاضی رہنے کا شرف بھی حاصل تھا۔حتیٰ کہ ’’حیات النذیر‘‘کے مصنف و مؤلف نے ان کا سلسلۂ نسب کےبارے میں یہاں تک کہہ دیاہےکہ ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے۔

زندگی کےابتدائی چند سال (چارسال)نذیراحمدنے ریہڑمیں گزارے لیکن ان کے نانا قاضی غلام علی شاہ کی وفات کے بعد جائیدادکا تنازعہ سامنے آیا جس کی وجہ سے نذیراحمدکے والدماجدنےاپنی بیگم سمیت بجنور ہجرت کی اوراپنے آبائی مکان میں رہائش پذیر ہوئے۔

بجنورمیں چندایام تک مولوی سعادت علی نے شکر(کھنڈسازی)کاکام کیالیکن یہ کام ان کے مزاج کے خلاف تھا لہٰذا اسے ترک کرکے معلمی کو ذریعہ معاش و عزت بنایا۔

نذیراحمدکےوالدمولوی سعادت علی اسلامی احکامات کے پابندانسان تھے۔وہ ایک مذہبی،دین کے پابند اوراحکامات شرعیہ کےسختی سےپابندشخصیت کےحامل تھے۔

چوں کہ انھیں اسلامی روایات،ثقافت،تہذیب اور معاشرت وغیرہ ورثےمیں ملےتھے لہٰذا وہ ان کا پالن کرنے والے بزرگ تھے۔ان کی شخصیت میں وضع داری کا عنصر نمایاں تھا،اس کے علاوہ وہ شعروادب سے گہری دل چسپی رکھتےتھے۔انھیں عربی زبان و ادب پر گرفت حاصل تو تھی ہی ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی مہارت رکھتےتھے۔

وہ فرائض کی ادائیگی میں کبھی بھی کوتاہی نہیں برتےتھے۔ان کی شادی قاضی غلام علی شاہ کی صاحبزادی سے ہوئی جواپنے وقت کے صاحبِ جائیداد شخصیت اورمتمول انسان تھے۔

ان کا گھرانہ خوش حال تھا۔مولوی سعادت علی خانہ دامادرہےلیکن جائیداد کی لڑائی کےبعد وہ وہاں سےکنارہ کش ہوئےجس پربالا سطورمیں بحث ہوچکی ہے۔

مولوی سعادت علی نذیراحمدکےطالب علمی کےزمانےمیں دنیاسے کوچ کرگئے۔البتہ ان کی والدہ صاحبہ طویل عمر پائیں۔وہ نذیراحمدکی وفات کےبعدتک زندہ رہیں۔ نذیراحمدتین بہنیں ،تین بھائی تھے۔

ان کے بڑے بھائی کا نام علی احمد تھا،منجھلے نذیراحمداورسب سےچھوٹے کانام ضمیراحمدتھا۔ان کےبڑےبھائی علی احمدبھی والد کی طرح صوفی منش اوردین دارشخص تھے،وہ اسلامی اصول و ضوابط پرکاربند،باعمل اورخداپرست انسان تھے۔ادبی ذوق بھی ان کےہاں موجودتھا۔

انھیں عربی زبان و ادب پر بھی قدرت حاصل تھی۔پہلےپہل وہ تعلیم میں ایک مدت تک ملازم رہے اس کےبعد بریلی کالج میں بطورعربی ان کی تعیناتی ہوئی۔وہ ضلع بجنورکےڈپٹی انسپکٹرکےعہدےپربھی بعد میں فائز رہے۔

علی احمد۱۷ دسمبر۱۹۰۰ءمیں اس جہانِ فانی سے پردہ کرگئے۔ چوں کہ ان کا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا لہٰذاعلی احمد بھی شریعت کےپابنداورمثالی شخصیت تھے۔ان کےحوالےسےیہ بات قابل ذکرہےکہ انھوں نے اپنی تمام زندگی میں کبھی بھی انگریزی دواکوذریعہ علاج نہیں رکھا۔

کیوں کہ ان کاخیال تھاکہ انگریزی دواؤں میں شراب کی آمیزش ہوتی ہےجوشفایابی کی حامل نہیں ہوسکتی۔ نذیراحمدکےچھوٹےبھائی ضمیراحمدایک صحت مندو تندرست جسم کےمالک تھے اس کے علاوہ وہ قبول صورت بھی تھے۔سب سےچھوٹےہونے کی بنا پران کو ماں کا شفقت اور پیار کثرت سے ملا۔

چوں کہ نذیراحمداورعلی احمدعلم کےحصول کےلیے دہلی چلےگئے تھے اس لیے انھیں ماں کی شفقت زیادہ حاصل ہوئی،جس کی وجہ سے وہ تعلیم سے زیادہ بہرہ ور نہ ہوسکے۔

کچھ عرصےبعد انھیں نذیراحمدنےدلی بلاکرمیونسپلٹی میں ملازمت دلائی ،اس کےبعد وہ محکمہ پولیس میں تھانےداربنے،ان کی طبیعت میں یکسوئی نہیں تھی لہٰذا اسی وجہ سے کسی کام میں ان کی دل چسی نہ رہی ۔انھوں نے ایک طوائف سے شادی بھی کی۔آخری عمرتک مجردرہے۔۳۰ نومبر۱۹۰۵ءکو وفات ہوئے۔

نذیراحمدکی تین بہنیں تھیں ،تینوں نذیراحمدسےعمرمیں چھوٹی تھیں۔ان میں سےبڑی جلیاتھی جس نےپیرصادق سےشادی کی،منجھلی کانام متیاتھا،جس سے مولوی رفیع الدین نےنکاح کیا۔سب سےچھوٹی جوانی کےدنوں میں زچگی کےدوران جاں بحق ہوگئیں۔

بچپن

نذیراحمدنےاس وقت آنکھیں کھولی جب پورے ملک کی فضا پرانگریزی ماحول،تہذیب و ثقافت،زبان و ادب وغیرہ نےاپنا قبضہ جمالیا تھااورہر طرف انگریزیت کا دوردورہ تھا۔پوراہندوستان انگریزوں کے زیر تسلط تھااورپورےملک میں انگریزی ظلم و ستم اورجبر و استبدادجاری تھا۔انگریزوں نےپورے برصغیرپاک و ہند کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔عیسائی مشینریاں اپنا کام زور و شور سے کررہی تھیں،انگریزی تہذیب و تمدن آہستہ آہستہ ملک میں پاؤں جمارہی تھی۔اورمشرقی تہذیب و تمدن سےعوام دھیرےدھیرے دور ہورہی تھی۔اس ملک پرایک ہزارسال تک حکومت کرنے والی ریاست مغل کی طاقت و قوت عدم ہوچکی تھی۔ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل گیا تھا۔ جدیداشیا اورجدیدتعلیم کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہاتھا۔لوگ اپنی روایات،اقدار،عقائد اورسماجی و اخلاقی قدروں کو چھوڑ کرانگریزی وضع قطع کی طرف مائل ہوگئے تھے۔یہ وہ وقت تھا جس میں اخلاقی فقدان کے ساتھ ساتھ سیاسی ہلچل بھی دیکھنےکوملی۔انیسویں صدی کا ہندوستان تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے،کیوں کہ یہی ہندوستان جس میں لوگ صدیوں سے امن وسکون سےزندگی بسرکرہےتھےاب جہنم کدہ بن چکاتھا۔یک دم ماحول نےپلٹاکھایاتھااورسب کچھ الٹ پلٹ گیا۔لوگوں کی ذہنی حالت،نفسیاتی صورت حال وغیرہ میں مکمل طوررتبدیلی آچکی تھی۔ لہٰذا ایسے معاشرے میں مختلف طبقات کے ساتھ اصلاحی تحاریک بھی وجود میں آئیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان تمام تباہیوں و بربادیوں کےباوجود(کہ ہندوستان زوال پذیرہوچکاتھا)ہندوستان ترقی و کامرانی کی نئی ڈگرپرچل رہاتھا۔اس دورمیں ہندوستان اپنی کامیابی و کامرانی کی ایک نئی تاریخ بھی رقم کررہاتھا۔ ڈپٹی نذیراحمدنےاسی وقت(سیاسی اتھل پتھل ) میں آنکھیں کھولی اورپرورش پائی۔ نذیر احمد نے زندگی کےابتدائی چارسال اپنےننھیال میں گزارے۔ان کےنانا کےانتقال کےبعدخاندان میں جائیدادکےلیےرسی کشی شروع ہوئی جس کی بناپروہ اپنے والدین کےہمراہ اپنےآبائی وطن بجنور چلے گئےاوریہاں انھوں مستقل سکونت اختیارکی۔نذیراحمدکی ذہانت وفطانت بچپن میں بھی نظرآتی ہے۔وہ بچپن ہی سےذہین و فطین تھے۔اس کےساتھ ساتھ ان کےہاں بچپنے کی شرارتیں بھی نظرآتی ہیں جوان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھیں۔نذیراحمدنہایت ہی چنچل اورچلبلےسے آدمی تھے۔ان کے چنچل پن اورچلبلاہٹ کےکئی قصے اورواقعات مشہورہیں،جو مختلف ناقدین اورنذیراحمدپرلکھنےوالوں نےبیان کئے ہیں۔وہ انتہائی شریرتھے،ان کی شرارت کا ایک واقعہ یہ ہےکہ جب ان کی حجامت کی جاتی لیکن وہ ایک نشست میں ہوتی تو وہ باربار اٹھ کربھاگ جاتے اورانھیں دوبارہ ،سہ بارہ اورچوبارہ پکڑکرلایاجاتاتب کہیں جاکران کی حجامت گھنٹوں میں مکمل ہوتی،اسی طرح ان کی شرارت کےسبب ان کےجسم پرجگہ جگہ چوٹ لگے ہوئے تھے۔ نذیراحمدکابچپن ایک معزز،علمی،مذہبی ،اسلامی روایات کا پاسدار اورایک شریف خاندان میں گزرا۔ان کے والدبذات خودبزرگ،دین دار،متقی و پرہیزگار،وضع داراورشریف انسان تھے۔ گھر کے مشرقی تہذیب و تمدن اوراسلامی ماحول کا اثربچےکی شخصیت پربھی ہوتاہےکیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔کیوں کہ بچہ جس ماحول میں پلتاہےاس کی جھلکیاں اس کی شخصیت میں نظرآتی ہیں۔یہ اثرات نذیراحمدکی شخصیت پر بھی ہوئے ہیں۔اورہرقاری ان کی تصانیف کو پڑھ کراسےبخوبی محسوس کرسکتا ہے۔

تعلیم

نذیراحمدنےتعلیم کا آغاز روایت زمانہ کےمطابق گھرسےہی کیا۔اس زمانے میں بطورمسلمان تعلیم کی ابتداقرآن مجیدکی ناظرہ سے ہوتاتھا۔گھرپرتعلیم کےدوران ناظرہ قرآن کےساتھ ساتھ اردووفارسی کی تعلیم مولوی سعادت علی سے حاصل کی،یوں ان کے والدمحترم ان کے معلم اول قرارپائے۔ان کےوالدنےدورانِ تعلیم نذیراحمدکےحصول علم کےحوالےسےکوئی کمی وکوتاہی نہیں برتی۔انھوں نےتعلیم کےساتھ نذیرکی تربیت پر بھی توجہ صرف کی اوراس حوالےسےان کی تربیت بھی احسن طریقےسےکی۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ نذیراحمداسلامی رنگ میں رنگ گئےاوروہ شریفانہ زندگی گزرنےکےطورطریقے سیکھ گئے۔جس کا اثرنہ صرف ان کی زندگی میں بل کہ ان کی تصانیف میں نمایاں ہے۔نذیرنےمحنت و مشقت اورامانت و سچائی کواپنی زندگی کا نصب العین بنایااوراسلامی طور طریقے وسلیقےسےزندگی گزاری۔گھریلوتعلیم کےبعد انھیں ابتدامیں مکتب بھیجاگیا جس سےان کے والد مطمئن نہ تھےلہٰذاانھیں گھرواپس بلایا۔ان کےوالدنےانھیں وقت کےجیدعالم مولاناعبدالعلیم نصراللہ خاں خورجوی کا شاگردبنایادیا۔ مکتب کی تعلیم کوترک کرناان کےلیےاچھاثابت ہواکیوں کہ وہ اتنےبڑےعالم کی شاگردی میں چلےآئے۔مولوی صاحب کی کئی خصوصیات تھیں، ان میں سےایک یہ تھی کہ وہ عربی و فارسی کےجیداورزبردست عالم و فاضل تھے۔مولوی صاحب بجنورمیں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔اس کےساتھ ساتھ خاندانی مراسم اوردرس و تدریس سےدل چسپی کی بناپرانھوں نےاس ذمہ داری کو قبول کرلیا۔انھوں نےنذیراحمداوران کے بڑےبھائی کوتعلیم بھی دی اوران کی تربیت بھی بخوبی کی۔مولوی صاحب نے دوران تعلیم دونوں بچوں کی علم سےدل چسپی اورذہانت کی وجہ سےانھیں دہلی حصول علم کےلیےبھیجنے کا مشورہ دیا۔ان دنوں دہلی کی خاصیت یہ تھی کہ دہلی کو علم و فضل کا مرکز کہا جاتا تھا۔اس کےساتھ دہلی تعلیم و تربیت کا گہورا بھی ٹھہرا۔یہ وہ جگہ تھی کہ جہاں ہرکوئی اپنی علم کی تشنگی بجھانے دوڑا دوڑا چلا آرہا تھا۔ اور آسوہ ہوکر ملک کےکونےکونےمیں اپنےعلم کی فیضان پہنچانےاورملک و قوم کی خدمت کرنےمیں محوہوجاتا۔مولوی سعادت علی نے مولوی صاحب کی بات پلےباندھی اوراپنےدونوں بیٹوں کولےکردہلی پہنچےاوروہاں پنجابی کٹرےکی مسجدمیں ان کےلیےرہائش کاانتظام کیا۔اس محلےکی اورنگ آبادی مسجدمیں عربی کامدرسہ قائم تھا۔جس میں مولوی عبدالخالق درس دیتےتھے۔مولوی سعادت علی نےاپنےبیٹوں کومولوی صاحب کی شاگردی میں دےدیا۔یہ وہ جگہ ہےجہاں نذیراحمدبہت سےتجربوں سے گزرے، یہاں نذیراحمدکوبہت ساری پریشانیاں جھیلنی پڑیں اورساتھ ساتھ وہ ایسےتجربات سےبھی گزرےکہ جس کی تلخی وہ تمام عمرمحسوس کرتےرہے۔ اصل میں اس وقت میں مدرسے کا انتظام و انصرام کادارومدارمسجدکےمتولی یا امام کےہاتھوں میں ہوتاتھا۔جوطلباکےساتھ نارواسلوک کیاکرتےتھے،اوریہاں کےطلبااکثرغریب و ناداراورمسکین تھےجن کےکھانےپینےوغیرہ کاکوئی انتظام نہیں ہواکرتاتھالہٰذا اساتذہ کواپنی فکربھی ہواکرتی تھی۔اوراس کےلیےتین تجاویزتھے۔پہلی تجویزیہ تھی کہ جو بچےبڑےہیں وہ گھرگھرجاکرٹیوشن پڑھائےاورایک یہ کہ کچھ طلبادیگرمساجدمیں مؤذن و امام بنےاورتیسری تجویزیہ تھی کہ کچھ طلبا جو اردگرد کےتھےنزدیک گھروں میں جاکروظائف (کھاناپینا)مانگے۔اسی طرح طلباکی گزربسرہوتی تھی۔کم سن طلباکایہ عالم تھاکہ وہ مولویوں کےزنان خانوں میں بہ طورنوکرخدمت انجام دیتے۔تب کہیں جاکرانھیں روٹی میسرآتی۔نذیراحمدکاشماربھی کم سن طلبامیں ہوتاتھااس کاذکرانھوں نے جا بجا کیا ہے۔دہلی کےایک کانفرنس میں اس حوالےسےکہتےہیں کہ:’’اکثرطالب علم باری باری سے دونوں وقت پنجابیوں کےگھروں سےٹکڑےمانگ کرلاتےاورآپس میں بانٹ کرکھاتےاورانھیں میں ایک میں بھی تھا۔‘‘(۱)ایک اورجگہ فخریہ اندازمیں کہتےہیں:’’یہ لوگ اکثرمسجدوں میں رہتےاورصدقات پرگذاران کرتےکسی کوعار کاموجب ہوتوہومگرمیں اس بات کوفخراًبیان کرتاہوں کہ میری طالب علمی کاابتدائی حصہ اسی طرح بسرہوا۔‘‘(۲)انھوں نےاپنےشاگردمرزافرحت اللہ بیگ کو ایک واقعہ سنایاہےجس کےمتعلق وہ اپنےخاکے’’ نذیراحمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘میں لکھتےہیں:’’پڑھنے کےعلاوہ میرا کام روٹیاں سمیٹنا بھی ہوتاتھا۔صبح ہوئی اورمیں چھبڑی ہاتھ میں لےکرگھرگھرروٹیاں جمع کرنےنکلاکسی نے رات کی بچی ہوئی دال دےدی،کسی نے قیمےکی لگدی ہی رکھ دی،کسی نےدوتین روٹیوں پرٹرخایا۔غرض رنگ برنگ کاکھاناجمع ہوجاتا۔‘‘(۳) نذیراحمدطالب علمی کےزمانےکواپنی زندگی کےبدترین ایام قراردیتےتھے۔اس دورمیں وہ مفلوک الحال اور ۱۔زینت بشیر،ڈاکٹر،نذیراحمدکےناولوں میں نسوانی کردار،اعجازپرنٹنگ پریس،حیدرآباد،۱۹۹۱ء،ص ۲۵۲۔مولوی حافظ نذیراحمد،لکچروں کامجموعہ جلداول،مفیدعام اسٹیم پریس،آگرہ،۱۹۱۸ء،ص ۲۵۲،۲۵۳۳۔مرزافرحت اللہ بیگ،مولوی نذیراحمدکی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،۲۰۱۰ء،ص ۴۸تنگ دست زندگی بسرکررہےتھے۔اگرچہ اس حلقہ تدریس میں انھیں فائدہ بھی پہنچا لیکن کچھ زیادہ نہیں اس حوالے سےافتخاراحمدبلگرامی نےبھی کہا ہےکہ یہاں وہ بہت جبرکےماحول میں ذلت آمیز زندگی بسرکررہےتھےیہاں تک کہ محلےسےروٹیاں مانگ کرلاتے۔ مولوی صاحب کےگھرمیں نوکروں کی طرح سوادسلف لاتے،بچوں کا خیال رکھتےاورمصالحہ بھی پیستےجس پرایک لڑکی(بعدمیں ان کی بیگم بنی)بٹّہ مارمارکران کی انگلیاں کچل دیتی اوران سب سے مستزاد مسجدمیں مارپٹائی بھی ہوتی۔ نذیراحمدان سب سے بہت تنگ آچکےتھےلہٰذا اس زمانےمیں دہلی کالج کی بڑی شہرت تھی۔اس کالج کومعیاری کالج کہاجاتاتھا۔اس کالج میں مروجہ علوم کےساتھ ساتھ سائنس،انگریزی اورمعلومات عامہ کادرس بھی دیاجاتاتھا۔اتفاقاً نذیراحمدکی ملاقات اس کالج کےپرنسپل جناب گارگل سےہوگئی اورانھوں نےنذیرکی خواہش کےمطابق دہلی کالج میں داخلہ دلوانےکا وعدہ کرلیااوریوں ۱۸۴۵ءمیں نذیراحمددہلی کالج میں داخل ہوگئے۔داخلےکےایک ماہ بعدانھیں ایک روپیہ وظیفہ بھی ملنےلگا۔ جب ان کےوالدکاانتقال ہوا تواس کےبعدنذیراحمدکتابوں میں اوربھی منہمک ہوگئے۔انھیں تاریخ و ریاضی سےبالکل بھی ل چسپی نہیں تھی شایداس کی وجہ یہ ہوکہ وہ ادب کی طرف زیادہ مائل تھے۔لیکن ریاضی و تاریخ کےطلباکووظائف ملتےتھےلہٰذا ناچاہتےہوئےبھی نذیراحمدنےان مضامین میں محنت شروع کی۔دہلی کالج سےانھیں زیادہ فائدہ نہ پہنچاکیوں کہ عربی و فاسی وہ پہلے سے جانتے تھے اور ریاضی و تاریخ میں انھیں دل چسپی نہ تھی۔ہاں البتہ انھیں وظیفہ ضرورملتاتھاجس کی بدولت وہ باقی تعلیم جاری رکھ سکے۔

ملازمت

نذیراحمدنوسال دلی کالج میں تعلیم حاصل کرنےکےبعدفکرمعاش کی تلاش میں نکل پڑے۔ان کے والد کے انتقال کےبعدگھرکی ذمہ داری ان کےسرتھی۔اس دوران انھیں معلوم ہواکہ ضلع گجرات کےسرریچرڈٹمپل ڈپٹی کمشنرمدرس قائم کرنےوالےہیں۔جن میں عربی کےچھ معلموں کی احتیاج ہے۔اس کےلیےچھ طالب علموں کا انتخاب ہوا۔چوں کہ نذیرکاشماربھی وقت کےہونہارطلبامیں ہوتاتھاتوانھیں پورایقین تھاکہ وہ بھی ان میں شامل ہوں گےلیکن بدقسمتی سےایسا نہ ہوسکا اورجن طلباکاانتخاب ہواوہ نذیراحمدسےباصلاحیت نہ تھے۔اس حوالےسےانھیں شدیدصدمہ پہنچا۔اس لیےلکھتےہیں:’’اس زندگی میں مجھ کوبھی اتفاق ناملائم پیش آئے ہیں مگرجس قدررنج اس ناکامی کامجھ کوہوامیں بیان نہیں کرسکتاسچ کہتاہوں اس وقت کبھی کبھی خودکشی کا بھی خیال آیا۔‘‘(۱) لیکن منتخب اساتذہ میں سےایک اپنی علالت کےباعث جلدمستعفی ہوگئےلہٰذا نذیراحمدان کی جگہ ملازم ہوئے۔وہ پنجاب روانہ ہوئےاوروہاں ماہ وار چالیس روپےکنجاہ میں مدرس ہوئے۔یہاں وہ نئےماحول،نئی زبان اورنئےلوگوں سےمتعارف ہوئےاورانھیں پنجابی کی بناپربہت مشکلات کا سامنا بھی کرناپڑا۔اس مشکل امرکےمتعلق خودلکھتےہیں کہ بچےعربی و فارسی سےنابلدتھےتوکیاصورت حال تھی:’’بےکےنیچےایک نقطہ ‘‘لڑکوں کویہ بات ملٹن کا کلام معلوم ہوئی ان کوکیاپتہ کہ پنجاب میں بےکےنیچےایک نقطہ نہیں ہوتابلکہ بےدےہٹیاں اک بندی،ہوتی ہےاورجیم کےپیٹ میں ایک نقطہ نہیں ہوتابلکہ ’’جم دےڈہڈوچ اک بندی‘‘ہوتی ہےغرض ’زبان یارمن ترکی و من ترکی نمی دانم‘ والا مضمون ہوا۔مولانا یہ حال دیکھ کراپنی قسمت پرافسوس کرتےکہ ساری عمرحماسہ اورمتنبیّ پڑھتے ہوئے گذر گئی۔ پڑھانے کو ملے مبتدی اوروہ بھی لڑکےنہیں بلکہ منڈے۔‘‘(۲) وہ اس ماحول سےتنگ آچکےتھےلہٰذا دوسری جگہ ملازمت ڈھونڈنےکےلیےخط و کتابت کرتے،دوران ملازمت انھیں دوجگہوں سےپیش کش ہوئی۔ان میں ایک ملازمت اجمیرکےعربی کالج کی تھی جو سوروپےماہواراور۱۔جمیل اختر،مونوگراف نذیراحمد،اردوادکامی،دہلی،۲۰۰۸ء،ص ۳۳۲۔مسٹرکے۔ایل۔رلیارام،مشاہیرشعرائےہند:سوانح حیات شمس العلماءحافظ،رائےصاحب منشی گلاب سنگھ اینڈسنز،۱۹۳۹ء،ص ۱۲ ایک کانپورمیں ڈپٹی انسپکٹرمدرس کی تھی جس میں وظیفہ اسی روپے ماہوار تھا۔ مولانانےڈپٹی انسپکٹرمدرسی کی طرف توجہ دی لیکن اس وقت کانپورمیں کیپٹن فلرڈپٹی انسپکٹرمدارس تھےلہٰذا ان سےنہ بنی اورمستعفی ہوگئے۔وہ دہلی آئےاوراس دوران ۱۸۵۷ءکاسانحہ سامنےآیا۔ دہلی کی حالت بہت خراب تھی۔یہاں انھوں نے ڈائریکٹرتعلیمات ہنری اسٹوارڈریڈ کے میر منشی مولوی کریم صاحب کی وساطت سےڈائریکٹرتعلیمات سےملاقات کی اورماسٹررام چندرجوکہ دہلی کالج میں ریاضی کےاستادتھے کی سفارش سےالہ آبادمیں ڈپٹی انسپکٹری کاعہدہ ملا۔یہ بھی سوروپےماہانہ ملازمت تھی۔ نذیراحمدچوں کہ مشرقی تہذیب و ثقافت کےدلدادہ تھےلہٰذاانگریزی کی طرف توجہ نہ دی لیکن ایک واقعے کی وجہ سےوہ انگریزی سیکھنےکےلیےآمادہ ہوئے۔انھوں نےعبداللہ خان نامی شخص سےانگریزی سیکھنی شروع کی اورجلدہی اپنی ذہانت کی وجہ سےسیکھ لی۔الہ آبادمیں ان کی بابوشیو پرساد سےنہیں بنتی تھی لہٰذا حکومت نےانکم ٹیکس ایکٹ جاری کیاجس میں مترجم کی ضرورت تھی۔مولوی ناصرعلی نےان کا نام پیش کیا۔اورسرولیم مورکےاشارےپریہ کام انھیں سونپ دیاگیا۔اسی طرح انڈین پینل کوڈاردوترجمےکاآغازہوا۔اس میں مترجمین کی جماعت میں مولوی عظمت اللہ،مولوی کریم بخش وغیرہ شامل تھےلیکن ڈائریکٹرتعلیمات مسٹرریڈکوان کاترجمہ پسندنہیں تھا۔مولوی نذیراحمدکی ملاقات ان سےہوئی اوران کےترجمےکودیکھ کرڈائریکٹرتعلیمات حیران ہوگئے۔انڈین پینل کوڈکاترجمہ تعزیرات ہندکےنام سےنذیراحمدکاایک اہم کارنامہ ہے۔ اسی ترجمےکےعوض انھیں ڈپٹی کلکٹرکاعہدہ ملا،کچھ دنوں بعدتحصلیداری کاعہدہ ملا،۱۸۶۱ءمیں تحصلیداری کےامتحان میں نذیراحمدنےاول درجےسےکامیابی حاصل کی۔دوبرس وہ کانپور اور گورکھپور میں اس عہدےپرفائزرہے۔۱۹۶۳ءمیں وہ کانپورمیں ڈپٹی کلکٹرمقررہوئے۔انھیں بعض انگریزوں نےاوربھی بڑےبڑےعہدوں کی پیش کش کی ،بعض کوانھوں نےقبول کیااوربعض کوردکیا۔نواب محسن الملک کی وجہ سےحیدرآبادمیں اعلیٰ عہدےپرفائزہوئے۔المختصرانھوں نےمختلف مقامات پرمختلف ملازمتیں کی ہیں۔

نذیراحمد پر جلہ مواد یہاں پڑھیں

شادی اوراولاد

دہلی کالج میں نذیراحمد کی لیاقت و ذہانت کےچرچےتھے۔اس اثنا میں مولوی عبدالخالق صاحب نےمسجدکی امامت اوردوسرےفرائض اپنےبڑےبیٹےمولوی عبدالقادرصاحب کوسونپ دیئے۔مولوی عبدالقادرکی بڑی بیٹی صفیۃ النساء جواس وقت بالغ و باشعورتھی کی نسبت ڈپٹی نذیراحمدسےکردی گئی۔یہ وہی صاحبزادی ہےجنھیں نذیردوران طالب علمی کبھی گودمیں بھی لیاکرتےتھے۔نذیراحمدنےاس زمانےکےمطابق بہت بڑی بغاوت کی تھی کہ یہ شادی اپنی مرضی سےکی۔لہٰذانذیراحمدکی والدہ نے بجنورمیں ان کی دوسری شادی حسب منشا کرادی۔مگریہ شادی طلاق پرمنتج ہوئی۔ان کی اس بیوی سےکوئی اولاد نہیں تھی۔ نذیراحمدکاسسرال خوش حال تھااوروہ چاہتےکہ نذیران کےساتھ رہےاوراس کاخیال رکھاجائےلیکن نذیراحمدچوں کہ غیورواردہوئےتھےچناں چہ سسرال کےگھرکےچھوٹےتحفےتحائف بھی قبول نہیں کرتےتھے۔ان کی بیوی اس حوالےسےناراضگی کا اظہارکرتی تھی لیکن مولاناانھیں سمجھاتےتھے،اور کہتےتھےکہ:’’تم اس کومیری ناخوشی اورناراض مندی پرمحمول نہ کرو۔خدااپنی قدرت سےمجھ کوفارغ البالی دےگاتوتم دیکھ لوگی کہ تم کوکتناخوش رکھتاہوں۔یہ تنگدستی انشاءاللہ چندروزہ ہےتم کوبددل نہ ہونا چاہئے۔‘‘(۱) نذیراحمدکثیرالاولادتھے۔ان کےہاں کل بیس(۲۰)بچےہوئےلیکن صرف تین حیات رہے۔ دوبیٹیاں ایک سکینہ بیگم اوردوسری صغریٰ بیگم اورایک بیٹاجس کانام بشرالدین احمدتھا۔ان کاایک بیٹاسات برس کاتھاجوہیضہ کی وجہ سےگزرگیا۔نذیرنےاس کامرثیہ بھی لکھاہے۔ایک اوربیٹابھی ہیضہ سےفوت ہوا۔ان کی بڑی بیٹی سکینہ بیگم کی شادی مولوی سیداحمدحسین صاحب سےہوئی اورصغریٰ بیگم خان بہادرمولوی اشرف الحق کی اہلیہ تھیں۔مولوی بشرالدین احمدکی شادی نواب قطب الدین مرحوم کی پوتی امت المغنی سےہوئی۔ان کی پہلی بیوی سےبیس سال تک اولاد نہ ہوئی لہٰذا دوسری شادی کی، اس سےبھی اولادتاخیرسےہوئی لیکن ہوئی۔انھوں نےدوسری بیوی کےانتقال کےبعدتیسری شادی بھی کی اوران کی کل گیارہ(۱۱)اولادیں تھیں۔۱۔ اشفاق محمدخاں،ڈاکٹر،نذیراحمدکےناول(تنقیدی مطالعہ)،ص ۱۵

یہ بھی پڑھیں : ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ 01

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں