ڈرامہ آگرہ بازار کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

ڈرامہ آگرہ بازار کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ

ڈرامہ آگرہ بازار کا خلاصہ

پہلے حصے میں بازار کا ماحول نظر آتا ہے۔ مداری تاریخی پس منظر پیش کرتا ہے اور اس کی اکثر باتیں نظیر کی نظموں کی طرف اشارے کرتے ہیں ۔

مداری کی باتوں سے نہیں نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے دلی کو لوٹنے اور سورج مل جاٹ کے آگرہ شہر کو تباہ کرنے کا علم ہوتا ہے۔

اس کے انگریزوں کے ہندوستان آنے اور پلاسی کی جنگ کا ذکر ہوتا ہے ۔ پھر بنگال کے قحط کی تصویر کھینچتے ہوئے اپنی مفلسی کا رونا رونے لگتا ہے ۔

جب مداری کا بندر تماشائی کے پاس پیسے لینے کی غرض سے جاتا ہے تو لوگ وہاں سے جانے لگتے ہیں اور لکڑی والا ان کے سامنے جا کر لکڑی بیچنے کی کوشش کرتا ہے ۔

لکڑی والے سے مداری اس بات پر لڑ نے لگتا ہے کہ اس نے اس کے تماشائی کو لکڑی بیچنے گیا اور وہ اسے پیسے دیے بغیر چلے گئے۔ گویا ہر شخص اپنی مفلسی کا رونا روتا ہے۔

گویا ککڑی والے کی جستجو، افلاس کی لعنت، لکڑی والے کی ابتدائی ناکامیاں وغیرہ کی مدد سے ڈرامے کو پہلی کشمکش کی جانب لے جاتا ہے۔دوسرے حصے میں اس زمانے کے تذکرہ نویس، شاعر اور ادیب، تساہل اور تو ہم کو پیش کیا گیا ہے۔

صحت مند اور افادی ادب جس کا عوام کی زندگی اور ان کے روز مرہ مسائل سے گہرا تعلق ہے ان کی نظر میں عامیانہ اور گھٹیا ادب ہے اور یہی ادب اور یہی شاعری سارے بازار میں گونجی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لکڑی والے کی جستجو اب بھی جاری ہے۔

وہ ایک ایک کے پیچھے پھر کر اپنی لکڑی پر چند اشعار لکھوانا چاہتا ہے لیکن کوئی اس پر تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی مایوسی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے

تربوز والا : اپنا تو دو چار ہے تربوج بیچنا چھوڑ کے کویتار چنا شروع کر دیں ( دونوں ہنستے ہیں ) یا پھر یہ ہرہی چھوڑ دیں!لڈو والا: پر جاؤ گے کدھر ، سوال تو یہ ہے !

چاروں اور لوٹ مار مچی ہوئی ہے!تربوز والا : ایک جندگی نے کیا نہیں دکھایا ؟ بڑے بڑے بادشاہ در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں تو ہم کس کھیت کے مولی ہیں بھیا؟ چلیں بھئی ، دن بھر پیر تو ڑنا تو کرموں میں لکھ ہے۔

تربوز ٹھنڈا ٹھنڈا تر بوج۔ مایوسی اس قدر بڑھتی ہے کہ وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہاں ایک طرح سے ڈرامے کی کشمکش اپنے عروج پر آ کر ختم ہوتا ہے۔ اس طرح پہلا ا ایکٹ ختم ہوتا ہے۔

تیسرے حصے میں پتنگ والے کا کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ پتنگ والے کے کردار میں نظیر اکبر آبادی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

گویا نظیر کے کردار اور اسکی زندگی پر روشنی پڑنے کا سلسلہ یہاں زبان سے نظیر کا کلام ایک جانب تو جانب منتصب ادیب اور مورخ ناک بھوں چڑھاتا ہے۔

یہ لوگ پست مذاق لوگوں کا مجموع دیکھ کر غصے میں پاؤں پٹختے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں اور اب جو لوگ کتب فروش کی دکان اور اس کے آس پاس ہوتے ہیں او پتنگ والے کی دکان کے قریب آجاتے ہیں اور ذوق وشوق سے نظیر کا کلام سنے میں مگن ہو جاتےہیں۔

اس طرح پتنگ والے کی دکان ڈرامے کا نقطۂ عروج بن جاتی ہے ۔

آخری حصے میں لکڑی والے کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور نظیر کی مقبولیت کا اظہار بغیر کسی نعرہ بازی کے ہونے لگتا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے اور عوام کے لیے بھی اعلیٰ شاعری تخلیق کی جاسکتی ہے۔

نظیر کی انسان دوستی اور ہمہ گیری اس وقت پورے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔

نظم آدمی نامہ سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ مفلس و گدا سب آدمی ہیں اور وہ کسی سے کم تر نہیں ہیں اگر اس کے اندر کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور عزم ہے تو ۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ڈرامہ نگاری بنیاد مباحث

ڈرامہ آگرہ بازار کا تنقیدی جائزہ

آگرہ بازار حبیب تنویر کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔ آگرہ بازار کو حبیب تنویر نے 1954ء میں لکھا تھا اور پہلے پہل جامعہ ملیہ اسلامی نئی دہلی میں کھیلا گیا تھا۔ڈراما آگرہ بازار پہلی بار 14 / مارچ 1954 کو کھیلا گیا تھا۔

ڈراما آگرہ بازار میں حبیب تنویر نے نظیر اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی تخلیقات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک بازار کو دکھایا ہے جو آگرہ میں ہے۔ ۔

ڈراما آگرہ بازار بظاہر نظیر اکبر آبادی کی حیات اور ان کی شاعری پر مبنی دکھائی دیتا ہے لیکن اس ڈراما کے نظیر اکبر آبادی کے گرد گھومنے کے باوجود اس کا ہیرو نظیر نہیں ہے بلکہ نظیر کا زمانہ اور اس دور کے سماجی رویے ہیں۔

یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حبیب تنویر نے نظیر اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی شاعری کو بنیاد بنا کر ڈرامہ آگرہ بازار لکھا ہے۔

ڈراما آگرہ بازار میں نظیر کے کل تیس منظوم کلام پیش کیے گئے ہیں جن میں شہر آشوب نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ ڈراما آگرہ بازار کے پلاٹ کی بنیاد انسانی زندگی کی ٹھوس صداقتوں پر مبنی ہے۔

یادر ہے کہ پورے ڈرامے میں نظیر کبھی بھی اسٹیج پر نہیں آتے لیکن اس کی موجودگی کا احساس مختلف کرداروں کی شکل میں بار بار ہوتا ہے۔

ڈراما آگرہ بازار کے درمیان میں وقفے وقفے سے بار بار دو فقیر نظیر کے کلام گاتے ہوئے آتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔

حبیب تنویر نے ڈراما آگرہ بازار کے پیش لفظ میں لکھا ہے: پلاٹ کے اعتبار سے ڈراما افسانوی حیثیت رکھتا ہے ، کہانی من گھڑت ہے اور بہت چھوٹی اور سیدھی سادی !

میں نے زور اس بات پر دیا ہے کہ کھیل کو اس روپ میں پیش کروں کہ جو بنیادی بات نظیر کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں، وہ ٹھیک ٹھیک اور دل چسپی کے ساتھ کہہ پاؤں میں ڈرامے کی بنیاد نظیر کی زندگی کو نہیں بلکہ اس کے کلام کو بنانا چاہتا تھا۔

ڈراما لکھنے کے دوران میں یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ نظیر کو اسٹیچ پر نہ لانا ہی بہتر ہوگا۔ اس سے نہ صرف میرے موضوع کے بہت سے مرحلے طے ہو گئے بلکہ میری تکنیک پر بھی اس کا اچھا اثرپڑا خنک اور موضوع کا گتھاؤ بڑھ گیا۔ڈراما اگرہ بازار میں صرف دو ایکٹ ہیں۔ ”

پہلا ایکٹ اس طرح شروع ہوتا ہے:”دو فقیر شہر آشوب گاتے ہوئے ہال کے اندر سے داخل ہو کر اسٹیج پر جاتے ہیں۔

کفنی پہنے ایک ہاتھ میں کشکول اور تبیح اور دوسرے میں ایک ڈنڈا اور لوہے کے کڑے لیے، پردے کے سامنے کھڑا ہو کر نظم سناتے ہیں اور تال پر کڑے بجاتے ہیں۔ نظم کے آخری بند کے اختام پر پردہ کھلتا ہے۔

فقیر گاتے ہوئے اسٹیج پر سے گزر جاتے ہیں۔دوسرا ایکٹ۔پردہ اٹھنے سے پہلے فقیر اسی طرح حال میں سے گزر کر پردے کے سامنے کھڑا بنجار نامہ سناتے ہیں۔

آخری بند پر پردہ اٹھتا ہے اور فقیر گاتے ہوئے ان سے چلے جاتے ہیں ۔

دوسرا ایکٹ اور ڈرامہ اس طرح ختم ہوتا ہے۔ ”گانے والوں کی آواز اور سازوں کی صدا یک بارگی بہت اونچی اٹھتی ہے اور بہت تیزی سے پردی گر جاتا ہے۔

ڈرامہ آگرہ بازار کے پلاٹ کو چار حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو ڈرامہ نگاری آغاز و ارتقاء

معاون وسائل: ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں